بساط غم کیا بچھی رہے گی ؟ ۔۔۔ سید فیضی
بساط ِ غم کیا بچھی رہے گی ؟
( سید فیضی )
یہ مسکراتے ہوئے ستاروں کی سیج، ہنستا ہوا شبستاں
نگاہیں وحشت زدہ تخیل کو ساتھ لے کر
بلند زینوں پہ چڑھ رہی ہیں
سہیلیاں ۔۔۔۔ شوخ اور چنچل
نئی نویلی دلہن کو خلوت میں چھوڑنے کے لیے چلی ہیں
مگر ۔۔۔ یہ پھولوں بھری مسہری
رسیلے جوبن کی ہر کلی کا رس ایک لمحے میں چوس لے گی
ہزاروں ہنگامے جگمگایئں گےسرد آنچل کی سلوٹوں میں
نظر کے پردے نہیں اٹھیں گے، کسی سے کیا آج تک اٹھے ہیں
محل امیدوں کے یونہی دیوار و در کی آغوش میں رہیں گے
ابلتے صحرائے کہکشاں سے
خرد کے سینے پہ لاکھ چشمے دھویئں کی صورت بہا کرٰن گے
ندی کی لہریں سکوں کے پردے میں مضطرب ہیں
سویری آیئں گے اور جایئں گے ۔۔۔۔ ہنست بستے
سیاہ رات اک بساط ِ غم ہے
بچھی ہوئی ہے بچھی رہے گی ؟