گم شدہ پگڈنڈی پر ملاقات ۔۔۔ تنویر قاضی
گُم شدہ پگڈنڈی پر مُلاقات
صابر ظفر کی نئی کتاب
”کھیتوں کی ریکھاؤں میں” کے تناظر میں
تنویر قاضی
جیسے یکلخت شاعر کو خیال آیا پیچھے وہ کوئی پگڈنڈی گُم کر آیا ہو۔۔جہاں پر ہالی ہانکیں لگاتے ایک وٹ سے دور کسی وٹ پر کھڑے کسان کو متوجہ کرتے اپنے ہونے کا اعلان کرتے ہیں۔۔ جس پر مٹکیاں اُٹھائے مُٹیاریں ایک خاص چال سے چلتے دہقانوں کو لُبھاتی پنگھٹ تک جاتی ہیں۔۔۔ رستے جن کی جھجھریوں کی ٹھیکریوں سے اٹے پڑے ہیں کیوں کہ بہت کٹھن ہے ڈگر پن گھٹ کی ۔۔یہاں گاگریں ہی نہیں دل بھی ٹُوٹ ٹُوٹ جاتے ہیں لیکن اُن کا احوال کہیں بھیتر وریدوں میں ماہیوں اور ڈھولوں کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔۔
” کھیتوں کی ریکھاؤں میں ” یادوں کی جھنگی ہے جہاں ناچتا مور زخمی ہے اور یار قبلہ و کعبہ بن گیا ہے یعنی وہاں رب رانجھن جیسا ناہیں ۔۔۔ یہ شاعری جوگیوں کی ہوک روگیوں کی کوک اور بچھڑی کُونجوں کی برہا ہے ۔۔۔
شاعر ایک کسان کی طرح کھیت میں ہل چلاتا نطر آتا ہے لگا ہی نہیں کہ وہ تماشہ کرنے والا اپنے گراں کو بُھولا ہوا ایک راہ گیر ہے۔ چھاننے سے مِٹی کی جگہ اشعار چھنتے ہیں۔ مِٹیو مِٹی ہوتے بیلوں کی گھنٹیوں کی آواز میں جاگتا مُٹیاروں کے سنگ لابیں لگاتا اور پھر فصل پکنے پر وساکھی میں رقص کرتے بھی اُسے پایا گیا۔۔
وساکھی پر اُسے دیکھا تھا پہلی بار ظفر
وہ حُسن جس نے مرے دل پہ حکمرانی کی
دہقان کا پسینہ شاعر کی ہیشانی پر جھلکے تو اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے۔ مشقتی مسافت اوڑھے سہل طلبی کو تج دینا کھیتوں کی ریکھاوں میں بہت نمایاں ہم دیکھ سکتے ہیں۔ سویرے چلتی مدھانی کی صدا سے مال مویشی کا ملاپ کرتا شور کیسا سماں باندھتا ہے۔ یوں لگا گتاوا کرتے کُھرلی میں شاعر کے ہاتھ لِبڑے ہوں مویشی پیار سے دیکھتے ہوں بعد میں جگالی کا منظر اطمیناں بخش سا لگے امید بھرا سا خواب آمیز۔
سویرے مال مویشی بھی شور کرتے ہیں
صدا بھی آتی ہےچلتی ہوئی مدھانی کی
گاؤں صابر ظفر کے ساتھ چلتا ہے پورا فوک لور سمیٹے۔ گیت ماہیئے کافیاں ہالی شاعر کے لہو بھیتر مدغم ہو گئے۔ اس سے زیادہ ڈاؤن ٹُو ارتھ کون ہو گا اس سے سوا دھرتی سے کیا جُڑت ہو گی۔۔ سوندھی سوندھی خاک ۔۔خاک در خاک بچھ بچھ جاتی ہے۔ مانس نتھنے پُھلاتا کھیتوں کا نشہ سانسوں میں اُتارتا ہے۔۔ شعر دیکھئے
ہر آن گزرتی ہے یہاں زندگی اس کی
مِٹی سے الگ کیسے ہو مِٹی کا یہ باوا
اس شاعری میں زمین کی کُرلاٹ دبی ہوئی مانسوں کو اپنی اور بُلاتی ہے جو پردیس سدھار گئے یا شہروں کی دُھند اور دُھویں میں کھو کر رہ گئے۔۔۔ پُرنم دھرتی پُکارتی ہے آؤ مجھ سے دوستی کرو۔ فطرت کے قریب ہو کر بُوٹا بُوٹا اس کا حصہ بنو اک مک ہو جاؤ۔۔
ایک بڑا بھید بھرا شعر دیکھیئے اس کے بیچ کیا کیا نہیں ثقافت سیپی حکمرانی اور ہیٹرڈ لَو
کی عجیب کیفیت نیا سپنا گھڑتی نئی کھڑکی کھولتی۔۔
کبھی کبھی ہو بہت مہرباں مصلی پر
ہے پورے گاؤں میں اک شان چودھرانی کی
کنک وِنی جٹیوں کی لُونی وینیوں پر چھنکتی کانچ کی ونگیں شاعر کو اُنگھلاٹ سے چارپائی کی پائینتی میں نجانے کیا تلاش کراتی ہیں ایک شِئیر سطح کی بات ان سوانیوں کے احوال سے کی گئی۔ سو کوئی اشارہ کنایہ اوپرا اور اجنبی نہیں کسی کردار کا دھیان آسمانی ہوا بھی تو اس کے پاؤں جنتِ ارضی سے جُڑے ہوئے لگے۔۔
خود سپردگی کی ایک ونگی چکھتے ہیں واہ کیسا عمدہ شعر کہہ گئے ہیں
ایسے میرے لہو میں آن ٹھہر
جس طرح بھینس لیٹے گارے میں
زندگی کو ایسا سانواں دیکھنا خوب ہے وہ بھی دیہاتی حیات میں
کھیت میں رات چاند کی سوئے
جتنا ہم جاگے اُتنا ہی سوئے
ابتدا سے”کھیتوں کی ریکھاؤں میں” تک کی شاعری خصوصی طور پر غزل کا مرکزی پنگھٹ ہے ۔۔جہاں نظیر اکبر آبادی سے سعید الدین اور نصیر احمد ناصر تک کی نظم کی جمالیات مزاحمت اور گُھلاوٹ بھی محسوس ہوتی ہے۔
جو کہتے ہیں آدرش کیا ہوتا ہے
نظریہ کس چیز کا نام ہے
اس آگاہی جُڑت کومِٹمنٹ اور عشق کو صابر ظفر نے یہاں ہینٹ کر دیا ہے ۔ چھاننے سے چھَنتی مِٹی ہے کہ صابر ظفر کے خاک در خاک سمائے مصرعے جو وریدوں میں سانس لیتے رنجِ رائیگانی پر مرہم رکھتے ہیں زندگی کرنے کو اُکساتے ہیں
ایک طرح دار ہجر بھی کار فرما ہے کھیتوں کی ریکھاؤں میں ۔۔۔ دیکھیئے
تھا خالی دل کا یہ ویہڑا ہمارا
یہاں محرم ہوا کیہڑا ہمارا
ہمیں پانی پلایا کب کسی نے
کسی نے کب کنواں گیڑا ہمارا
کبھی کھیتوں میں جب بھی پھولی سرسوں
کسی نے تزکرہ چھیڑا ہمارا
تمہارے ہجر میں ہاتھوں سے پِھسلے
ہمیشہ آٹے کا پیڑا ہمارا
جمالیات اور مزاحمت کو اُجالتا تنہا شاعر صابر ظفر ہر کُھردرے محاذ پر لڑتا ہے
لیکن آخر کو مایوسی کی پگڈنڈی پر جو وہ کہتا ہے۔ آپ بھی سُنیئے مجھے تو اس مصرعے نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔۔
”اب بجوکے ہیں صرف کھیتوں میں”