دریا اور دریچے ۔از فاطمہ مہرو ۔۔۔ مقالہ ۔۔۔تنویر قاضی
دریا اور دریچے (نظمیں ) ۔۔ فاطمہ مہرو
مقالہ :: تنویر قاضی
دریا کے دریچوں سے اُترتی دھرتی
فاطمہ مہرو کی کتاب دریا اور دریچے کے تناظر میں
۔اس کتاب کا مُکھ ورق دریا کے سُکڑنے کی کہانی کہہ رہا ہے دریچہ بھر پانی بچا ہے باقی تو ریت کا راج ہے دھرتی پانیوں کو ترسی ہوئی ہے لگتا ہے شاعری میں اسی لِئے پیاس کی باس ہر جا محسوس ہوتی ہے۔ محبت کی تشنگی بھی کہی جا سکتی ہے۔۔چہار اطراف ایک جاں لیوا تریہہ جس کا ہر کوئی شکار ہے۔۔ اشرافیہ سے جو جُوٹھا جَل بچا آلُودہ تھا جو بُعد اور دوری و مہجوری کا باعث بنا۔۔۔ کثافت زدہ اشیاء پاورٹی لائن کے نیچے بستے مانسوں کو سونپ دی گئیں اور اس دھندے کو قسمت اور مقدر کا کھیل کہا گیا یعنی سارا پیچھے سے لے کر آیا ہے انسان۔۔ جدید صوفیوں نے بھی حد کر دی۔۔
لیکن ہماری شاعرہ نے حقائق کو چھیڑ اس فرسودگی کو توڑنے کی کوشش کی۔۔نظم ”شکتی ” میں دیکھئے
ہر سوئے ہوئے کو
لا فانیت کی ابدی بہاریں
نصیب نہیں ہوتیں
میں زندگی کے پہلے دن سے
مرنے میں جینے
اور جینے میں مرنے کی
پریکٹس کر رہی ہوں
مجھے
انسومینیا کے پُل پر سے
زندگی اور موت کو
دھکا دینے کی
شکتی حاصل کرنی ہے
بغور دیکھا جائے تو فاطمہ محبت کی تشنگی سے نکلی خاموشی کی صدا کی شاعرہ ہے۔۔کہ
” بے خبری میں مار ے جانے سے بہتر ہے خبر کے ساتھ مارے جاؤ ” یہ جملہ اس کی ہر نظم کو انگیخت دیتا لگتا ہے۔۔اور یہ آج سے منسلک ہے،، جدید و سائینسی دور کی یہی دین بندے کو تنہا کِئے دے رہی ہے۔۔تنہائی پر منتج ہوتی محبت اور خاموشی پُھول لِئے کھڑی ہیں گُلدان نہیں مل رہا۔۔گُلاب پڑے پڑے باسی ہو رہے ہیں ویلنٹائن ڈے خیالوں میں گڈ مڈ ہو رہا ہے۔۔اکلاپا اوڑھے لارنس گارڈن ہی میسر آتا ہے۔۔وہاں کے سیکیورٹی گارڈزکو بھی وہ بندہ چُبھنے لگتا ہے روز کی حاضری دینے پر۔۔
ونگی کے طور پر محبت خاموشی اور تنہائی کی کچھ نظموں کے ٹُکڑے دیکھتے ہیں۔۔
” خاموشی”
اور مجھے ملتی ہے صرف اس کی خاموشی
جو صدیوں سے قتل کی مثل ہے
میں اس متعلق کوئی احتجاج نہیں
کرنا چاہتی کہ کچھ قتل صرف خاموشی
میں کِئے جائیں تو کئی زندگیاں بچائی جا
سکتی ہیں۔ محبت قتل سے پناہ نہیں مانگتی
”سمندر”
میں دن اس کے قریب جانے کی
کوشش میں گزارتی ہوں
وہ موج موج مسکراتا ہے
لہر در لہر پیچھے ہٹتا جاتا ہے
کچھ بولتا نہیں
وہ رات میرے قریب آنے کی
کوشش میں گزارتا ہے
میں لہر لہر مسکراتی ہوں
موج در موج پیچھے ہٹتی جاتی ہوں
کچھ بولتی نہیں
”ایک ہینڈ سم آدمی کو کھو دینے کا دُکھ”
یہ انتہا کی حدوں کو چُھوتی ہوئی محبت کی نظم ہے۔۔ بھیتر سوئے درد جگاتی ، رُلاتی اور ہجر گھاٹی لُڑحکاتی .
,,ایک ہینڈ سم آدمی کو
کھو دینے کا دُکھ
آپ نہیں سمجھ سکتے
لیکن آپ کا درزی
زیرِ لب مسکراھٹ کے ساتھ
اتنا ضرور سمجھ جائے گا,,
آخر سَر پر خیالِ یار کی چادر ہی رہ جاتی ہے جو اُڑتی اُڑتی کالے کیکروں میں پھنسی پائی جاتی ہے۔۔ مانس کہاں گیا شائد اُسے تنہائی کی زمین کھا گئی یا اکلاپے کا آسمان نگل گیا۔۔چیلیں کہیں دور ماس پر جھپٹ رہی ہیں ۔۔ چھت پر کسی کو پُرزہ پُرزہ ہوتے دیکھا گیا ہے
اصل غُربت محبت کی ہوتی ہے فقیر کر دیتی ہے فقیرنیاں بنا دیتی ہے۔۔بہت لاڈلے لوگ جوگی و بھکشُو بنتے دیکھے ہیں۔
سَر پر ہجومِ دردِ غریبی سے ڈالیءے
وہ ایک مُشتِ خاک کہ صحرا کہیں جسے….. غالب
” تمہارا نام” نظم میں محبت کی شدت کو دیکھا سُنا سوچا جا سکتا ہے جہاں اب ” رب رانجھن جیہا ناہیں” کی سی کیفیت پائی جاتی ہے۔۔ اسی محبت کے پچھواڑے اسی کی نہایت غریبی دیکھنے کو ملتی ہے۔۔ محرابوں ۔۔بالکونیوں۔۔پگڈنڈیوں۔۔پنگھٹوں پر ٹھیکری ٹھیکری ہو پڑی محبت راہیں تکتی خود بھی ایک راہ بن جاتی ہے۔۔
انسانی کسمپرسی و بے بسی کی کہانی ہمیں ” مُردہ تسموں کے جوتے” میں روکتی ہے۔۔نظم بلکتی انسان کی ببتا بیان کرتی ہے۔۔ یہ پسے لوگوں کا نوحہ ہے جو اندازِ بیان میں منفرد ہے۔۔شاعرہ نے انسانی دُرگت کو مُردہ جوتوں کے تسموں میں آہ و بکا کرتے دیکھا۔۔
”خدا بارش نہیں برسائے گا”
یہ جھنجھلاھٹ میں کی گئی بد دعا ہے
اپنی قبر کی مِٹی ڈھوتے
مزدوروں کی کان میں
سرداروں کے باقی ہوتے
طبقاتی گُھمسان میں
نظر نہ آتے ہوئے بھی لگا کہ بد دعا اُلٹے ہاتھوں سے دی گئی ہے سسٹم کی بربادی پر۔۔
” وہ جس کا نام شاعر ہے” میں نثری شاعری کی پُختگی دیکھئے کیا خوب نین نقشہ بنایا گیا ہے۔۔
” سمندر کی لہریں
سیدھی کرنے میں تم نے اپنی پوریں زخمی کیں
اور مرہم پٹی کے لِئے اسی کا نمک ادھار لے لیا
سخن طراز
تم نے آئینوں کو لباس دیا بے پروں کو پرندگی
شاعری کو نئی زندگی
تین طرح سے لوگ نثری نظم میں وارد ہوئے۔۔ ایک غزل کے راستے آزاد نظم اور پھر نثری نظم میں چلے آئے۔۔ ان کی پُختگی دیکھنے والی ہے۔۔ یہ لوگ جانتے ہیں نثری نظم لکھنا اور مشکل ہے ۔ ان کی تربیت غزل اور نظم کی گُھلاوٹ نے کی اور ایک نیچرل طریق سے نثری نظم لکھنے لگے اور بہت سراہے گئے۔۔ نصیر احمد ناصر۔۔سعید الدین۔۔ افتخار بخاری۔۔ اور ابرار احمد کی نثری نظمیں پڑھنے کے بعد آہستگی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نثری نظم ہے کہ اُن کا مضبوط کانٹینٹ اور بُنت نظم کی نثریت کی جانب کم توجہ دلاتے ہیں۔۔۔ مزکورہ لوگ سینکڑوں غزلیں کہنے کے بعد یہاں آئے ،، فاطمہ بھی کبھی کبھار غزل کہہ لیتی ہے اسی خاطر اس کی نثری نظم توجہ کھینچتی ہے ۔۔
دوسرے وہ فکشنسٹ ہیں جن کو شاعر کہلانے کا شوق اس طرف لے آیا وہ اپنی کہانیوں کے کچھ پیراگراف نثری نظموں کی شکل دینے کے بعد اس کو ایک عنوان بھی دینے لگے اور کچھ لوگ ان میں بھی اچھا کام کر رہے ہیں۔۔محمود احمد قاضی۔۔ راشد جاوید احمد۔۔ سلمی جیلانی۔۔ سبین علی۔۔ سارا احمد کی نثری نظمیں فیسینیٹ کرتی ہیں
اور تیسری جگہ پر نثری نظم میں وہ لوگ برا جمان ہو گئے جو بلا واسطہ شوق کے ہاتھوں مجبور اس طرف راغب ہوئے۔۔۔ لیکن کہنا چاہتا تھا کہ یہاں کچا پن جھلکتا ہے ان کی تربیت غزل اور نظم نے نہیں کی وہ بے ڈھب زور لگاتے نظر آتے ہیں۔۔۔ لیکن یہاں بھی سہیل کاہلوں ۔۔ نسیم خاں۔۔ طاہر راجپوت بہتر لگے۔۔۔ کام تو ہو رہا ہے نا ۔۔۔۔
لیکن کچھ فیشنی سے کھٹک بھی رہے ہیں جن کے مصرعوں سے ہکلاہٹ آنے لگتی ہیں یہ چیز تینوں اطراف کے لوگوں میں پائی جاتی ہے جو اپنے کارِ محبت میں زرا کم سنجیدہ ہیں ۔۔
اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کی نثری نظم
ایک بلا ہے
ڈائن ہے
پِچھل پیری ہے
ریت پر پڑی جل پری ہے
پُرانی بیریوں کی چُڑیل ہے
دریا اور دریچے سے ایک نظم دیکھتے ہیں
”گیند”
ایک چھوٹی سی نظم کرہ ارض کے بسیط میں جا گزیں سچائیوں اور مکر کے درمیان راستہ نکالتی ہوئی بھید بھرا گیند گراتی ہے ۔۔ اس نظم کا گیند سات پردیا سے اور زیادہ پردے گراتا قدیم محل سرا سے لُڑھکتا سرائے کی جانب آتا ہے جہاں الاؤ کے گرد کوئی نئی کتھا سنائی جا رہی ہے جس میں فرسودگی دب جانے والی ہے۔۔
نظم ” ٹانگہ” نے روکا
جمن بھوئیں اور کام والی جگہ چھوڑنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔۔ یہاں عجیب نفسیات کا مطالعہ کیا گیا ہے۔۔۔وہ ٹانگہ اس کے رگ و پے میں ہے چھوڑنے پر بھی شاداب سڑکیں تو نہین چھینی جا سکتیں۔۔جن پر وہ اپنے ٹانگے پر رواں دواں تھی۔۔اپنے سپنوں کی آبیاری کرتی، کسی پرانی یاد سے جُڑت رہتل بہتل کے پچھواڑے کی چُبھن واپسی کے سفر سے مانع ہو سکتی ہے۔۔ڈیٹیچ ہونا اور بے کل کر سکتا ہے۔۔ نظم کی ایک لائن دیکھئے۔۔” مگر میں اس کے بالوں میں چُھپی کھال پر لگے نشانات سے بخوبی جان لیتی ہوں” یہاں مہرو ایک گہری بھیترجان کاری والی سائیکالوجست لگی۔۔
”نظم کے رب” اور ”بنتی” حمدیہ اور نعتیہ نظمیں ہیں لیکن جدید طریق کی جزباتیت سے پاک اور فکری اعتبار کی ایک اِٹی دیوار پر چلتی ہوئی ۔۔ یہاں گرنے کا احتمال رہتا ہے ۔۔لیکن شاعرہ نے سنبھالے رکھا دل کی بات کہہ دی روائیتی حمدوں اور نعتوں کے ساتھ ساتھ۔۔
پرفیوم یہ نظم دیکھتے ہیں
”اور پرفیوم
ہنستا ہوا
سب کے ہاتھوں سے
اچانک نکل کر فضا میں بکھر جائے گا”
عطر
ایسینس
خوشبو
پرفیوم
ہمارے ہاتھوں سے اچانک نکل کر بکھر چکے ہیں ہم گندے پانیوں کی بساند کے عادی ہو چکے ہیں ۔۔اُفتادگانِ خاک بیگانگی کے عفریت کو گلے لگائے ہوئےہیں اور اشرافیہ چوری کِئے ہوئے پرفیوم سے نتھنے پُھلاتی اتراتی پھرتی ہے۔۔یہ پرفیوم پُل صراط سی باریک اور تیز دھار ہے یہ بھٹکی روح ہو سکتی ہے اور بگ بینگ کا عظیم دھماکا بھی۔۔اس کی پہلی چیخ و پکار کو کون پکڑے گواہ کہاں سے آئے۔۔۔
وہ موضوع نویکلا چُنتی ہے مصرعوں کی بانٹ کی طرح داری میں ہٹ دھرم اور مرضی والی ہے..کسی کو اسلوب کھٹکتا ہے تو کھٹکے اُ س کی بلا سے..کہیں کہیں ایسے میں تجاہل ِ عارفانہ کی مرتکب ہوءی ہے لیکن کیا کریں انا کے رکھ رکھاؤ میں ایسا ہوتا ہے اسے آپ اچھوتا پن بھی کہہ سکتے ہیں.اُس کا یہ تغافُل قاری کو بھاءے گا..
وہ اس نثری نظم کی دوڑ میں زیادہ بے چین نظر نہیں آئی دوسرے ہم عصروں کی طرح جو چراگاہ سے باڑیں پھلانگتے ہف رہے ہیں ریوڑ بھیڑیوں سے خوف زدہ ہے پہلے ہی چرواہے چُپ سادھے ہیں اور اوپر سے ان بے سروپا نثری نظمیں کہنے والوں کی بھیڑوں کی اون سے اپنی جرسیاں بنانے کی خواہش،،اس خواہش کی آندھی ٹین کے چھجے کھپریل بنے کیفے پباں بھار بہا نہ لے جائے۔۔ زرا دھیرج رہو بھئی اس لڑکی کی طرح ۔۔ریستوراں سے نکلتے توازن کے گرم تولیہ نما نیپکن سے اُنگلیاں پَف کرتے ۔۔
”دھرتی دریا اور دریچے”
وطنِ عزیز کی تصویر ہے۔۔ مٹی گوشت خور نہیں پھر بھی زمیں خون رنگ ہے لہو سے بھری رہتی ہے۔۔ یہاں پینٹنگز کے شخصی کردار ٹنڈ منڈ پیڑوں کی بے چہرگی میں سروں کے بغیر بنائے گئے۔ مصور یُگوں نقش مکمل نہیں کر پاتا اور اس خاک کا حصہ ہو جاتا ہے۔۔۔
نظم کہتے ہوئے کہیں کہیں ہانپنے کی صدا سنائی دی یہ تھکن سے نہیں تھی شائد اور زیادہ شاعری پا لینے کی تمنا میں اور اونچی پینگ کے اُلارے میں جانے کی وجہ ہو۔۔
اگر ایسا ہے تو فاطمہ مہرو خواب گہہِ محبت میں نیند لینے کے بعد کا جُھولا زیادہ سکون آمیز لے گی زیادہ شاعری کے درختوں کے جُھنڈ بیچ