تابوت ۔۔۔ تنویر قاضی
تابُوت
تنویر قاضی
عشق
اور
مُشک
چُھپائے کب چُھپتے ہیں
آنکھوں کا جو کہنا مانیں
مارُو تھل کی مِٹی چھانیں
شوق
برہنہ پا ہوتا ہے
خارِ مُغیلاں چُننے والے پاؤں
چُومنے
سُرخ گلابوں کی خُوشبو آگے بڑھتی ہے
گہری شام کے سائے
باغ کنارے
ایک ستارہ
کیوں چمکے ہے
دل ڈرتا ہے
ہمیں اندھیروں کی عادت ہے
خواب
منڈیروں سے اُمڈے ہیں
اور اچانک
اندھے شور کے پِچھواڑے پھر
کالا کلوٹا جھونکا
دِیا بُجھا دیتا ہے
کون سنبھالے
خُون میں ڈُوبی
گِرتی سانجھ کی اجرک
ڈول رہی ہے
لہو لہو دریا میں
چو مُکھیئے غم کی کشتی
ہاتھ نہیں آتے تسبیح کے بکھرے دانے
مایوسی کی بھیڑ
دُکھوں کے اس جُھرمٹ میں
رُوپ کرشمے نے
اپنی دھرتی کے لئے مرنا تھا
پہلے سے تیار تھا
اِک تابُوت
جِسے بھرنا تھا
Facebook Comments Box