پِیک اے بُو ۔۔۔ ممتاز حسین
پیک اے بو
ممتاز حسین
” باندر کلہ”
مادو نے گلی میں کھڑے ہو کے زور سے نعرہ لگایا تو سب لڑکے لڑکیاں اپنے اپنے گھروں سے نکل کر گلی کے ساتھ لگی سکول کی دیوار کو پھلانگ کر گراؤنڈ میں پہنچ گئے۔ باندر کلہ ہمارے دیس کا ایک کھیل ہے۔ بالکل جیسے گلی ڈنڈا، پٹھوگول گرم ،کو کلا چھپا کی، شٹاپو، لکن میٹی،ان سب کھیلوں میں ہار جیت نہیں ہوتی بس سب کھیلتے رہتے ہیں۔ جب تھک جاتے ہیں یا گھر سے آواز پڑتی ہے ،کھیل بغیر ہار جیت کے ختم ہو جاتے ہیں ۔ ہار جیت کا خیال بد نیتی ہے۔ فتح کرنا، محکوم بنانا، کھیل میں بھی نفرت، کھیل تو سب محبت اور پیار کے بہلاوے کی چیزیں ہیں۔ اس میں پیار کی بھی کئی تہیں چھپی ہوتی ہیں ان تہوں کی پاداش کبھی کبھی حالات کے ان علاقوں میں پہنچا دیتی ہے جو ہمارے معاشرے میں نا قبول ہے۔ معافی چاہتا ہوں میں بہت دور چلا گیا۔
باندر کلہ ۔ مادو نے گراؤنڈ میں کلہ ٹھونکا کلہ کے ساتھ ایک رسی باندھ دی سب لڑکے لڑکیوں نے کلے کے ارد گرد اپنی جوتیاں جمع کر دیں ۔ کھیل کے اصول کچھ اس طرح سے ہوتے ہیں۔ کلے سے بندھی رسی کو ایک کھلاڑی اپنے ایک ہاتھ سے تھامے ہوتا ہے جہاں تک رسی کی حد ہے۔ وہ کھلاڑی کی پہنچ کا دائرہ ہے۔ اس کھلاڑی کو بندر کہتے ہیں جس نے ان تمام جوتوں کی رکھوالی کرنی ہے۔ باقی کے کھلاڑیوں نے ہر ممکن طریقے سے وہ تمام جوتیاں اٹھانی ہوتی ہیں۔ اگر بندر کھلاڑی کسی کو چھو لے تو وہ بندر بن کے کلے پر بندھ جاتا ہے اور جوتیوں کی رکھوالی کرتا ہے اور اگر سب جو تیاں باقی کے کھلاڑی حاصل کر لیں تو انہی جوتیوں سے بندر کی پٹائی ہوتی ہے۔ کھیل شروع ہونے سے پہلے سب ایک لائن میں کھڑے ہو گئے۔ مادو سب سے پہلے کھڑا تھا پھر اس کی بہن جمیلہ، اس کے بعد باقی لڑکے لڑکیاں سب ہی تقریبا ہم عمر تھے۔ گیارہ سے چودہ سالوں کے پیٹے میں ہوں گے۔مادو نے منہ میں انگلیی ڈال کے اڑوں اڑوں اڑوں کرکے اکڑ دکڑ بھمبے بھو۔ اسی نوے پورا سو، سو کھلوتا ، تتر موٹا، چل مداری پیسہ کھوٹا کا لفظ گھوم کر مادو پر ہی آ ختم ہوا۔
اور مادو کو بندر بنا پڑا۔ مادو کلے پہ بندھا بندر کی طرح دوڑ دوڑ کے جوتیوں کی حفاظت کر رہا تھا اور اس کوشش میں تھا کہ کسی کو چھولے۔ کلے کے ادھر بھاگ اور کبھی ادھر۔
کھیل میں خاصی گرما گرمی تھی۔ ایک شور مچا تھا۔ مادوکسی کوبھی پکڑنے کی پوری کوشش میں تھا کوئی ہتھے نہیں لگ رہا تھا۔ اس نے دیکھا اس کی بہن جمیلہ تاک میں ہے بھاگ کر جمیلہ کو
چھونے کی کوشش میں ہاتھ رسی سے چھوٹا اور پاؤں ایسا الجھا کہ جمیلہ اور مادو دونوں انجانے
میں الٹے پلٹے گرے۔ دونوں گول ڈرم کی طرح لڑھکتے گئے ۔ انجانے میں مادو کا ایک ہاتھ
جمیلہ کی چھاتیوں پر دوسرا اس کے کولہوں پر دونوں گھبراتے کپڑے جھاڑتے اٹھے۔ مادو کے
ہاتھ سے رسی چھوٹنے کی وجہ سے ابھی جو تیاں پڑنے والی تھیں کہ کسی کے گھر سے آواز پڑی اورسب بھاگ گئے۔
گرمیوں میں سب رات کو مکان کی چھت پہ سوتے تھے۔ اوپر چھت پر چار پائیاں چڑھانا اتارنا خاصا مشکل ہوتا تھا۔ اس لیے جب بارش آتی تو چار پائیاں بھیگ جانے سے بچاؤ کے لیے چھت پہ ہی ایک کمرہ بنا دیا جس میں صرف گرمیوں میں چارپایئاں اور بستر رکھ دیے جاتے تھے۔ اس کمرے کی چھت پہ جانے کے لیے کوئی سیڑھی کا بندوبست نہیں تھا لیکن اس کی چھت مادو اور جمیلہ کی سب سے پسندیدہ جگہ تھی ۔ گڈیاں اڑانے اور لوٹنے کے لیے سب سے مناسب جگہ تھی۔ وہاں پہنچنے کے لیے مین چھت کی دیوار پہ چڑھ کے چار پائیوں والے کو ٹھے کے دروازے کی چوکھاٹ پہ پاؤں ٹکا کر چڑھنا پڑتا تھا۔مادو اور جمیلہ کواتنی پریکٹس تھی وہ کوٹھے پر سیڑھیوں سے زیادہ تیزی سے چڑھ جاتے تھے۔
رات کو چھت پر سب سوئے ہوتے تھے مادو کو سوتے ہوئے جمیلہ سے لپٹنے کا منظر
بار بار انگلیاں چبھو رہا تھا اور ہر دفعہ وہ اپنے سر کو جھٹک دیتا۔ تو بہ توبہ کر کے کانوں کو ہاتھ
لگاتا۔ رات کے پچھلے پہر مادو کی امی نے دیکھا کہ مادو نیند میں اٹھا اور چلنے لگا۔ پہلے ماں
نے سمجھا اجابت گاہ جارہا ہوگا کیونکہ اجابت گاہ بھی کو ٹھے کی چھت پر ہی تھی۔ اس لیے ٹین کی
چھت تھی کسی دن جمعدار نی گندگی اٹھانے نہ آتی تو چھت پر سونا محال ہوتا لیکن مادو دیوار پرچڑھنے کی کوشش کر رہا تھا جس سے چار پائیوں والے کمرے کی چھت پر چڑھتے تھے۔ ماں
نے فوراد بوچ لیا اور لگی مادو کو جنجھوڑ نے ۔ مادواوں آں کر کے غنودگی میں پھر سو گیا۔
دوسرے دن شام کو سونے سے پہلے ماں نے مادو کے سر پر زیتون کے تیل کی خوب مالش کی اور چار پائی کے چاروں پایوں کے نیچے مٹی کے پیالوں میں پانی بھر کے رکھ دیا
تا کہ چیونٹیاں چار پائی پر نہ چڑھ سکیں۔ ماں نے کسی سے ذکر بھی نہیں کیا بے فکر ہو کے سوگئی لیکن رات کو پھر ما دو نیند میں اٹھ کے اسی دیوار پہ بند آنکھوں سے چلنے لگا۔ دیوار پر چل کےچکر پورا کر کے آکے اپنے بستر پر لیٹ گیا ۔ مادو کا نیند میں چلنے کا عمل با قاعدہ شروع ہو گیا۔کبھی کوئی دیکھ لیتا تو پکڑ کے بستر پرلٹا دیتا۔ ادھر جمیلہ کے والدین کو بھی جمیلہ کے ماہانہ دنوں کا حساب ستانے لگا۔ جتنے دن ماں باپ کے گھر بڑھیں گے، اتنا عذاب ماں باپ کے سر
چڑھے گا لہذا رشتے کے لیے دور نزدیک کی پھپھے کٹنیوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ایک
اپنے قریبی رشتہ داروں کے لڑکے سے بات چیت چلی۔ خاندان سے خاصی پہچان تھی۔ شکیل حسین کی سرگودھا کے سیٹلائٹ ٹاؤن میں ریڈیو کی دکان تھی وہ جمیلہ کو دیکھنے آیا۔
رشتے داری تھی۔ پہلے بھی کئی مرتبہ آچکا تھا لیکن اس دفعہ وجہ خاص تھی اس لیے دو تین راتوں
کے رک جانے کا ارادہ تھا۔ لیکن جمیلہ ابھی صرف بارہ سال کی ہی ہوگی تو پردے میں بھیج دیا
گیا۔ مادو کو سارا وقت شکیل کے ساتھ ہی گزارنا پڑا۔ پہلے جمیلہ اس کے ڈور کی چرخی پکڑتی
چارپائیوں والے کمرے کی چھت یہ گڈی اڑاتے کبھی کبھی جب گڈا تنا ہوتا تو وہ اس کی ڈور جمیلہ کو تھما دیتا۔جب گڈا دایئں بایئں غوطہ لگانے لگتا تو جھٹ سے ڈور تھام لیتا۔ اسے تنکا مارنا سکھاتا۔ کبھی کبھی وہ گڈی کو کنی بھی دیتی۔ جب کسی کی مقابلے میں گڈی کاٹ دیتا تو سب سے زیادہ بو کاٹے کا شور جمیلہ ڈالتی ۔ بس بو کاٹے کے استقبال میں جمیلہ سب کام کرتی شکیل اور مادو نے ڈور بنانے کی ٹھانی۔ بڑا پیشل برانڈ کا دھا گہ خریدا۔ مانجھا تیار کرنے کے لیے بلب کے شیشے کا سفوف، چیل کے انڈے، اسپیشل سریش کے مرکب کا مانجھا پورا دن کو ٹھے کی چھت پر اینٹوں کے چولہے پہ کڑھتار ہا۔ تمام دن چھت پر شکیل اور مادو نے ڈور کو چھت کی دیوار پر دو درختوں کی ٹہنیوں پہ سوت کے سوکھنے کے بعد جب پنا لپیٹا تو کئی دفعہ مادو کی انگلی کٹ گئی۔ رات کو سب حسب معمول چھت پر سونے چلے گئے ۔ ساری رات مادو جوش کے ساتھ گڈی اڑانے کی ڈینگیں مارتا رہا۔ رات کو پچھلے پہر مادو پھر نیند میں چلنے لگا۔ اس دفعہ عجیب واقعہ پیش آیا۔ مادو سوتے میں اٹھا اور چھت پر جہاں اینٹوں کے چولہے پر مانجھا کا مرکب بنایا تھا وہاں گیا۔ ٹین کے ڈبے میں بچا ہوا مانجھا اٹھا کر سوتے میں شکیل کے اوپر انڈیل دیا۔ شکیل کے شور سے سارا گھر جاگ گیا ۔ ما دو نیند کی غنودگی میں اس واقعہ سے با لکل لا علم تھا۔ جب ماں نے جھنجوڑا تو بالکل بیہوش تھا۔ تمام گھر والوں کو بہت شرمندگی اٹھانی پڑی۔
اس دفعہ تو مادو کے والد صاحب نے دو تین جھانپڑ جڑ دیے۔ مادو خود بھی بہت شرمندہ تھا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی ۔ شکیل تو واپس گھر چلا گیا لیکن گھر والوں کی تشویش بڑھ گئی۔ ہر رات سونے سے پہلے سرسوں اور زیتون کے تیل کی مالش کے بعد زبردستی مادو کو سورہ یسین بھی پڑھائی جاتی اور ماں بھی چار پانچ سورتیں پڑھ کے پھونک دیتی۔
ایک دن چار پائیوں والے چوبارے یہ گڈی اڑاتے نیچے دیکھا تو بالکل دل دھک سے رہ گیا۔ بابا کتنا فاصلہ ہے چھت سے گلی تک ، اگر میں گروں تو ہڈیوں کا تو مانجھا بن جائے گا۔ لیکن رات کوسوتےمیں پھراسی دیوار پہ چڑھ کے چلنے لگا۔ اور بالکل نہیں ڈر لگا ۔ پھر ماں نے آرام سے پکڑ کے نیچے اتار لیا ۔ اس بار تو ماں کو بہت تشویش ہوئی اور ٹھان لی کہ کچھ بھی ہو مادو کا علاج ضروری ہے ورنہ بیٹے سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے۔ کئی حکیموں سے رجوع کیا گیا۔ کوئی کہتا کہ معدے کے بخارات دماغ کو چڑھ جاتے ہیں ۔ اس کو قبض کشا گلقند کا مشورہ دیتے تو کوئی کچھ کہتا، تعویز گنڈھے بھی کئے گئے ۔
لیکن اس کے والد کے چچازاد بھائی نے جسے مادو دادا ابا کہتا گھر والوں کو مشورہ دیا
اسے ہفتے کے لیے میرے پاس لاہور میں چھوڑ جاؤ ۔ مادو کچھ دنوں کے لیے ان کے ہاں
رک گیا۔ وہ مادو سے اس کی ہر روز کی وارادات سنتا۔ اس کے شوق مشغلے ، پڑھائی اور
خواہشات ہر پہلو پہ باتیں کرتا ۔ آہستہ آہستہ دوستی بڑھ گئی اور گزرے ہوئے دنوں کی بائیں
سنتا۔ جب سے اس نے نیند میں چلنا شروع کیا تھا اس سے پچھلے ہفتے کی پوری روداد سنتا۔
بزرگ اس کا خوب خیال رکھتا۔ اسے خرچے کے لیے پیسے بھی دے دیتا کبھی کبھی سینما کیئے
بھی چلے جاتے ۔
ایک دن دادا نے پوچھا ” تم سوتے میں کیوں چلتے ہو؟ مادو نے کہا میں توبالکل نہیں چلتا یا مجھے اس کا بالکل علم نہیں ہے۔‘ بزرگ دادا نے ایک بڑے پتے کی بات مادو کو بتائی۔ برخودار جب کوئی انسان اپنی کوئی چھپی ہوئی خواہش جس کا وہ اظہارنہ کرسکے اور اس خواہش کا گلا گھوٹے رکھے تو وہ جب اپنی دنیا میں جاگ رہا ہوتا ہےتواس میں کسی اور شکل میں کچھ اور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔۔نیند میں چلنا یا نیند میں کسی خطرناک عمل کا مرتکب ہو جانا خاصا خطر ناک ہے جس کا اسے بالکل علم نہیں ہوتا اور مادو کو کچھ رقم دے کر کہا کہ جاؤ اسے بے دحڑک ہو کر جہاں جی چاہے خرچ کردو۔ مادو ہر رات کے وسط میں شاہی محلے پہنچ جاتا۔ شاہی محلے کی تنگ گلیوں میں کمروں میں عورتیں اور لڑکیاں میک اپ کر کے کرسیوں پہ بیٹھی ہوتیں ۔ طبلے سارنگی اور ہارمونیم پہ بیٹھے سازندے جیسے ہی کوئی کمرے کے سامنے سے گزرتا موسیقی زور زور سے بجانی شروع کر دیتے۔ مادو ہمت کر کے ایک کمرے میں گھسا تو اس کی عمر اور حلیے سے اندازہ لگا کر سازندے اسے باہر نکال دیتے لیکن گلی کے باہراندھیری گلیوں میں ہر دوسرے گھر کے باہر بازار میں پھول کی دکانوں کے باہرلڑ کے موتیے کے ہارڈنڈی پر لٹکائے ہار اور گجرے، پان سگریٹ کے کھوکھے گلی میں مرغ حلیم اور چنے کے پتیلے۔نالی میں گرا گند، ساتھ ہی پڑی ہوئی الٹیاں اور پان کی پیکیوں کے نشان اسے عجیب سماں لگتا جسے وہ کسی اور دنیا میں ہو۔ ہر
رات وہاں جانے لگا نہ جانے کون سی قوت اسے وہاں کھینچ لے جاتی تھی۔ دو تین دنوں کے
بعد وہ کچھ اکتا سا گیا اور شاہی محلے کی دوسری گلیوں میں کچھ اور ڈھونڈ نا شروع کر دیا۔
اندھیری گلیوں میں ہر دوسرے گھر کے باہر یہ بورڈ لگا ہوتا، ” دروازہ مت کھٹکھٹاو یہ شریفوں کا گھر ہے۔ “
انہی گلیوں میں گھومنے لگا۔ ایک رات کو ایک کالا سا شخص جس کے کاندھے پر رو مال لٹک رہا تھا ما دو کود یکھ کے رک گیا اور بولا ”بابو مال چاہیے۔ مادو سمجھ گیا۔ اسی کی تلاش تھی۔
ہاں با بوقندھاری انار ہے جنت کا میوہ۔ مادو نے پوچھا کتنے پیسے ،سوڈے کی بوتل، اس
کا کمیشن ،نیلم کا بھاڑا۔ دو سو روپیہ۔ مادو نے کہا ٹھیک ہے۔ اس نے پیسے اسے دے دیے وہ
شخص اندھیری سیڑھیوں سے اوپر کمرے میں لے گیا جہاں بالکل اندھیرا تھا۔ اس نے
ماچس سے دیا جلایا اور دیے کو نیلم کے چہرے کے قریب لے گیا۔ حضور دیکھ لو، قندھاری انار
ہے۔ مادوایک عجیب سحر میں بھونچکا رہ گیا۔ نیلم دیے کی روشنی میں جگمگارہی تھی۔ اسے نیلم
بہت خوبصورت لگی۔ اس شخص نے پھر پوچھا صاحب مال پسند ہے۔ مادو نے ہاں میں جواب دیا اور وہ شخص وہاں سے چلا گیا ۔ نیلم نے فورا اپنے پیسوں کا مطالبہ کیا تو جھجکتے ہوئے مادونے اور پیسے نکال کے نیلم کو دے دیے۔ مادو نے اپنی قمیض اتارتے ہوئے کیا۔ نیلم
بہن کپڑے اتارو ۔ نیلم کو کچھ سمجھ نہیں آیا پوچھا ”کیا کہا تم نے؟ مارو نے پھر کہا نیلم
بہن کپڑے اتارو ۔ اب کی بار نیلم کو غصہ آگیا ”ابے او بھڑوا ! ہم کو بہن مت بولو۔ ہم پیشہ
کرتا ہے۔ بے غیرت نہیں ہے۔ نیلم نے پیسے مادو کے منہ پر دےمارے اور اسے سیڑھیوں
سے دھکا دیدیا ۔ما دولڑھکتا ہوا قمیضں ہاتھ میں تھامے وہاں سے گھر واپس آگیا۔ دادا کو کچھ
نہیں بتایا اور اگلے روز ہی اپنے گھر روانہ ہو گیا ۔ سب گھر والے خوش تھے کہ مادو واپس
آ گیا۔ سمجھ رہے تھے اب مادو ٹھیک ہو گیا ہے۔ رات کو سب کو ٹھے کی چھت پر حسب معمول سو
رہے تھے کہ رات کے وسط میں مادو کی ماں نے دیکھا کہ مادو پھر اس دیوار پہ نیند میں چل رہا
ہے۔ وہ بھاگ کے پھر اسے اتار نے گئی تو مادو نے کہا ، “ماں میں اب نیند میں نہیں ہوں میں
جاگ رہا ہوں۔“