چن جی ” کہنے والا ۔۔۔ شہناز پروین سحر”
” چن جی ” ۔۔۔ کہنے والا
شہناز پروین سحر
آج میں ایک شخصیت کو اپنے لفظوں میں عقیدت کے کچھ پھول سونپنا چاہ رہی ہوں ۔
اسی دنیا کا رہائشی ایک شخص جو ، شاید کسی اور ہی عالم سے ہماری اس دنیا میں چلا آیا تھا ۔
آس پاس کے چھل ، مکر ، فریب ، جہالت اونچ نیچ اور کرودھ سے کوسوں دور ۔ ایک بلند تر تہذیب ، جس کا نام یاور حیات تھا ۔
میں بات کر رہی ہوں پی ٹی وی کے پروگرام پروڈیوسر یاور حیات کی ۔
قد شاید چھ فٹ سے بھی دو تین انچ نکلتا ہوا ہو گا ۔ کھلتا ہوا رنگ روشن ماتھا ، چاک و چوبند ، ہر دم چست پی ٹی وی کا سب سے سے سمارٹ اور ذہین پروڈیوسر یاور حیات ۔ ہمہ وقت چہرے پر مسکراہٹ سجی ہوئی پی ٹی وی میں آتے تو دائیں بائیں پیچھے فنکار اور دوست جلو میں ہوتے ان کا کمرہ ہمہ وقت فنکاروں اور ان سے سیکھنے کے مشتاق لوگوں سے بھرا رہتا تھا ۔ گفتگو کرتے ہوئے لگتا تھا کوئی علم بانٹ رہا ہے محسوس یوں ہوتا تھا جیسے آپ اپنے استاد سے گفتگو کررہے ہوں ۔ ہر موضوع پر حیران کن نالج ۔ یہی وجہ تھی کہ نامور لکھاری بھی ان کے ایما پر اپنے سکرپٹ میں خوشی سے ترامیم کر لیا کرتے تھے ۔ اس حقیقت کو خود منو بھائی اور امجد اسلام امجد نے بھی تسلیم کیا ۔
وہ تشہیر سے دور بھاگتے تھے انہوں نے پی ٹی وی میں بڑے سے بڑے عہدے سے انکار کر کے محض ایک پروڈیوسر رہنے کو ترجیح دی ۔ نام نمود بلند و بالا منسب اور خود نمائ ان کا مسئلہ کبھی بھی نہیں رہا ۔ مستنصر حسین تارڑ نے تسلیم کیا کہ یاور حیات نہ ہوتے تو پی ٹی کو کبھی بھی وہ مقام نہ مل پاتا جو اس نے حاصل کیا ۔
منو بھائی کا لکھا ہوا ڈرامہ یاور صاحب نے “جزیرہ” ٹیلی کاسٹ کیا تو منو بھائی نے کالم کی دنیا سے باہر ڈرامہ رائیٹنگ کی وسیع تر فضاؤں میں قدم رکھا ۔ یہ منو بھائی تھے جنہوں نے یاور صاحب کی وفات پر اپنے کالم میں لکھا کہ یاور حیات کے مرنے سے میرے وجود کا ایک بڑا حصہ زیر زمین چلا گیا ہے ۔
انور سجاد کی تحریر “رات کا پچھلا پہر” ، “پکنک” ، اور انتظار حسین کے قلم سے “پانی کے قیدی” ان کی نشریات تھیں وہ عبداللہ حسین کا اداس نسلیں ٹیلی کاسٹ کرنا چاہتے تھے لیکن میرے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ یہ کیوں ممکن نہ ہوا ،
میں ان کی ماں جی کا ذکر بھی ضرور کرنا چاہوں گی ۔ جب یاور صاحب دفتر آتے تو ان کا فون بھی ساتھ ہی آتا “یاور دفتر پہنچ گیا اے” ان کو کام میں بہت دیر ہو جاتی تو ماں جی کے فون آنے شروع ہو جاتے اکثر کہتیں “بات کر کے ڈسڑب نہیں کروں گی بس باہر ان کے ڈور مرر سے ہی دیکھ کے بتا دو کہ یاورٹھیک ہے نا”
” ذرا کس سے پوچھنا یاور نے کچھ کھایا کہ نہیں دیکھنا یاور کو پتہ نہ چلے اس کے کام میں رکاوٹ پڑے گی ” ۔ ماں جی بہت کیوٹ تھیں فاصلے سے ہی ان کی خیریت دریافت کرنے کی کوشش کرتی تھیں ۔ بے حد محبت کرنے والی ماں تھیں ۔
یاور حیات انور کمال پاشا کے بھانجے تھے ، حکیم احمد شجاع ان کے نانا اور سردار سکندر حیات ان کے دادا تھے تاہم پدرم سلطان بود کی بجائے انہوں نے خود کو اپنی ذات اور اپنی قابلیت کے حوالے سےمنوایا ۔
قرآن کریم کا مطالعہ بڑی گہرائی سے کیا تھا ۔ خوشی اور ڈپریشن کو زندگی کی کتاب کے مختلف ابواب سمجھتے تھے ۔
اپنی پر لطف گفتگو میں ساتھیوں اور فنکاروں کو بے ساختہ چن جی کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے ۔ اسی حوالے سے ان کے ایک دوست شاعر مسعود منور نے دلچسپ پوئٹری بھی لکھی جسے سن کر یاور حیات قہقہہ لگا کر ہنسے اور تا دیر محظوظ ہوتے رہے قارئین کی دل چسپی کے لیئے وہ شاعری درج ذیل ہے :
مجھ سے ہر شخص ہے خفا چن جی
زندگی بن گئی سزا چن جی
چھاچھ کو پھونک پھونک پیتا ہوں
چائے کا میں جلا ہوا چن جی
پوچھ یاور سے قصہ بھٹو کا
میکدہ بند کیوں کیا چن جی
تیرے مانوس سے ڈرامے کی
تھی وہ اک اجنبی صدا چن جی
دل کا کوئی بھی شاہ نہیں دیکھا
یہاں تو ہر شخص ہے گدا چن جی
تو نے چھیڑی ہے راگنی کیسی
لگ رہی ہے بہت جُدا چن جی
اس خُداداد مُلک کا مسعود
میں نے دیکھا نہیں خُدا چن جی
یاور حیات ایک خوبصورت دور تھا جو پی ٹی پر آیا اور اپنی گہری چھاپ چھوڑ کر چلا گیا ۔
نومبر کا مہینہ اور جمعہ کا دن تھا یاور حیات جیسا انسان جس کے جلو میں ایک ایک ہجوم چلتا تھا ہجوم سے نکل کر اکیلا چلا گیا ۔ پاکستانی ڈرامے اور پی ٹی وی کو منفرد شناخت دینے والا خاموشی سے رخصت ہو گیا
اس دنیا سے اس عالم کو گیا ۔۔۔ جہاں وہ
ہر ستارے میں چاند دیکھتا ہو گا اور جھلملاتا ہو گا ۔