نظم ۔۔۔ منتظر گولو
نظم
منتظر گولو
میں قبلِ مسیح میں
اس وقت پیدا ہوا تھا
جس وقت
پرومیتھیوس
آگ دریافت کر نے کے جرم میں
سزا بھگت رہا تھا
اور آگ نے
دیو جانس کلبی کے ہاتھوں تک پہنچتے پہنچتے
شعور کی علامتی صورت اختیار نہیں کی تھی۔
میں قبلِ مسیح میں
اس وقت پیدا ہوا تھا
جس وقت
فیڈیاس نے
زیوس کا مجسمہ تراشنے سے پہلے
ايک پتھر پر انگور کا گچھا تراشا تھا۔۔۔
اس وقت پیدا ہوا تھا
جس وقت
ھیملاک
سقراط کی حلق سے اتر کر امرت رس نہیں بنا تھا۔
ہاں اس وقت
جس وقت
سکندر کی تلوار تازہ خون پینے کی عادی بن چکی تھی۔۔۔
میں اس وقت پیدا ہوا تھا
جس وقت
سیزر کو اپنے ہی محبوب دوست بروٹس نے پیٹ میں خنجر گھوپ کر
بھروسے کا قتل کیا تھا
اور وہ درد کی شدت میں بس اتنا کہہ پایا
بروٹس تم۔۔۔۔!؟؟
میں اس وقت پیدا ہوا تھا
جس وقت
مریم نے
عیسی کی مسکراہٹ دیکھنے سے پہلے
تہمتیں سہیں۔۔۔
اور اس کی آنکھیں کھجور کے درخت سے لمبی ہوکر
آسمان کی خلاٶں میں گم ہو چکی تھیں۔۔۔
میں ہزارہا سال سے زندہ ہوں
سارے مناظر
میری آنکھوں کے سامنے ہیں
پرومیتھیوس
کی باقی سزا مجھے بھگتنی ہے
اور جانس کلبی کی لالٹین اٹھا کر
اس کا گمشدہ آدمی
مجھ ہی کو ڈھونڈنا ہے
اور ہاں
فیڈیاس کی
ہتھوڑی اور تیشے سے جمود توڑکر
انگور کا باغ لگانا ہے۔۔۔
اور سقراط کے قدموں میں بیٹھ کر
اس کے لٸے امپورٹیڈ شراب کا پیگ بھی بنانا ہے
بہت سے کام کرنے ہیں
سکندر کو بغیر ہتھیاروں اور لشکر سے
سیہون اور اروڑ کی سیر کرانی ہے
اور اس کو یے بھی ضرور یاد دلانا ہے کہ
”تیر یونان سے بہتر سندھ میں بنتے ہیں
سیزر کی مرہم پٹی کرنی ہے
اور اس کو غلاموں کے جہاز میں نچلے طبقے میں
غلاموں والا کھانا بھی کھلانا ہے
اس سے ایک رات کے لٸے
قلوپطرا لینی ہے
اور بروٹس کا گلا کاٹنا ہے۔
اور سب سے اہم کام یہ کرنا ہے
مریم کے
آنسوں کا مداوا کرنا ہے
اور عیسی سے شریکِ غم ہوکر
مر جانا ہے۔۔۔
منتظر گولو
فاضل ھالیپوٹو