ہے کوئی َ ؟ ۔۔۔ یوسف شہزاد

ہے کوئی

( یوسف شہزاد )


آج پھر آئینے سے گرد ہٹاتے ہوئے
بالوں میں چاندی کا ڈھیر لیے
اپنے شباب کو ڈھلتا دیکھ کر
غربت پہ ہنستی عورت نے کہا
نامراد تنگدستی نے
میری نسوانیت کو زنگ آلود کردیا ہے
میری حسن کی رعنایوں نے بھی
اب ماند پڑنا شروع کر دیا ہے
فطرت کی خواہشوں کو دبا کر
اپنے ارمانوں کو بکھرتا دیکھ رہی ہوں
میں تو صنف نازک ہوں
دکھوں, آہوں اور سسکیوں کے
بوجھ اٹھانے سے بھی قاصر ہوں
نحیف, بوڑھے ماں باپ کے
جھکے ہوئے کندھوں کو دیکھ کر
کہیں دور سمندر میں
ڈوب مرنے کو جی چاہتا ہے
پر کیا کروں آخر عورت جو ٹھہری
عورت تو صبر, برداشت
اور قربانی کی علامت ہے
لیکن مرد تو بہادر ہے
کبھی غزنوی, کبھی ایوبی
اور کبھی قاسم کے روپ میں
ہر طرف اس کی بہادری کے قصے عام ہیں
اے مرد! تو سماج کی زنجیروں کو
توڑ کیوں نہیں دیتا
مذہب, ذات پات, رنگ و نسل
اور جہیز کے ناسور کو
چھوڑ کیوں نہیں دیتا
ہے کوئی بہادر مرد جو سامنے آئے
اور سماج کی ان بیڑیوں کو توڑ کر
سیسہ پلائی دیوار بن جائے
اور انسانیت کا حقیقی علمبردار کہلائے۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930