کجری ۔۔۔ ظہیر اختر بیدری
کجری
ظہیر اختر بیدری
میں آفس جاتے ہوئے ہر روز ایک ٹریفک سگنل پر رکتا ہوں ۔ مہینوں میں کبھی ایک آدھ بار ایسا ہوتا ہے کہ سگنل کھلا ہوا ملتا ہے۔ ورنہ اس سگنل پر مجھے ہر روز چند منٹ رکنا پڑتا ہے۔ دوسرے ٹریفک سگنلوں کی طرح اس ٹریفک سگنل پر بھی اخبار بیچنے والے ہاکر،بھیک مانگنے والے لوگ جن میں مرد عورت لڑکے ، لڑکیاں شامل ہوتی ہیں اور کچھ لڑکے گاڑیاں صاف کرنے کے ڈسٹر بیچتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ یہ سلسلہ برسوں سے چل رہا ہے مجھے اتنا تو یاد رہتا ہے کہ اس سگنل پر اخباری ہاکر، ڈسٹر بیچنے والے لڑکے اور بھیک مانگنے والوں کو میں روز دیکھتا ہوں لیکن اگر آپ مجھ سے یہی کہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو یاد رکھوں تو ایسا اس لیے ممکن نہیں کہ میں دوسروں کی طرح اور انسانی فطرت کے مطابق بس ان سب پر ایک سرسری نظر ہی ڈالتا ہوں کسی کو اتنی توجہ کے ساتھ نہیں دیکھتا کہ اس کا چہرہ میرے ذہن پر نقش ہو جائے۔ لیکن پچھلے ماہ اچانک ڈسٹر بیچنے والے لڑکوں کے ساتھ میں نے ایک نوجوان لڑکی کو دیکھا جو تیزی سے گھوم پھر کر ڈسٹر بیچ رہی تھی۔ لڑکی کی عمر کوئی 13-14 سال ہو گی۔ دھان پان سا بدن، لانبا قد، کھڑی ناک کے ساتھ کھڑا چہرہ، رنگ ہلکا سانولا، آنکھیں چھوٹی لیکن سگنل کی بتیوں کی طرح جلتی بجھتی۔ بدن پر بہت معمولی سے کپڑے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ۔ میرا خیال ہے کہ میں نے ہی نہیں بلکہ اس روز اُدھر سے گزرنے والے ہر شخص نے خواہ وہ کار پر جا رہا ہو یابائیک پر چونک چونک کر اس لڑکی کو دیکھا ہو گا۔ لوگ لڑکی کو اس لیے نہیں دیکھ رہے تھے کہ وہ کوئی بہت خوبصورت تھی بلکہ اس لڑکی کو چونک کر اور بڑے غور اور بڑی توجہ سے دیکھنے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ عموماً ٹریفک سگنلوں پر اس عمر کی لڑکیاں کہیں کہیں ہی نظر آتی ہیں ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ اس لڑکی میں ایک عجیب سی کشش تھی۔ خاص طور پر اس کی آنکھوں میں جو بتیاں جلتی بجھتی نظر آتی تھیں وہ ہر ایک کی توجہ کو اپنی طرف مرکوز کر لیتی تھیں ۔ لوگ چند لمحوں کے لیے ہی صبح ہر روز جب ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو ان کے درمیان ایک عجیب سی مانوسیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سگنل پر بھی اخباری ہاکروں ،بھیک مانگنے والوں اور گاڑیوں کے ڈسٹر بیچنے والوں سے میں ایک حد تک مانوس تھا لیکن جیسا کہ میں پہلے ہی بتا دیا ہے کہ کسی کی طرف چوں کہ پوری توجہ اور دلچسپی سے نظر نہیں جاتی تھی لہٰذا ان کے چہرے یاد رکھنا یا انھیں کسی دوسری جگہ پر شناخت کر لینا مشکل تھا۔ لیکن اس لڑکی کو پہلے ہی دن غالباً اس سگنل سے گزرنے والے بیشتر لوگوں نے اتنی توجہ اور دلچسپی سے دیکھا ہو گا کہ ذہن پر اس کا چہرہ نقش ہو جائے۔ میں آفس میں بیٹھے بیٹھے بڑی دیر تک سوچتا رہا کہ آیا اسے مرد کی کسی…. کمزوری کا نام دیا جائے یا عورت کی کسی خوبی یا خصوصیت کہا جائے کہ وہ کسی بھی نوجوان لڑکی کو اس قدر توجہ سے دیکھتا ہے کہ اس کا چہرہ یاد رہ جاتا ہے۔ پھر میں آفس کے کاموں میں مصروف ہو گیا۔
دوسرے دن ،تیسرے دن، چوتھے دن تقریباً ہر روز ہی اس لڑکی کا سامنا ہو جاتا تھا لیکن میں نے محسوس کیا کہ اب اس میں پہلے روز والی چونکا دینے والی بات نہ تھی اب وہ روز کے معمولات کا ایک حصہ بن گئی تھی۔ لیکن یہ بات بہر حال عجیب سی تھی کہ جب بھی میں سگنل کے قریب پہنچتا میری نظریں بے تابی سے اسے تلاش کرتی تھیں اور جب وہ مجھے کاروں ، موٹر بائکوں کے ہجوم میں ڈسٹر بیچتے نظر آ جاتی تو میری بے تابی ختم ہو جاتی۔ دو تین منٹ میں میں سنگل سے گزر جاتا اور پھر اگلے روز تک میں اسے بھول جاتا۔ سگنل پر پہنچتے ہی مجھے اس کی تلاش کیوں رہتی۔ یہ سوال اکثر میرے ذہن میں آیا لیکن ہمیشہ اس کا جواب یہی ملا کہ نہ تو میں اس کے عشق میں گرفتار ہوا ہوں نہ اسے کسی خاص جنسی تسکین یا آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے دیکھتا ہوں ۔ بلکہ جب میں نے زیادہ گہرا ئی میں جا کر اپنی اس بے قراری کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ میری بے قراری کی اصل وجہ یہ تھی کہ میں اسے اس سگنل پر انتہائی غیر محفوظ سمجھتا ہوں ۔ اس کی حالت مجھے ایک ایسی اندھی لڑکی کی نظر آتی جو بغیر کسی سہارے کے ٹریفک کے ہجوم میں سڑک پار کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔ مجھے ہر وقت یوں محسوس ہوتا کہ اب وہ کسی بس یا ویگن کے نیچے آ جائے گی۔ یہ ایک عجیب ساشعوری خوف تھا جس سے میں دوچار تھا مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس لڑکی نے بھی مجھے سگنل پر پہنچتے بے قراری سے اسے تلاش کرتے محسوس کر لیا تھا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ اب وہ مجھے دیکھتے ہی ذرا سا چونک جاتی تھی۔ ہم دونوں کی عمروں میں اتنا تفاوت تھا کہ کسی لڑکی کو یہ خدشہ نہیں ہوسکتا تھا کہ اس تلاش کے پیچھے کوئی ہوس یا نا آسودہ خواہش ہو لیکن چوں کہ لڑکی بالکل اَن پڑھ اور اپنے ارد گرد خطرات سے ناواقف معلوم ہوتی تھی۔ اس لیے میری اس تلاش کے پس منظر میں موجود خوف کو تو نہیں جان سکتی تھی البتہ یہ بہر حال ممکن تھا کہ وہ مجھے بھی ایک نظر باز سمجھ لے…. اس نے میرے بارے میں جو بھی رائے قائم کی ہو ایک بات بہر حال عیاں تھی کہ اس سگنل سے گزرنے والے دوسرے مسافروں کے مقابلے میں ، میں نسبتاً اس کی توجہ کا زیادہ مرکز بن گیا تھا…. جس کا اظہار اس کی آنکھوں سے ہوتا تھا۔
اس سگنل پر دو تین ٹریفک سار جنٹس کے علاوہ ٹریفک کے کئی سپاہی بھی موجود ہوتے تھے جو ٹریفک کنٹرول کرنے میں لگے رہنے کی وجہ سے اس لڑکی کی طرف کم متوجہ نظر آتے تھے لیکن مجھے یقین تھا کہ سار جنٹس سمیت تمام سپاہیوں کی توجہ پوری طرح اس نئی لڑکی پر مرکوز تھی۔ پھر اخباری ہاکراں ، بھیک مانگنے والوں اور ڈسٹر بیچنے والوں میں 17-18 سے 20-22 برس کے ایسے نوجوان موجود تھے جن کا اس لڑکی میں دلچسپی لینا ایک فطری بات تھی۔ مجھے پتہ نہیں کیوں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا کہ لڑکی اب گئی کہ جب گئی۔ اس لڑکی کی طرف اپنی مخصوص توجہ کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ میں نے اس کی آنکھوں میں اس کے چہرے پر ایسی مسکراہٹ نہیں دیکھی تو جو عموماً اس عمر کی ایسی بے فکری لڑکیوں کی آنکھوں اور چہرے پر نظر آتی ہے۔ اس کی جگہ میں نے ہمیشہ اس کے چہرے پر ایک خوف ایک کرب کی ملی جلی پرچھائی ہی دیکھی تھی مجھے ہمیشہ ایسا محسوس ہوا کہ میں اس کے لیے اپنے دل میں جو خوف محسوس کرتا ہوں اس کے دل میں بھی اپنے بارے میں اسی قسم کا کوئی خوف موجود ہے۔ اس خوف کی موجودگی کا بڑا معقول جواز تھا…. جس شہر میں گھروں کی چہار دیواریوں میں رہنے والی لڑکیاں اسکول اور کالج جانے والی لڑکیاں محفوظ نہ ہوں اس شہر میں ایک ٹریفک سگنل پر تنہا بے سہارا گاڑیوں کے ڈسٹر بیچنے والی ایک انتہائی کم عمر اور کسی حد تک پرکشش لڑکی بھلاکس طرح اپنے آپ کو محفوظ سمجھ سکتی ہے۔
دن گزرتے رہے۔ ہفتے دنوں میں اور دن مہینوں میں بدلتے گئے۔ ایک دن جب میں اپنے مقررہ وقت پر اپنی مقررہ جگہ پر پہنچا تو لڑکی مجھے کہیں نظر نہ آئی۔ مجھے ایک تشویش سی ہونے لگی۔ میری نظریں ٹریفک کے ہجوم میں اسے تلاش کرتی رہیں لیکن وہ نظر نہ آئی۔ بار بار ذہن میں یہ خیال آ رہا تھا کہ…. اس کے ساتھ وہ کچھ ہو گیاجس سے میں خوفزدہ تھا۔ سگنل کھلا لیکن میں رکا رہا…. میں چاروں طرف دیکھ رہا تھا کہ شائد وہ گاڑیوں کے ہجوم میں کہیں پھنس گئی ہو…. لیکن ایسا نہیں تھا …. وہ در حقیقت اس دن وہاں موجود نہ تھی۔ میں اپنے وسوسوں کو دور کرنے کے لیے کسی ہاکر لڑکے سے اس کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا لیکن میری ہمت ہی نہیں پڑھ رہی تھی۔ پھر میں کس حوالے، کس رشتے سے اس کے بارے میں پوچھتا …. جو حوالہ جو رشتہ اس لڑکی کے لیے میرے دل میں موجود تھا وہ اس معاشرے میں کہیں نظر نہ آتا تھا۔ ایسی صورت میں کسی ہاکر سے اس لڑکی کے بارے میں دریافت کرنا اپنے آپ کو بدنام کرنے کے علاوہ کیا معنی رکھتا تھا، سو میں عجیب سی بے چینی کے ساتھ دوسری بار ٹریفک کھلنے پر اس چوراہے سے گزر گیا۔ لیکن آفس میں بھی مجھ پر ایک عجیب قسم کی بے چینی طاری تھی اور گھر پر بھی یہی حال رہا۔ حتیٰ کہ رات کو میں ٹھیک طرح سے سو بھی نہ سکا۔ میں رات بھر بے چینی سے صبح کا انتظار کرتا رہا۔ کئی بار مجھے اپنی اس حماقت اور نا معقولیت پر غصہ بھی آیا لیکن یہ غصہ جلدی ہی غائب ہو گیا اور اس کی جگہ تشویش نے لے لی۔ اذان ہوئی تو تھوڑا سا اطمینان ہوا کہ چلو صبح ہو گئی۔ ناشتہ کے بعد اپنے مقررہ وقت تک اخبار وغیرہ دیکھتا رہا لیکن اخبار کے ہر صفحے پر کمبخت وہی لڑکی اپنی اداس اور خوفزدہ مسکراہٹ کے ساتھ نظر آتی رہی۔
خدا خدا کر کے جب میں سگنل پر پہنچا تو …. ٹریفک کے ہجوم میں وہ لڑکی مجھے نظر آئی۔ خدا جانے اس نے میری پریشانی کو بھانپا…. یا میرے چہرے پر پائی جانے والی تشویش اسے نظر آئی…. اس کی نظر جیسے ہی مجھ پر پڑی وہ گاڑیوں کے ہجوم سے نکل کر فٹ پاتھ پر آئی…. اور سر جھکا کر کھڑی ہو گئی۔ میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ اپنی آنکھوں کو مجھ سے چھپانے کی کوشش کر رہی ہے…. کیا وہ ڈر رہی تھی کہ کل غیر حاضری کا سبب میں اس کی آنکھوں میں دیکھ لوں گایا وہ اپنے آنسوؤں کو مجھ سے چھپانا چاہتی تھی؟ نہ مجھ میں اس سے کوئی سوال کرنے کی ہمت تھی اور نہ غالباً وہ اپنے آپ میں ایسی ہمت پا رہی تھی کہ وہ مجھ سے اپنے کسی دکھ کا اظہار کرے۔ سگنل کھلا…. ہر چند کہ میں کچھ دیر اور وہاں رکنا چاہتا تھا۔ لیکن اس کا کوئی جواز نظر نہیں آ رہا تھا…. سو میں آگے بڑھ گیا لیکن جاتے جاتے دو بار میں نے اس کی طرف پلٹ کر دیکھا۔ وہ بھی میری طرف دیکھ رہی تھی۔ یہ پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ وہ محسوس کرنے کی حد تک میری طرف ملتفت تھی۔ اس کی اس توجہ اور اس کی آنکھوں میں پائی جانے والی اداسی نے مجھے اور زیادہ الجھن میں ڈال دیا۔ یہ بات بہر حال میری سمجھ میں آ رہی تھی کہ وہ کسی نہ کسی مصیبت میں گرفتار ہے۔ میں اس کی مشکل معلوم کرنا چاہتا تھا اور شائد اس کی مدد کرنا بھی چاہتا تھا اس کی آنکھوں سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ بھی مجھے اپنے دکھوں سے واقف کرنا چاہتی ہے اور شائد مجھ سے کسی قسم کی مدد کی بھی طلب گار ہو…. لیکن ہم دونوں کے بیچ اجنبیت کی ایک دیوار حائل تھی۔ رائج الوقت اخلاق کے تقاضے جو ہمیں آزادی سے ایک دوسرے سے بات کرنے کی اجازت دیتا نہ ہمارے معاشرے کی اخلاقی قدریں کسی اجنبی لڑکی سے بات کرنے کی اجازت دیتی تھیں ۔ میں نے سارے راستے ایسے تمام رشتوں کے بارے میں سوچا جو ایک انسانوں کو دوسرے سے بے جھجھک بات کرنے ، ایک دوسرے کے دُکھ جاننے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی اجازت دیتے ہیں ۔ یہ خون کے رشتے تھے…. دوستی کے رشتے تھے۔ان سب رشتوں سے مضبوط اور افضل انسانوں کے درمیان ایک اور رشتہ ہوتا ہے…. انسانیت کا رشتہ لیکن یہ رشتہ کس قدر کمزور تھا…. اخلاقی ضابطے کس قدر مضبوط تھے….
کئی دن تک میں ہر روز اسے سگنل پر ڈسٹر بیچتے ہوئے دیکھتا رہا لیکن اب اس میں پہلے جیسی تیزی اس کی آنکھوں میں سگنل کی روشنیوں جیسی روشنی نہ تھی ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ سست ہو رہی ہو…. جیسے اس کی آنکھوں کی روشنی بجھتی جا رہی ہو…. اور یہ احساس میرے لیے بہت اذیت ناک تھا۔ کوئی ڈیڑھ ماہ تک وہ سگنل پر مجھے ہر روز نظر آتی رہی۔ پھر ایک دن وہ غائب ہو گئی…. اس دن میں اسے کاروں کے ہجوم میں بہت تلاش کرتا رہا لیکن وہ نظر نہ آئی…. میں نے دو بار سگنل کو مس کیا لیکن پھر بھی وہ نظر انداز نہ آئی میں چوں کہ سڑک کے درمیان کھڑا ہوا تھا لہٰذا ایک ٹریفک کانسٹبل غصے سے میری طرف آیا….بولا:
’’آپ نے کیوں راستہ روکا ہوا ہے۔‘‘
میں اسے بھلا کیا جواب دیتا…. شرمندگی کے اظہار کے ساتھ آگے بڑھ گیا۔ میں جب آفس پہنچا تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ لڑکی جس کے نام تک سے میں واقف نہیں میری طرف ملتجی نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ ہر طرف مجھے اس لڑکی کا بے رنگ خوفزدہ سوگوار چہرہ ہی نظر آ رہا تھا۔ میں بڑی بے چینی سے وقت گزارنے لگا۔ آخر جب ذہنی الجھن شدید ہو گئی تو میں آفس سے نکل کر عزیز بھٹی پارک پہنچا…. پارک تقریباً سنسنا پڑا تھا…. میں ایک درخت کے نیچے پڑے ہوئے پینچ پر بیٹھ گیا۔ ابھی مجھے یہاں بیٹھے ہوئے دس پندرہ منٹ ہی ہوئے تھے کہ فل میک اَپ میں ایک اسمارک خاتون میرے قریب آئیں …. سلام کیا۔ پھر کہا۔
سر…. اگر آپ کا دل کبھی اداس ہو زندگی مشکل نظر آئے وقت کاٹے نہ کٹے تو اس نمبر پر رِنگ کیجئے۔ میں آپ کی دلجوئی کے لیے حاضر ہوں گی۔ یہ کہتے ہوئے خاتون میرے ہاتھ میں ایک ٹیلیفون نمبر تھما کر چلی گئیں ۔ میں حیرانی کے ساتھ اسے واپس جاتے دیکھ رہا تھا۔ عمر، ان محترمہ کی 30 کے لگ بھگ ہو گی۔ گورا رنگ ناک نقشہ جاذب نظر …. قد بھی مناسب تھا جسم چھر یرا…. محترمہ ساڑھی بلاؤس میں ملبوس تھیں ۔ ٹیلی فون نمبر دیتے وقت غالباً دانستہ اس قدر جھک گئی تھیں کہ ان کی سفید چھاتیاں ننگی ہو گئی تھیں ۔ ایک طرف سگنل پر ڈسٹر بیچنے والی وہ جاہل لڑکی تھی جو ہر وقت اپنے میلے کچیلے کپڑوں پر ایک میلی سی چادر اوڑھے رہتی تھی…. اس کی آنکھوں میں خوف…. سوگواری کے ساتھ حیاء بھی تھی دوسری طرف یہ خاتون تھی جن کے بلاؤز اور ساڑی کے درمیان کا علاقہ ہی عریاں نہ تھا بلکہ جاتے جاتے محترمہ نے نسوانی کشش کے سب سے زیادہ موثر ہتھیار کو بھی ہم پر آزمانے کی کوشش کی تھی۔ ان کی آنکھوں میں حیاء کی بجائے ایک ننگی، بے شرمی اور دعوت گناہ رقصاں تھی۔ میں ان دونوں کا موازنہ کرتا رہا۔دونوں میں مجھے بڑا فرق نظر آیا۔ مجھے ان دونوں کے موازنے سے یہ پتہ بھی چلا کہ ہمارے اخلاقی نظام میں کتنا شدید تضاد ہے۔ مجھ پر ایسی وحشت سوار ہوئی کہ میں پارک سے اُٹھ کر ایک سنیما ہال پہنچا اور ہال کی آخری نشستوں کے ایک سرے پر بیٹھ گیا۔ ایک انگلش فلم چل رہی ہے تھی اور میں سیٹ پر نیم خوابیدہ سی حالت میں ٹیک لگائے بیٹھا تھا مجھے اس وقت ہوش آیا جب ہال خالی ہو گیا اور لائٹ آن ہو گئیں ۔ عجیب سی بے کلی کے ساتھ میں گھر پہنچا۔ پھر وہی بے قراری، رات جانے کس طرح گزری…. میں سوچتا رہا یہ میرا پاگل پن ہے…. جانے اس شہر میں کتنی ہزار لڑکیاں کیسی کیسی اذیت ناک زندگی گزار رہی ہوں گی۔ پھر میں ایک عام سی لڑکی کے لیے جسے میں جانتا تک نہیں کیوں اس قدر پریشان ہوں ۔ جب میں اپنے آپ کو زیادہ لعنت ملامت کرتا تو پھر وہی لڑکی اپنی تمام تر معصومیت اور سوگوار چہرے کے ساتھ سامنے آ کھڑی ہو جاتی۔ جب میں سگنل پر پہنچا تو لڑکی آج بھی غائب تھی…. میں نے اِدھر اُدھر دیکھا اس کا کہیں پتہ نہ تھا، وہ سگنل کھلنے پر میں آگے بڑھ گیا۔ میں نے طے کر لیا تھا کہ اب اس لڑکی کے بارے میں ہرگز اپنا دماغ حراب نہیں کروں گا۔ آفس میں ہر چند میں اس کے خیال کو ذہن سے جھٹک دینے میں کامیاب ہو گیا تھا لیکن وہ ذہن کے کسی کونے میں اب بھی اپنے دبلے پتلے جسم پر میلی سی چادر اوڑھے کھڑی تھی۔
تیسرے دن بھی وہ نظر نہ آئی…. اس طرح وہ تقریباً دو ہفتے سگنل سے غائب رہی…. پھر ایک دن وہ نظر آئی۔ لیکن وہ گاڑیوں کے ہجوم میں نہیں کھڑی تھی فٹ پاتھ پر وہی میلی چادر اوڑھے کھڑی تھی جب میں سگنل پر رُکا توا س نے میری طرف دیکھا۔ وہی خوف، وہی کرب، وہی سوگواری، کیا خوف، کرب اور سوگواری بھی کوئی حسن ہوتا ہے…. ذہن میں ایک سوال اُبھرا…. ہاں یہ ایسا حسن ہے جو ہمارے ملک ہی نہیں دنیا کے ہر ملک میں خواہ وہ ترقی یافتہ ہویا ترقی پذیر ہر جگہ بکھر ا ہوا ہے لیکن اس حسن پر توجہ دینے، اس کو سراہنے ، اس کی پرستش کے لیے کسی کے پاس نہ وقت ہے نہ کوئی اس کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ یہ حسن صرف خریدا جاتا ہے اور بیچا جاتا ہے۔ وہ تین منٹ وہ خاموش کھڑی رہی لیکن مجھے ایسا لگا کہ اس خاموشی کے ذریعہ بھی وہ مجھ سے بہت ساری باتیں کر چکی ہے اور میرے اور زیادہ قریب آ گئی ہے۔ جی تو نہیں چاہ رہا تھا میں آگے بڑھ جاؤں لیکن میری وجہ سے ٹریفک میں خلل پڑ رہا تھا۔ میں آگے بڑھ گیا۔ دوسرے دن وہ پھر غائب ہو گئی۔ دو ہفتے بعد ایک دن وہ پھر نظر آئی لیکن اس بار مجھے ایسا لگا کہ اس کی صحت کچھ بہتر ہو گئی…. اس کا رنگ بھی کچھ صاف نظر آ رہا تھا…. اس کے میلے کپڑوں پر وہی میلی چادر پڑی ہوئی تھی البتہ اس کی آنکھوں کے کرب میں ، میں نے بڑی شدت دیکھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ وہ اندر سے بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ تین چار ہفتوں تک یہی سلسلہ چلتا رہا۔ اب وہ اپنے جسم پر چادر کچھ پھیلا کر اوڑھ رہی تھی۔ یوں لگتا تھا کہ چادر اس نے کوئی اور اوڑھی ہوئی ہے…. لیکن یہ چادر بھی میلی ہی تھی۔ اس لڑکی کی وجہ سے اب میں ذہنی طور پر اس قدر ڈسٹرب ہو گیا تھا کہ میں نے آفس سے عزیز بھٹی پارک والی اس لڑکی کو ٹیلی فون کیا جو اپنا فون نمبر دے گئی تھی۔ میرا خیال ہے کہ میری زندگی میں میرے فرسٹریشن کی یہ انتہا تھی۔
گلستان جوہر کے ایک خوبصورت فلیٹ میں جب میں پہنچا تو وہ محترمہ سر سے پیر تک مجسمہ دعوت بنی ہماری منتظر تھیں ۔ لیکن ہمارے دماغ پر اب بھی کسی بھوت کی طرح وہی لڑکی سوار تھی سگنل کے برابر فٹ پاتھ پر میلی چادر اوڑھے کھڑی یہ لڑکی سر سے پاؤں تک خوبصورتی کی تصویر بنی ہوئی تھی اور اس حسین خاتون سے بہت زیادہ خوبصورت نظر آ رہی تھی…. سردیوں کے دن تھے۔ میرے جسم پر گرم کپڑے نہ تھے۔ خاتون نے ہمیں اپنے خوبصورت ڈرائینگ روم میں بٹھایا اور تھوڑی ہی دیر میں گرم گرم کافی بنا کر لائیں اور اس طرح مجھ سے جڑ کر بیٹھ گئیں جیسے ہم میں میاں بیوی کا کوئی رشتہ ہو اور یوں بے تکلفی سے گفتگو کرنے لگیں جیسے وہ ہم سے بے حد بے تکلف ہیں ۔ میں حیران تھا۔ میں جو کئی مہینوں سے اس سگنل والی لڑکی سے بے حد خواہش کے باوجود اب تک ایک لفظ نہ کہہ سکا تھا کہ اس اور ہمارے درمیان کوئی رشتہ نہ تھا…. اخلاقی اقدار کا پہاڑ حائل تھا…. اور غالباً وہ لڑکی بھی ہم سے بات کرنا چاہتی تھی…. لیکن اس کے سامنے بھی وہی دیواریں حائل تھیں اور یہ خاتون جنھوں نے اپنا نام فرزانہ بتایا تھا ان تمام دیواریوں کو بغیر کسی رکاوٹ اور تکلف کے لمحوں میں پھلانگ لیا تھا…. اب وہ باتوں باتوں میں ہنستے ہنساتے اپنی قیمت بتا رہی تھیں ۔ یہ سب کچھ بڑا عجیب لگ رہا تھا…. کافی کے بعد فرزانہ نے کہا….
آئیے میں آپ کو اپنا بیڈ روم دکھاؤں …. پھر وہ زبردستی ہمیں گھسیٹتے ہوئے اپنے بیڈ روم میں لے گئیں جو بہت دلکش انداز میں سجا ہوا تھا…. خوبصورت ڈبل بیڈ کے بالکل سامنے کی دیوار پر فرزانہ کی ایک انتہائی جذبات انگیز عریاں تصویر لگی ہوئی تھی۔ فرزانہ نے بڑی ادا سے کہا جناب تصویر میں اور اصل میں بہت فرق ہوتا ہے…. اصل میں جو حسن ہوتا ہے تصویر میں اس کا پاسنگ بھی نہیں ہوتا۔ فرزانہ کی باتیں میرے کانوں میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح گونج رہی تھیں ۔ میں یہاں سخت ذہنی الجھن کے زیر اثر آ تو گیا تھا لیکن میں اب یہاں سے بھاگ جانا چاہتا تھا۔ رات کے دس بج رہے تھے۔ سردی میں اچھا خاصا اضافہ ہو گیا تھا۔ میں نے فرزانہ سے معذرت چاہی اسے بتایا کہ میری طبیعت بہت خراب ہو رہی ہے میں پھر کبھی آؤں گا…. پھر اس کے ہاتھ میں میں نے پانچ سو کا ایک نوٹ بطور جرمانہ رکھا…. وہ دو منٹ سوچتی رہی غالباً اس نے سوچا مفت میں نصف قیمت مل رہی ہے تو کیا برا ہے…. ایک اچھے کاروباری کی طرح اس نے نوٹ واپس کرنے کی کوشش کی اور کہا کہ جب آپ ضرورت محسوس کریں …. جب آپ کی طبیعت موزوں ہو آپ تشریف لائیے۔ میرے دروازے آپ کے لیے ہر وقت کھلے ہوئے ہیں …. میں نوٹ اس کے ہاتھ میں تھما کر باہر نکلا تو وہ ایک قیمتی شال اوڑھے مجھے دروازے تک چھوڑنے آئی۔ جب میری نظر فرزانہ کی شال پر پڑی تو میری آنکھوں میں سگنل والی لڑکی کی میلی چادر گھوم گئی۔ کتنا فرق تھا اس میلی چادر اور اس چمکتی ہوئی شال کے درمیان…. اس قیمتی شال کے مقابلے میں وہ میلی چادر مجھے بے حد قیمتی لگ رہی تھی۔ کیوں کہ اس میلی چادر کے نیچے جو دبلا پتلا کمزور سا جسم چھپا ہوا تھا وہ حجاب اور شرم کی چادر اوڑھے ہوئے تھا جس کی قیمت کوئی بڑے سے بڑا دولت مند بھی نہیں چکا سکتا تھا۔
تقریباً تین ہفتوں کے بعد ایک دن وہ پھر سگنل کے فٹ پاتھ پر لیکن کچھ فاصلے پر کھڑی نظر آئی اس کی آنکھیں مجھ پر ہی جمی ہوئی تھیں …. ایسا لگا وہ کچھ بولنے کی کوشش کر رہی ہے کچھ کہنا چاہتی ہے…. لیکن اچانک وہ چلی گئی…. جب وہ پلٹ کر جا رہی تھی تو میں نے اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ میں نے سوچا رشتے اور اخلاقی اقدار کی ایسی تیسی…. میں اس کے پاس جاؤں اس سے پوچھوں کہ وہ کس اذیت میں مبتلا ہے…. لیکن چاہتے ہوئے بھی میں ایسا نہ کرسکا….
پھر وہ اچانک ایسی غائب ہوئی کہ کئی مہینوں تک نظر نہ آئی۔ ایک دن میں سگنل پر رُکا ہوا تھا کہ ایک ہاکر اخبار لے کر میرے پاس آیا۔ میں اسے ایک عرصے سے دیکھتا آ رہا تھا…. میں نے اچانک اس سے پوچھا….!
بھئی وہ لڑکی جو جہاں کپڑے کے ڈسٹربیچتی تی وہ کہاں چلی گئی…. کیا وہ بیمار ہے۔
اس نے پہلے تو میری طرف مشکوک نظروں سے دیکھا۔ پھر ایسا محسوس ہوا کہ وہ مجھے کچھ بتانا چاہتا ہے۔ لیکن بتاتے ہوئے ہچکچا رہا ہے۔
میں نے کہا…. بھئی میں یہاں سے برسوں سے گزر رہا ہوں ۔ یہاں کے تقریباً تمام ہی ہاکروں کو پہچانتا ہوں …. وہ لڑکی در اصل مجھے ہمیشہ کچھ پریشان، کچھ گھبرائی ہوئی، کچھ خوفزدہ سی دکھائی دیتی تھی میں صرف اس کی خیریت معلوم کرنا چاہتا ہوں ۔
لڑکے کی آنکھوں میں کچھ اطمینان کچھ اعتماد نظر آیا اس نے کہا۔
جناب…. اس کا نام کجری ہے۔ وہ میرے گاؤں ہی کی رہنے والی ہے۔ وہ پنے بھائی بہنوں میں تیسرے نمبر پر ہے اس کی دو بہنیں ہیں جو اس سے بڑی ہیں اور ایک بھائی ہے جو اس سے چھوٹا ہے۔ اس کا باپ نشہ کرتا ہے…. ماں ٹی بی کی مریضہ ہے…. ان کے گھر میں کوئی کمانے والا نہیں …. اس کی دونوں بڑی بہنیں بہت ڈرپوک ہیں …. کجری بھی کراچی آنے سے بہت گھبراتی تھی۔ لیکن پچھلی دفعہ جب میں بڑی عید پر گھر گیا تو اسے ہمت دلا کر کراچی لے آیا تھا کہ یہاں اسے کوئی نہ کوئی کام مل جائے گا۔
جناب …. اس نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے کہا۔ اس کی بربادی کا میں ہی ذمہ دار ہوں ۔ اگر میں اس کو یہاں نہ لاتا تو شاید وہ اس حال کو نہ پہنچتی۔
جب وہ کراچی آئی تو اسے میں نے اپنے ساتھ ہی رکھا۔ میں پنجاب کالونی میں اپنی ماں اور دو بہنوں کے ساتھ رہتا ہوں ۔ کرایہ پر میں نے سب کو یہی بتایا کہ کجری میری خالہ زاد بہن ہے…. میں جب اسے پہلے دن یہاں لایا تو وہ بڑی خوش تھی۔ گاڑیوں کے بیچ دوڑ دوڑ کر اس نے ڈسٹر بیچے …. لوگ اس سے ڈسٹر خرید بھی لیتے تھے۔ وہ دن بھر میں سو سوا سو روپئے کے ڈسٹر بیچ لیتی تھی۔
صاحب…. ہم اس سگنل کے تمام ہاکر ہر روز پولس کو بھتہ دیتے ہیں ۔ ان کا گالیاں سنتے ہیں ۔ ان کی مار بھی کھاتے ہیں ۔ لیکن پیٹ کی خاطر سب برداشت کرنا پڑتا ہے…. لیکن کجری جس دن یہاں آئی اسی دن سے چوکی کے سپاہی اس کے گرد منڈلانے لگے۔ اس چوکی کے سارے نا جائز کام سپاہی اکرم کرتا ہے…. دو تین دن بھی نہیں گزرے تھے کہ وہ میرے پاس آیا اور بولا….
آج رات تم لڑکی کو لے آنا…. اس نے اپنے فلیٹ کا پتہ بتایا اور کہا کہ اگر تو لڑکی کو لے کر رات میرے فلیٹ پر نہیں آیا تو…. اس نے دھمکی دی۔
جناب …. کجری بہت روئی لیکن اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔ صاحب ! ہاکر نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ اکرم نے اور چوکی کے دوسرے سپاہیوں نے کجری کی عزت تو لوٹ ہی لی…. لیکن اسے کجری سے کنجری بھی بنا دیا۔ چوکی کے لوگ اس کے جسم کی کمائی کھانے لگے۔ وہ آنسو پونچھتا ہوا اخبار بیچنے کے لیے گاڑیوں کی طرف چلا گیا۔
کوئی چار پانچ ماہ بعد میں سخی حسن کے قریب سے گزر رہا تھا۔ سگنل بند تھا۔ میں جب سگنل کھلنے کا انتظار کرنے لگا تو ایک لڑکی قریب آئی اس کی گود میں ایک نومولود بچہ تھا۔
صاحب …. اللہ کے نام پر….
جب میں نے اس لڑکی کی طرف دیکھا تو حیرت سے میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا وہ کجری تھی…. جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی وہ گاڑیوں کی پرواہ کئے بغیر تیزی سے فٹ پاتھ کی طرف چلی گئی۔ اس کی آنکھوں میں نمی صاف نظر آ رہی تھی۔ میں حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔
او بھائی، کیوں راستہ روکے کھڑے ہو۔ ٹریفک کانسٹبل کی آواز پر میں چونکا اور سگنل کراس کرنے لگا۔ کجری میری نظروں سے غائب ہو گئی تھی، لیکن اس کا چہرہ اس کے آنسو میرے سامنے تھے۔