آنکھوں کے دید بان ۔۔۔ زاہدہ حنا
آنکھوں کے دیدبان
زاہدہ حنا
رات کی آنکھیں نمناک ہیں اور ان آنکھوں کی نمی شبنم بن کر شیشے کی دیوار پر لکیریں کھینچ رہی ہے۔ یہ لکیریں آپس میں گڈ مڈ ہو کر کہیں کشتیاں بن گئی ہیں اور کہیں آبی پرندے کشتیوں اور آبی پرندوں کے اس ہجوم میں کہیں کہیں سمندر جھک رہا ہے۔ یہ سمند ر شفاف دیوار کے اس پار دور تک سویا ہوا ہے۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ سوتا ہوا سمندر کروٹ بدل کر اپنی کہنیوں کے سہارے اٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ آج کی رات بھی ایک ایسی ہی رات ہے۔ آج شام ہی سے سمندر اپنی کہنیوں کے بل اٹھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن نہ جانے کیا چیز اس کے پاؤں کی زنجیر بن گئی ہے۔ میں بہت دیر سے بیٹھی یہاں سمندر کو دیکھ رہی ہوں اور آج پر ہی کیا موقوف میں تو ہر شام یہاں آبیٹھتی ہوں اور اسے دیکھتی رہتی ہوں۔ مجھے معلوم ہے وہ دن ضرور آئے گا جب وہ تمام زنجیریں توڑ کر اٹھ بیٹھے گا اور میرے پاس چلا آئے گا۔ میں ایک ایسی ہی رات کا نہ جانے کتنی راتوں سے انتظار کر رہی ہوں۔ یہ
راتیں جو پھیل کر صدیاں بن گئی ہیں اور سمٹی ہیں تو عذاب کا ایک جہنمی لمحہ ۔۔۔
سمندر میں دور بہت دور کھڑے ہوئے جہازوں پر جو روشنی ہے وہ میری آنکھوں کے آلاؤ ہیں جن میں انتظار کے تناور درختوں کی بریدہ شاخیں جل رہی ہیں۔ میں یہ بات جان گئی ہوں کہ میری آنکھیں یہاں ہیں اور روشن الاؤ میں، سمندروں کی لہروں ہیں اور ستاروں کے قلب میں اور میری یہ تمام آنکھیں جو ان گنت ہیں۔ مجھے شیشے کی اس دیوار کے پیچھے بیٹھا دیکھ رہی
ہیں۔ تم نے کبھی انتظار کو انتظار کے مقابل دیکھا ہے؟ اگر نہیں دیکھا تو مجھے دیکھو، میری آنکھوں کو دیکھو جن میں تمہیں اپنی آنکھیں نظر آئیں گے۔ لیکن اگر یہ تمہاری آنکھیں ہیں
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر میری آنکھیں کہاں ہیں ؟ یہ فیصلہ کون کرے گا؟ یہ فیصلہ میں کروں گی یا سمندر ؟ میری آنکھوں کے ہوتے نہ ہونے کا فیصلہ ریت کے ذرے کریں گے یا ہوا کے جھونکے ؟ یا پھر رات کے وہ آنسو جو کشتیوں اور آبی پرندوں کی شکل میں شیشے کی دیوار پر بہہ رہے ہیں ، یہ فیصلہ آخر کون کرے گا۔
میں تمہیں بتاتی ہوں کہ یہ فیصلہ کوئی نہیں کرے گا۔ اس لئے کہ یہاں کون ہے جو دوسروں کے لئے حاکم بن سکے۔ یہاں کی ہر شے خود ہی مدعی خودی مد عاعلیہ اور خود ہی منصف وجود کی عدالت تنہائی کی عدالت ہے اور جب کوئی حتمی اور آخری فیصلہ سننے کیلئے میں حجرہ ذات میں جھانکتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ سفید محرابوں اور گنبد نما چھت والے اس حجرے میں انسانوں کا ہجوم ہے اور اس ہجوم کے شانوں سے شانے ملائے خداوندوں اور دیوتاؤں کے پرے ہیں اور سب سے آگے اور سب سے الگ خداوند خدا ہے جو داناؤں کے کہنے کے مطابق محرک اول ہے اور انھیں کے کہنے کے مطابق خود حرکت نہیں کرتا۔
ذہن مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے اور میں جان لیتی ہوں کہ یہ تنہائی کی عدالت ہے۔ یہ جان کر مجھے بے ساختہ جنسی آجاتی ہے ، میں اور مجھے ایسے دوسرے کتنے تیار ہیں کہ تنہائی کی عدالت میں بھی ہجوم میں اور حرکت میں ہیں اور دوسری طرف خداوند خدا ہے جیسے فرض کیا گیا پھر اپنے آپ پر فضیلت دی گئی اور تحریک اول قرار دے کر حرکت سے محروم کیا گیا اور اس طرح اسے یکسر تنہا کر دیا گیا۔ شاید میں اور مجھے ایسے دوسرے لوگ ایذارسانی کی انتہا کو پہنچے
ہوئے ہیں۔
حجرہ ذات کے فرش پر لمحوں کا ایندھن دہک رہا ہے اور اس کا پر تو وجود کی دیواروں پر عجب سریت آمیز نقوش بناتا اور بگاڑتا ہے۔ دھویں کی چادر ہے اور اس پر مدھم سی روشنی کی تحریر ہے۔ روشنی کی یہ تحریر ان شکلوں کو واضح کرتی ہے جو اس گنبد نما چھت میں آویزاں ہیں۔
ان شکلوں کو پہننے والوں میں سے کچھ الٹے لٹک رہے ہیں اور کچھ سیدھے، کچھ نے فرشتوں سے پر مستعار لئے ہیں اور طاقت پرواز کی تلاش میں ہیں۔ اور ہاں وہاں بعض در از داڑھیوں والے بھی ہیں جو اپنے ہاتھوں میں دانائی کے موتی لئے بیٹھے ہیں اور انھیں لوح گل پر ٹا سکتے چلتے جاتے ہیں۔ لمحوں کے دہکتے ہوئے ایندھن کا پر تو کبھی ان شکلو کو بھی اجاگر کرتا ہے اور کبھی تمام مناظر دھندلا جاتے ہیں۔ لیکن خداوند خدا کا وجود ان سب سے الگ ہے ، ہر منظر سے جدا ہے۔ اس لمحے مجھے یونانی یاد آتے ہیں کہ وہ مجھ سے اور میرے لوگوں سے زیادہ خدا دوست تھے ، وہ اپنے دیوتاؤں اور دیویوں کو اپنی ہی خامیوں اور اپنی ہی خوبیوں کے سانچے میں ڈھالتے تھے اور انہیں تنہا نہیں چھوڑتے تھے۔
میں خداوند خدا کے چہرے پر تنہائی کی اذیت ناک تحریر دیکھتی ہوں اور اس کے ارد گرد پھیلے ہوئے مہیب اور تنہا سناٹے کی گونج سنتی ہوں تو میرا جی چاہتا ہے کہ اس کے سامنے ایک آئینہ رکھ دوں اور اس طرح وہ جس نے کبھی اپنا چہرہ نہیں دیکھا۔ اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھے اور اسے اپنی دوسر اہٹ سمجھے اور دوسراہٹ سے باتیں کرے لیکن جب میں اس کے سامنے آئینہ رکھنا چاہتی ہوں تو دیکھتی ہوں کہ مجروذات سراب ہے اور اس کی گنبد نما چھت پر بنی ہوئی اشکال بھی محسن خیال کا پھیلایا ہوا جال ہیں اور حقیقت تو کچھ یوں ہے کہ میرے سامنے شیشے کی دیوار ہے اور اس کے پاس سمند رہے اور تاروں بھرا آسمان ہے اور ریت کے ان گنت ذرے ہیں اور میری پشت پر پتھر کی دیوار ہے جو ریت کے ان گنت ذروں کو سمندر کے پانی سے گوندھ کر بنائی گئی ہے اور جس پر ستاروں جیسی خنک روشنی دینے والا دودھیا بلب روشن ہے۔ پتھر کی اس دیوار میں ایک طاق ہے، اس طاق میں ایک گھڑی رکھی ہے جس کے ڈائل کارنگ سیاہ ہے۔ جس کے ہند سے سنہری رنگ کے ہیں اور ان ہندسوں کا بوسہ لینے والی سوئیاں بھی سنہری ہیں۔
میں یہاں بیٹھ کر سمندر کا انتظار کرتی ہوں تو حرکت کرتی ہوئی یہ سوئیاں سر گوشی کرتی ہیں۔ ان سر گوشیوں نے بھی مجھے بتایا ہے کہ فراق، وصال کی دوسری جہت ہے اور کائنات میں انتظار کہیں نہیں ہے اور یہ بھی کہ وقت لا محدود ہے اور اس کے ساتھ ہی محدود بھی کیونکہ
وہ کائنات کی مانند ایک دائرہ ہے جو کہیں سے شروع نہیں ہو تا اور نہ کہیں ختم ہو تا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم وقت کو خط مستقیم میں سفر کرنے والا غیر محسوس اور نا معلوم سے سمجھتے ہیں اور ہم یہ نہیں سمجھے کہ وقت گردش میں ہے اور اس گردش نے ایک دائرے کو جنم دیا ہے اور دائرہ پھیل جاتا ہے توہ جب پھیل جاتا ہے پھر اس کے بارے میں کون بتا سکتا ہے کہ اس کا نقطہ آغاز کہاں ہے اور انجام کہاں۔ وقت بھی کبھی نہیں گزرتا ہمیشہ لوٹ آتا ہے۔ کیونکہ گردش کرنے والی چیز اپنے آغاز کی طرف لوٹتی ہے اور کتنی عجیب بات ہے کہ آغاز ہی انجام بھی ہے اسی لئے یہ بات بھی غلط ہے کہ وقت اپنے آغاز کی طرف لوٹتا ہے۔ بس یوں سمجھو کہ وقت گردش میں ہے اور ہم سب اس گردش کا ایک حصہ ہیں۔ جو وقت ہم پر سے پہلے گزر چکا ہے اس کا کوئی حصہ یا ذرہ اپنے آپ کو دہراتا ہے۔ لیکن ہم کچھ نہیں جانتے، کچھ نہیں سمجھتے وقت کائنات کے دائرے میں گردش کرنے والی دھول ہے جو ہمارے سروں پر جمتی ہے تو بڑھاپا بن جاتی ہے اور ہمارے بدن سے لپٹی ہے تو ہم مٹی میں مل جاتے ہیں۔ وقت خاک ہے اور باد ہے ، وقت خدا ہے اور کائنات ہے، وقت ہے اور کائنات ہے ، وقت سب کچھ ہے اور کچھ ہی نہیں ہے۔
میں وقت کو شکل دینا چاہتی ہوں ، اس کی تجسیم چاہتی ہوں اور جب یہ خواہش مجھے ہلاک کرنے لگتی ہے تو میں کائنات کے تمام رنگ اپنی تھیلی پر سجا لیتی ہوں اور مشتری کی انگلی سے وقت کے خد و خال کھینچنا چاہتی ہوں ، لیکن وقت کی فراخی ، وسعت اور اس کی ازلیت اور ابدیت میری آنکھوں کی پتیلیوں پر اپنی کوئی شبیہ ، اپنی کوئی تصویر نہیں بنے دیتی ہیں سوچتی ہوں کہ وقت کا تصور کس طرح قائم کروں کہ گویا کی اس کے نقش و نگار بیان نہیں کر سکتی اور بینائی اس کے دیدار سے قاصر ہے۔ بس یوں ہے کہ وقت کو الفاظ کے ذریعے بیان کرنے کی کوشش بیکار ہے اور اس سے منسوب کیجانے والی تمام اشکال چھوٹی ہیں ، بے سروپا ہیں
خاک بر فرق و سر تمثیل من
وقت نے کائنات میں عجب بساط بچھائی ہے، اس کے کھیل کا انداز نرالا ہے اس کے مہروں کا کوئی رنگ نہیں ، ان کی کوئی شکل نہیں اور اس کا کوئی حریف نہیں۔ وہ خود اپنا مقابل ہے اور
اس کی غیر مرئی انگلیاں کائنات کی بساط کے مہروں کو گردش میں لاتی ہیں۔ کبھی وہ اپنے آپ سے جیت جاتا ہے اور کبھی اپنے آپ کو آن کی آن میں شہ مات دے دیتا ہے۔ یہ بھی اس کے کھیل کا ایک حصہ ہے کہ میں اب اپنے سامنے یوں بیٹھی ہوں جیسے آئینہ آئینے کا سامنا کرے۔ میں سامنے والے اپنے وجود کو چھوتی ہوں لیکن وہاں کچھ نہیں ہے۔ سب کچھ خواب در خواب ہے اور سراب اندر سراب۔ خلا ہے ، کائنات بھی معدوم ہے اور سمندر کی لہریں جو مجھے نظر آرہی ہیں وہ بھی کہیں نہیں ہیں۔ میری آنکھیں جن چیزوں کو دیکھ رہی ہیں میرے ہاتھ انھیں چھونے پر قادر نہیں۔ میں ہی کائنات ہوں اور میں ہی رنگ، میں ہی آگ ہوں اور میں ہی راکھ۔ میں کبھی اپنے آپ کو سمندر کہہ کر یاد کرتی ہوں اور کبھی اپنی ذات کو بادبان یا صحرا کے نام سے پکارتی ہوں۔ کائنات کے دائرے میں صرف میری ہی آواز گونجتی ۔ لیکن پھر یوں بھی ہے کہ میری آواز جو کائنات پر محیط ہے سمٹ کر کبھی سائنس کی
سرسراہٹ بن جاتی ہے اور کبھی تیز ہوا کی سنسناہٹ۔
بادبانوں کے دامن میں تیز ہوا کی سنسناہٹ بھر جائے تو جہاز لنگر اٹھاتے ہیں۔ اور اپنے اپنے سفر پر روانہ ہو جاتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ اپنے وجود کو ایک آنکھ والے سائیکلوپس کے جزیرے کی طرف دھکیلتے ہیں اور بہت سے بادبان ایسے بھی ہوتے ہیں ایک ہزار جہازوں پر ایستادہ ہو کر دس سالہ جنگ کی طرف سفر کرتے ہیں اور ہاں یہی بادبان جب سوگ کا لبادہ اتارنا بھول جائیں جائیں تو سمندر کا نام بدل جاتا ہے۔
مجھے ان بادبانوں سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ میں ان کے رحم و کرم پر کہیں کا سفر کرنا نہیں چاہتی۔ ان بادبانوں نے انسانوں کو بہت دکھ دیئے ہیں۔ بہت رسوا کیا ہے لکن یہ بھی ہے کہ
ان سے مفر نہیں۔
مفر تو اس بات سے بھی نہیں کہ جو ا بھی اپنے روبرو تھی ، ایک بار پھر گم ہو گئی ہوں اور حصار ذات میں آگئی ہوں۔ جانے والے اپنے اپنے تیر، تبر اور تلوار میں اور تینے لے کر واپس جاچکے ہیں۔ شاید انوص نے سپر ڈال دی۔ لیکن اب جب کہ ان کے خیمے اور ان کے جہاز مجھے نظر نہیں آرہے۔ مجھے اس ٹروجن ہارس سے ڈر لگ رہا ہے جسے میں اپنے ہاتھوں حصار کے اندر
لائی ہوں۔ وجود کی شہر پناہ پر آنکھوں کے دید بان پہرہ دیتے ہیں۔ لیکن جب سحر ہوگی اور شہر پناہ میں بنے ہوئے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور قطعہ ذات پر نگہبانی کے لیے معمور انا کا دیو تا اونگھ جائے گا تو وجود کہاں پناہ چاہے گا ؟
مجھے کائنات کی قلمرو نہیں چاہئے میں تو منتظر آنکھوں والی لڑکی ہوں اور مجھے سمندر کا انتظار ہے لیکن وہ مجھ تک نہیں آتا۔ وہ اپنی کہنیوں کے بل اٹھ کر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہے اور پھر تھک کر لیٹ جاتا ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ اٹھوں اور اس کی طرف سفر کروں لیکن جب میں اس کی طرف چلنا چاہتی ہوں تو میرے پیر نہیں اٹھتے۔ اور تب مجھے یاد آتا ہے کہ میر انچلا دھڑ تو گر باد کا ہے۔ اور مجھے شفاف دیواروں والے اسی حصار میں مقید کر دیا گیا ہے۔ باہر دروازے پر میری سیاہ آنکھیں پہرا دیتی ہیں اور ان کی چمک میرے اعصاب کو جیسے سلادیتی ہے اور تب میں سوچتی ہوں کہ مجھے اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے جب سمندر کی تھکن اتر جائے اور وہ میرے پاس چلا آئے۔
تو میری رو داد کچھ یوں ہے کہ میں ہر رات اپنے گردباد کے قدموں سے اٹھ کر یہاں اس شفاف دیوار تک آتی ہوں اور سمندر کو دیکھتی ہوں۔ میں حصار ذات سے باہر کیسے آؤں کہ
میری آنکھیں میرے دید بان ہیں۔