گم شدہ آوازوں کا تعاقب ۔۔۔ زویا حسن

گمشدہ آوازوں کا تعاقب

زویا حسن

وہ مجھے پکار رہی ہے اور اس کی پکار میں بلاوے کی ایسی مٹھاس ہے، جو میں نے الائچیوں کے کھیتوں میں تب سنی تھی، جب شام ہونے کو تھی اور میں گھر کی جانب بھاگنے کی بجائے کھیتوں کے بیچوں بیچ آگے کی طرف بھاگتا چلا جاتا تھا۔ایک ہد ہد تھی جو میرے تعاقب میں تھی ۔وہ مجھے بلاتی تھی اور میں چھو کے نہ دیتا تھا ۔مگر نہیں وہ تو مجھے اس بلاوے سے بہت پہلے بلاتی تھی اور میں سنتا نہ تھا، کیوں کہ میرے پاس بولنے کو بہت کچھ تھا۔ میرے منہ سے لفظ چن کر وہ جملے بناتی تھی۔ میرے ہر ہر لفظ سے کئی کئی معنی کشید کرتی مجھے سنتے ہی چلی جاتی تھی ۔شام ہوتے کچھ اور سامعین جمع ہو جاتے اور اس گھر میں میرے پوپلے منہ سے نکلے لفظوں کے ورد گونجتے، اور ان کی گونج وہاں کے مکینوں کو زمان و مکاں سے آزاد کرتی ایک شادمانی کے جہاں تک لے جاتی۔ جہاں صرف میں تھا اور کوئی نہیں ۔وہ مجھے پکار رہی ہے، میں اس کے لبوں کو چھوتا ہوں اور انہیں کچھ لفظ عنائت کرتا ہوں ۔وہ لفظ کی مالا جپتی حال کھیلنے لگتی ہے ۔

میں بے نیاز ہو جاتا ہوں اور آگےبڑھ جاتا ہوں۔

کوئی کھانستا ہے اور جو کھانستا ہے اس کے سینے میں درد کی آواز بلغم کی گڑگڑاہٹ سے پہلے مجھ تک پہنچتی ہے۔ میں میکانکی انداز میں اٹھتا ہوں اور اس کے لبوں سے پانی کا گلاس لگا دیتا ہوں ۔مگر اس کی کھانسی رک نہیں رہی۔ میں اس کی پیٹھ سہلاتاہوں اور تب مجھے معلوم ہوتا ہے اس کا لمس جانا پہچانا ہے اور وہ کوئی عورت ہے ۔میں اس سے پوچھتا ہوں;

”تم کون ہو؟ ”

مگر وہ درد کی مالا جپتی ہے اور اس کی آنکھوں میں موت کا انتظار پھڑپھڑا رہا ہے۔ وہ اپنی دوائیوں کے ڈبے کو کھولتی اس میں سے نئے نسخے ڈھونڈنے لگتی ہے۔ وہ ابھی بھی کھانس رہی ہے اور ماتمی بڑبڑاہٹ اس کے لبوں پہ ہے ۔مگر مجھ سے مخاطب نہیں۔ جیسے وہ کسی اور دنیا سے بول رہی ہو اور میرے لفظ اس تک نہ پہنچتے ہوں ۔۔۔میں اونچی آواز میں سوال دہراتا ہوں۔ مگر وہ دھڑا دھڑ دوائیوں کو اپنے اندر بھرنے میں مشغول ہے ۔میں اپنا سوال مزید بلند آواز سے کئی بار دھراتا ہوں۔ یہاں تک کہ وہ میری طرف متوجہ ہوتی ہے اور میرا ہاتھ پکڑ کر دیر تک اپنے رخسار پہ رکھتےاپنے وجود کی کچھ گرمی مجھ میں منتقل کرتی ہے۔ تب میں جانتا ہوں کہ وہ میری بیوی ہے۔ ادراک کا یہ لمحہ مجھ میں سکون پیدا کرتا ہے اور میں اپنی چارپائی پر جا کر لیٹ جاتا ہوں۔

کمرےمیں صرف میں اور وہ ہیں اور کچھ بے کار سامان ہے۔ بےکار اس ليے کہ وہ ہم دونوں کے کام کا نہیں ۔سامان میں میری اور اس کی چارپائیاں ہیں جو ایک دوسرے سے کچھ فاصلے پر ہیں۔ ان دونوں کے بیچ ایک میز ہے جس پہ پانی کا ایک جگ، گلاس، چمچ سرسوں کے تیل کی بوتل، کچھ بچی روٹی کے خشک ٹکڑے، دوائیوں کا کھلا ڈبہ جس سے کچھ دوائیاں ٹیبل پہ بکھری ہوئی ہیں اور موت کا انتظار کرتی کچھ سانسیں ہیں جو درد کا ورد جپتی ہیں ۔ ایک دو پٹ کی فولادی الماری ہے جو بے ترتیبی کا شکار ہے کہ اس کو ترتیب دینے والا کوئی نہیں۔ ایک وال کلاک ہے جس پہ سوئیاں جانے کس حادثے کا شکار ہوئیں کہ مزید چلنے سے انکاری ہیں۔ ایک وہ ہے جو ٹی بی، ، بلڈ پریشر،دل کے عارضے، بہرے پن اور بڑھاپے کی مریضہ ہے۔ ایک میں ہوں جو آوازوں کے تعاقب میں ہوں۔ میری اپنی آواز عرصے سے کہیں گم ہو گئی ہے کسی تک پہنچی نہیں۔ اسی لیے میں آوازوں کے تعاقب میں ہوں کہ شاید کہیں سے میری آواز مجھے مل جائے۔

اس کمرے سے ملحق ایک اور کمرہ ہے جہاں بہت سی آوازیں آباد ہیں۔ وہ کمرہ ایک بڑی عمارت کا حصہ ہے اور اس کا دروازہ عمارت کے اندر اس کے وسیع ہال میں کھلتا ہے اور ہم اس عمارت کے پچھواڑے میں رہتے ہیں۔ میرا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے کہ ان آوازوں پہ کان دھرتا ہوں جو خاموشی میں گونجتی ہیں تاکہ اپنی کھوئی آواز کا پتہ لگانا آسان ہو ۔

میں خاموشی کی آواز سننے کی کوشش میں کانوں کو اپنے وجود سے آزادی کا عندیہ دیتا ہوں۔ وہ مجھ سے الگ ہو کر ساتھ والی دیوار سے چپک جاتے ہیں۔ وہ آواز جو صرف تب تب ہی گونجتی تھی جب خاموشی ہوتی تھی ۔ وہ آواز ہنس رہی ہے اور اس کی ہنسی کے بیچ کوئی دوسری آواز مل کر دوستانہ پیغام دے رہی ہے۔ وہ دونوں آوازیں دیر تک باتیں کرتی ہیں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ اپنے لبوں سے کچھ لفظ چن کر ان تک پہنچا آوں کہ دیکھو یہ لفظ بھی ہیں ابھی ان کا وقت پورا نہیں ہوا۔ ایک وقت تھا کہ یہ بہت معتبر تھے ان کو سننے کے لیے ایک جہاں تھا ۔۔ان کو بھی سن لو، یہ تمہیں مایوس نہیں کریں گے ۔ایک وقت تھا کہ گاوں کی خالص فضاؤں میں اڑتے پرندے اس آواز کے تعاقب میں رہتے تھے

باہر بارش برسنے لگی ہے

یہ میری آواز جو گم ہو گئی ہے اس کو مٹانے کی کوشش میں ہے۔ میں چارپائی پہ اس خیال سے سہم کر ٹانگیں اکٹھی کرتے اپنے ماتھے تک لے آتا ہوں اور ایک گٹھڑی سی بناکر اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیتا ہوں کہ کہیں یہ میری آواز جو کہ گم ہوچکی ہے کو مٹا نہ دیں۔ مگر بارش کی آواز میں پل پل مزید آوازوں کا شور شامل ہوتا رہتا ہے.

وہ بول رہی ہے;

”جہانگیر! او جہانگیر تم ٹھہرجاو ذرا ۔۔۔نا تم نے ابا کو کون سی کہانیاں سنائی ہیں کل کی، کہ وہ میرے اور ویرے کے پیچھے پڑا ہوا ہے کہ ہم نے پوری زندگی ڈنگر ہی رہنا ہے۔ تجھ جیسا نہیں بن سکتے۔۔ ‘بیبا’۔۔تو رک ذرا سارے پنڈ کو اپنے پیچھے لگا لیا ہے تو نے ۔تو نہیں بچے گا۔۔۔ آج میرے ہاتھ سے ”

وہ میرے پیچھے بھاگتی تھی۔ وہ میری ہد ہد تھی جو الائچیوں کے کھیتوں کے بیچوں بیچ میرے پیچھے آتی تھی۔ مگر میں پکڑ کر نہ دیتا تھا ۔

”تم کیا سمجھتے ہو سارا زمانہ جو تمہاری جھوٹی کہانیاں سن لیتا ہے تو میں بھی تجھ سے متاثر ہو جاوں گی ۔اس موئے شہر کے سکول سے تو روز کوئی نئی خبر لاتا تھا اپنے ملک بارے تو چلو خیر تھی ۔گو ہم سب تیرے گرد بیٹھ کر تیری جھوٹی خبریں سنتے تھے مگر یقین نہیں تھا تجھ پہ کسی کو ۔اب موا ریڈیو لے آئے ہو، سارے پنڈ کو اردگرد بٹھا کرسناتے ہو، ساتھ اپنے بھاشن دینے لگے ہو۔ اوپر سے چاچا دینو اپنے پتر کی لائقی دیکھ تجھے دھپ لگا دیتا ہے کہ چل کامو ہیر سنا اور تو اپنے مراسیوں والے پکے سُر لگانے لگتا ہے تو یہ ہمارے وارے میں نہیں ۔تو نے ہم سب بالے بالیوں کو ہمارے گھر میں بے کار ثابت کرنے کی ٹھان لی ہے تو تو سن میں تیرا یہ ریڈیو ہی توڑ دوں گی تو ہاتھ تو لگ۔۔۔ ”

میں ہاتھ میں ریڈیو لیے بھاگتا جاتا تھا اور وہ میرے پیچھے بھاگتی آتی تھی ۔

وہ مجھ سے تین سال چھوٹی تھی۔ میں تب دسویں میں تھا اور اپنے گاوں میں واحد تھا جو شہر پڑھنے جاتا تھا۔ میری بات کو پورے گاوں میں معتبر مانا جاتا تھا۔ میرے کہے ہر لفظ پہ وہ سادہ سے لوگ کامل ایمان لے آتے تھے ۔میں ان کو سائنس کی کتاب پڑھ کر سناتا تو وہ عقیدت سے آنکھیں بند کر کے لگاو سے سنتے۔

ہد ہد کو اسی بات کا غصہ تھا۔ وہ اور میرے ہم جولی میری کمینگیوں سے واقف تھے ۔آج تنگ آ کر وہ میرے پیچھے آئی تھی۔ وہ بھاگ رہی تھی اور میں اس کے آگےبھاگتا پکڑ کر نہ دیتا تھا۔

وہ ہانپنے لگی تو میں رک گیا۔ وہ دھیرے دھیرے مجھ تک پہنچ گئی۔

میں نے اس کے کان میں محبتوں کے بول ڈالتے اس کی لٹ کو اپنی انگلی پہ لپیٹ لیا تھا اور اس کی بولتی بند ہو گئی۔

”چلو بیٹھ جاو یہاں۔۔ ۔۔فضول کی باتیں تو تم کر سکتے ہو یہ ہی تو تمہاری خوبی ہے ۔۔”

وہ ادا سے قریبی’بنے’پہ بیٹھ گئی تھی

”چل اب سزا ہے تیری اپنی آواز میں وارث شاہ کے کوئی بول سنا۔۔سارا گا وں کہتا ہے تم سی آوازقسمت والوں کو ملتی ہے ”

میں اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوں تو الا ئچیوں کے پودے حیا سے سر نہالیتےاور جھومنے لگتے ۔ سورج اپنی آخری کرن بھی کرہ ارض سے سمیٹتا گھر کی راہ لیتا ۔

پھر ایک عالم سرمستی میں وارث شاہ کی ہیر کے کچھ بول جو ابا نے مجھے چاندنی راتوں میں کھلے آسماں تلے چارپائیاں بچھائے تب سکھائے تھے، جب اما ں، میں اور ابا تین الگ الگ چا رپائیوں پہ لیٹے آسمان دیکھتے تھے، اور گھپ اندھیروں میں شفاف آسماں پر موجود ستارے ہمارے آنگن کو روشن کرتے تھے، گانے لگتا۔

مینوں بابلے دی قسم رانجهیا وے مرے ماں جے تدھ تهیں مکھ موڑاں

تیرے باہجھ تعام حرام مینوں تدھ باہجھ نہ نین نہ آنگ جوڑاں

خواجہ خضر تے بیٹھ کے قسم کهاہدی

تهیواں خوار جے پریت دی ریت توڑاں

کوہڑی ہو کے نین پران جاون تیرے باہجھ میں کونت جے ہور لوڑاں ۔۔۔۔

کئی سال وہ ہد ہد الائچیوں کے کھیت میں میری آواز کے پیچھے بھاگتی رہی۔

یہاں تک کہ میں شہر آکر ایک حکومت مخالف تحریک کے ساتھ جڑ گیا ۔فکر معاش اور مقصد زیست کے بکھیڑوں میں الجھا رہا ۔وہ تب بھی مجھے خط لکھتی تھی;

”جہانگیر میرے کان، یہ الائیچیوں کے پودے اور سارا گاوں تمہاری آواز سننے کو ہر وقت منتظر رہتے ہیں۔ ”

وہ کھانس رہی ہے اور باسکٹ میں بلغم تھوکتے تھوکتے کل سے خون بھی تھوکتی ہے۔ اس کی زندگی سامنے لگی گھڑی کی سوئیوں میں اٹک سی گئی ہے، چلتی نہیں ۔میں میکانکی انداز میں اٹھ کر اس کا پیشاب سے بھرا بیڈ پین غسل خانے میں خالی کرتا ہوں اور اس کے کانوں میں سرگوشیاں کرتا ہوں۔ جو اس کا حق ہیں مگر وہ سنتی کب ہے ۔

”تم بہت پیاری ہو قدس ۔۔تمہارے گلابی ہونٹ میری کمزوری ہیں. ”

مگر وہ مسلسل اپنے ایک گھٹنے میں مُکے چلاتی چلی جاتی ہے۔ حالانکہ ایک وقت تھا کہ میرے ان بولوں پہ اور میری آواز کی فرمائش پہ وہ ایمان لے آئی تھی، کسی اور کی آواز اسے سنائی نہ دیتی تھی ۔ اور انہیں بولوں کو کُل جان کر ساری زندگی میرے ساتھ گزارنے کو تیار ہو گئی تھی۔میری آواز نے شہر آکر بھی اپنے لیے بہت سے سننے والے ڈھونڈ لیے تھے اور ان میں سے ایک قدس بھی تھی۔ مگر اب اس تک بھی میری آواز نہ پہنچ پاتی تھی۔

میرے کان اب ماضی کے کچھ بول سننے کو مچلتے ہیں۔

کمرے میں درد کا نوحہ اب نقطہ عروج تک پہنچ چکا ہے ۔۔’ہائے ہائے’ کے نشتر میرے وجود کے تعقب میں ہیں ۔ میں ان سے فرار چاہتا ہوں ۔۔کیوں کہ وہ اپنا آپ تو مجھے سناتے ہیں میرا سننے کی ہمت کھو بیٹھے ہیں۔ اس لیے میں اس شخص پہ توجہ مرکوز کرتا ہوں جس کی آنکھوں میں ہمت اور ولولے نمایاں ہیں اور اس کی آواز میں سب کچھ کر گزرنے کی للکار ہے اور جو کسی درد سے آشنا نہیں باغی ہے ۔وہ مجھ سا لگتا ہے میں اسے سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہوتا ہوں وہ کہہ رہا ہے;

”کہی بات اور لکھا جملہ درست سامع اور قاری کے محتاج ہوتے ہیں میرے عزیز ۔دانا شخص عام لوگوں میں بے وقوف اور مسخره کہلاتا ہے اور بے وقوف، دانا لوگوں میں قابل رحم سمجھا جاتا ہے۔لفظ کی حرمت میں یہ بھی ہے کہ اسے درست سامع کے کان میں انڈیلا جائے۔۔کیا سمجھے؟ مجھ سے بات کرنے کے لیے تمہیں ابھی بہت زیادہ بلوغت درکار ہے میرے عزیز ”

وہ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے سامنے پڑی میز کو ٹھوکر لگاتا ہے اور اس کو سننے والا خجل سا ہو کر رہ جاتا ہے۔ میں بھی اپنی ٹانگ اسی جذبے سے لہراتا ہوں

سامنے کی میز جس پہ پانی کا ایک جگ، گلاس، چمچ، سرسوں کے تیل کی بوتل، کچھ بچی روٹی کے ٹکڑے، دوائیوں کا ایک ادھ کھلا ڈبہ جس سے کچھ دوائیاں باہر آگئی تھیں زمین پہ الٹی پڑی تھی۔

وہ شخص ایک انقلابی تحریک کا صدر تھا اور اپنی پارٹی کے جلسوں میں اپنی آواز کے طلسم سے ثور پھونک دیتا تھا۔ مائیک پہ پورے جوش سے اپنی آواز کا جادو جگا رہا ہے اور لوگوں کے ایک جم گفیر کو اپنے نام کا ورد جپتے سنتا ہے۔

“کامران صدیقی زندہ باد!

کامران صدیقی زندہ باد!

تحریک انقلاب زندہ باد”

وہ ہواوں میں دونوں ہاتھ بلند کر کے ان کے ساتھ نعرے لگا رہا ہے۔۔اور کوئی سٹیج سے گر جاتا ہے کوئی اسے جھنجھوڑ رہا ہے کہ گرنے والے پہ توجہ دے ۔

میں ہڑ بڑاکر توجہ کرتا ہوں وہ پانی کا گلاس پکڑنے کی کوشش میں چارپائی سے گر گئی ہے۔

دروازے پر دستک ہے۔ بارش کے شور میں یہ دستک بہت پرسرار سی معلوم ہوتی ہے ۔میں خود غرض سا بن کر وہ جو گر گئی ہے کو وہیں کراہتا، بلکتا چھوڑ کر دروازے کی طرف لپکتا ہوں کہ شائد میری آواز کا کوئی سراغ ہو ۔

دروازہ کھلتے ہی کئی چہرے کمرے میں داخل ہوتے ہیں ۔ان کی زبانیں فریاد کر کر کے خشک ہوئے جاتی ہیں اور حلق سے باہر لٹکتی ہیں ۔میں کان لگا کر ان کو سننے کی کوشش کرتا ہوں۔ وہ سب مجھے پکار رہی ہیں ۔میں سہم جاتا ہوں ۔پھر ان میں سے وہ جو میرے پوپلے منہ سے نکلے لفظوں سے جملے بناتی تھی، میں اس سے اپنی آواز کا پتہ پوچھتا ہوں ۔

وہ دیر تک میرے چہرے کو اپنی ہتھیلیوں میں بھر کر دیکھتی رہتی ہے۔

“تمہاری آواز اگلی نسلوں کے کانوں کی تلاش میں نکلی ہے میرے لال ، صرف انہیں کو سنائی دے گی، کیوں کہ وہ اس مرکز سے بچھڑ گئی تھی جہاں وہ سنی جاتی تھی اور توانا تھی مگر اب ایک عمر کے تمام ہونے تک اسے بھٹکنا ہوگا ۔۔آواز جب اپنے مرکز میں ہوتی ہے تو توانا ہوتی ہے اسے ہر کوئی سنتا ہے مرکز سے بچھڑتے ہی کمزور پڑ جاتی ہے دائروں میں ان سنی گھومتی ہے یہاں تک کہ کسی دوسرے دائرے کے مرکز میں نہ جا گرے جس کی چاہ. میں وہ ایک عمر گزار دیتی ہے ۔ہماری آوازیں بھی ایک عمر کا فاصلہ طے کر کے آئی ہیں،ہماری آوازیں جو بہت پہلے اپنے مرکز سے جدا ہوئیں، اور توانائی کھو بیٹھیں اسی لیے کبھی تمہیں سنائی نہ دیں، ایک عرصہ تک تمہارے کانوں کےتعاقب میں تھیں ۔دیکھو میرے لال انہیں تمہارے کان اب میسر ہیں۔مرکز سے بچھڑی آوازوں کو کہیں پہنچنے کے لیے بہت ساری آوازوں میں گم ہونا پڑتا ہے ۔۔یہاں تک کہ وہ بہت سی آوازیں بے جان نہ ہو جائیں تب تک وہ سنی نہیں جا سکتیں ۔”

مجھے اپنی آواز کی بے بسی پہ ترس آتا ہے، میں اسے مسافت سے بچانا چاہتا ہوں، سو دیوانہ وار باہر کو بھاگتا ہوں ۔وہاں نئی نسل کی آوازوں کے جھرمٹ میں، جن میں وہ آوازیں بھی شامل ہیں جو میرے کمرے کی دیوار کے اس پار رہتی ہیں، جو بولتی ہیں اور ہنستی ہیں بھی شامل ہیں مجھے اپنی شکستہ، بے جان اور دھتکاری ہوئی آواز مل جاتی ہے۔میں اس کے لیے ایک بار پھر سے کوئی کان تلاش کرتا ہوں، جو اسے سن سکے مگر وہ سب آوازیں بہت توانا ہیں ابھی اپنے مرکز میں ہیں اتنی توانا ہیں کہ مجھے ان سے خوف آتا ہے اور وہ آوازیں کان نہیں رکھتیں ۔میں کوشش کرتا ہوں کہ اپنی آواز کو واپس کھینچ کر اپنے کمرے میں لے جا سکوں، مگر وہ جانے کو تیار نہیں، ابھی اسے عمر تک سفر میں رہنا ہے یہ جان کر میں لٹا پٹا سا اپنے کان ان منتظر آوازوں کے لیے سنبھالتا الٹے پاوں واپس آگیا ہوں جنہیں ایک مدت کے بعد نیامرکز میسر آیا ہے وہ مرکز جس کی برسوں انہوں نے چاہ کی تھی

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031