ٹیکسٹیشن شپ ۔۔۔ فرحین خالد

ٹیکسٹیشن شپ

فرحین خالد

عجیب سی داستان ہے زندگی کی، ان دنوں ایک مستطیل میں میرا بسیرا ہے جہاں ہم ہیں اور ہمارے دو فون۔ میں نے سوشل میڈیا پہ اپنا ریلیشن شپ اسٹیٹس اَپ ڈیٹ کیا ۔۔۔۔ ٹیکسٹیشن شپ

اور کرسی کو پیچھے دھکیل کے جسم کو تانا کہ شاید کسلمندی دور ہو جائے پر تشفی نہ ہوئی۔ عشق حاوی ہو جائے تو جوڑ جوڑ میں ایسے رس بھر جاتا ہے کہ اسکا سرور دن رات گنگناتا گیت گاتا موج در موج لہکتا ہے۔ من موجی کہیں کا!

میں نے اس بار کھڑے ہوکے بھرپور انگڑائی لی اور جوڑے کا پن نکال کے سر کو ہلکی سی جنبش ہی دی تھی کہ بال کسی جھرنے کی مانندکمر پہ بکھرتے چلے گئے یہ منظر میں نے عقب میں لگے شیشے میں دیکھا جو با لکونی میں کھلتا تھا۔اپنا آپ اچھا لگا، میں مسکرائی اور دروازہ کھول کے کھلی فضا کو ایک ہی سانس میں اپنے اندر سمو لیا ، خوشبو کی طرح۔۔۔

آج بھی پوری رات آنکھوں میں کٹی تھی اور میں اسی کیف میں تھی ۔ریلنگ پہ جھولتے ہوئے سوچا، میں کتنی خوش ہوں ! میں خوش ہوں کہ میں نے اپنا ہم نفس پا لیا ہے ۔

محبوب تو ملا۔۔ خیالی (virtual) ہی سہی !

جہانزیب کے بارے میں جب بھی سوچتی سب کچھ دھندلا سا جاتا تھا۔

وہ مجھے ملا بھی تو کہاں۔۔ دائیں بائیں مڑتی سائبر ورلڈ کی “مِلن گلیوں “ میں! جس پر میں ایک ریسرچ پیپر لکھ رہی تھی۔ اُسوقت ، جب مجھے کسی سے نئے رشتے استوار کرنے کی نہ تمنا تھی نہ ہی آرزو کیونکہ میں ایک آٹھ سالہ ازدواجی “ایکس ہول “ سے باہر آئی تھی اور کسی نئے گڑھے میں گرنے سے گریزاں تھی مگر جانے اس کی آنکھوں میں کیا بات تھی کہ پہلی بار دیکھا تو دل کی دھڑکن تھم سی گئی ۔ اسکی سوچتی آنکھوں میں ، میں نے اپنے عکس پائے تھے۔ اسکے ہونٹوں کی کشش سے میں نے نظریں چرائیں تو تھوڑی کی درز میں جاگزیں ہوئیں ۔۔۔میں سحر زدہ سی بیٹھی رہ گئی ۔سوچ کے دھارے اپنے راستے جواز کرتے رہے اور میں ان میں تہ بہ تہ ڈوبتی چلی گئی ۔اپنا آپ کسی سولہ سالہ دوشیزہ جیسا معلوم ہوا جو دھڑکتے دل کے ساتھ سوچ رہی تھی کہ اتنا خوبرو دِکھنے والے کا دل کیسا ہوگا ؟وہ نرم خو ہوگا یا کرخت مزاج؟ گاتا ہوگا یا لکھتا ہوگا؟

ان خیالوں سے مجھے میرے چھ سالہ بیٹے نے چونکایا تو اپنی سوچوں سمیت اس دنیا میں لوٹ آئی جہاں میں تنہا تھی۔ جہاں میری زندہ لاش کے ساتھ بلکتی آرزوئیں بھی دفن ہونے کو تیار تھیں مگر پھر بھی ذمہ داری کا بوجھ ڈھوئے جینے کی ڈگر پہ دھکیلی جا رہی تھی۔ شادی جیسا ناتواں بندھن تو میں کب کا مسترد کر چکی تھی مگر شایدیہ چاہے جانے کی آرزو ہی تھی جو مجھے اس کے قریب لے گئی اور میں نے اسے پہلا ٹیکسٹ کیا۔

“ آپکی خاموش آنکھوں میں یہ کیسا شور ہے جو مجھے اس پار بھی سنائی دے گیا؟”

تھوڑی ہی دیر بعد اس کا جواب اُبھرا،” میرے تو الفاظ بھی گنگ ہیں آپ آنکھوں کی بات کرتی ہیں!”

میں مسکرائی اور اس خیال پہ دل گدگدایا کہ ، ظالم ایک تو حسین ہے اوپر سے ذہین بھی ۔ مجھے لگا میرا جیک پاٹ لگ گیا ہے۔ میں نے جھٹ جواب ٹھوک دیا،” آپ اکیلے نہیں ،اکثر لوگ میری ڈی پی کا ایسا ہی اثر لیتے ہیں!” جس کے جواب میں اس نے بہت سی اسمائلیز بھیج دیں اور یوں یہ بذلہ سنجی الفاظ کی جنگ بن گئی اور ہم کئی دن تک ایک دوسرے کو ظریف و خوش طبع گفتگو سے چیلنج کرتے رہے۔ میرا بھی دل لگ گیا تھا۔ روزانہ جاب سے آکر تھک جایا کرتی تھی پھر گھر کے کام اور باذِل کو ہوم ورک کروا کے مزید چور ہوجاتی مگر جب سے جہانزیب سے بات چیت ہوئی تھی مجھ میں زندگی کی ایسی لہر دوڑی تھی کہ اوسین بولٹ بھی مات تھا۔ یہ فرق اتنا واضح تھا کہ خواتین کولیگ پوچھتیں میڈم ان دنوں کونسی کریم لگا رہی ہیں اور باقیوں کی ستائشی نگاہیں چغلی کھاتیں ۔ میں ان طواف کرتی نظروں اور ان میں اَن کہے پیغاموں کی پرواہ کیئے بغیر روز گھر کا رخ کرتی اور وہی کام جو میں پہلےسخت نقاہت کے ساتھ کیا کرتی تھی پلک جھپکتے میں نمٹا کر اپنی کمپیوٹر ٹیبل پہ آکے براجمان ہوجاتی اور گھنٹوں اس کی راہ تکتی۔

سچ پوچھیں تو مجھے اپنا نیا روٹین سوٹ کرتا تھا۔ مجھے

You رشتہ داروں سے الرجی تھی، دوستوں کی ایک حد سے زیادہ مداخلت پسند نہ تھی، اماں سے میں سنڈے کے سنڈے اسکائپ کر لیا کرتی اور شوہر جیسا جھنجٹ میں نے پالا نہیں تھا اس لیئے زندگی میں سکون ہی سکون تھا۔ کبھی دوست سہیلیاں شکایت بھی کرتیں تو میں ریڈی میڈ بہانے جو کاہلی کے آمیزے میں گھڑ کے غلط بیانی کے تندور میں ڈھالا کرتی جھٹ پٹ پیش کر دیتی۔ میں دراصل ایسی“لو لائف “ کی متقاضی تھی جس میں کوئی پیچیدگی نہ ہو۔ نہ مجھے اچھا لگنےکا پریشر ہو نہ خاطر داریوں کے لوازمات سے گزرنا پڑے اور نہ دل ٹوٹنے کا خدشہ! دل ایسے لگانا چاہتی تھی کہ دل لگے بھی نہیں اور دیوانہ رہے ۔ آس بھی نہ دے اور وابستہ رہے ۔

کسی کی دسترس میں نہ ہو مگر اسیر رہے۔

سب کچھ میری مرضی کے مطابق جا رہا تھا اور میں مطمئن تھی۔ آلارم بجا تو میری سوچ کا تانا بانا ٹوٹا۔ باذل کو اسکول بھیج کے مجھے آج سمینار پہ جانا تھا رات بھر کی جاگی ہوئی تھی مگر بے فکر تھی کہ نیند پوری کرنے کا اس سے خوب موقع کب ہاتھ آنا تھا سو نئے سورج کو بوسے کی سلامی دے کے کر حقیقی دنیا میں داخل ہوگئی۔

سائبر دنیا کی اپنی قباحتیں ہیں جس میں زندہ و تابندہ رہنے کے لیئے ہر وقت ڈیٹا ہونالازمی ہے اور دوسری اہم ضروت فون کا ہر وقت چارج ہونا اور یہ کام میں اپنی آتی جاتی سانسوں کے طرح کر رہی تھی گویا میں یہ دوہری زندگی ایک ایسے خواب کی مانند جی رہی تھی کہ نہ اِس میں زندہ تھی نہ اُس میں پنپ رہی تھی اس سیلی لکڑی کی مانند جو جلتی کم ہے اور دھواں زیادہ دیتی ہے۔

ان تین مہینوں میں ہم ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے کہ محسوس ہوتا جیسے جنموں کے ساتھی ہوں ۔ میں موڈی سی تھی مگر وہ ایک ٹھنڈے میٹھے پانی کے چشمے کی طرح تھا، ہمیشہ ایک سے مزاج کا ، فرحت بخش سا۔ ہماری آپس میں خوب چھنتی اور ہم ایک ایک بات میں مشاورت کرتے ۔یہ بات تو اس نے پہلے ہی دن بتائی تھی کہ وہ شادی شدہ ہے اور دو بچوں کا باپ بھی مگر بیوی آسٹریلیا پلٹ ہے اس لیئے مشرقی وسطی میں اس کا دل نہیں لگتا اور یہ کہ وہ بھی روز روز کی بحث سے تنگ آچکا ہے کچھ بعید نہیں کب چھٹکارا پا لے۔ مجھ سے پوچھا تو میں نے ہنس کے کہہ دیا کہ ،” مجھ سے کیا پوچھتے ہو؟ میں تو خود شادی کو بربادی سمجھتی ہوں۔ سسک سسک کے جینا بھی کوئی جینا ہے ؟ ایسی قید با مشقت جس کی کوئی میعاد نہیں۔ ہاں بچوں کا پوچھو تو ان کے ساتھ زیادتی ہے تو انکو ماں کے حوالے کر کے نان و نفقہ بھیجتے رہو۔” اس نے مذاقا مجھے اسکے بچوں کی ماں بننے کا کہا تو ہم دونوں ہنس پڑے مگر یہ خیال میرے دل میں کھب گیا ہے۔میں آف لائن ہوکے بھی اسی بات کو سوچتی رہی اور شاید اسی دن سے ہماری دوستی نے نیا رخ اختیار کیا۔ ہلکی پھلکی نوک جھونک کے بعد پیدا ہونے والی ذہنی ہم آہنگی ایک رومانوی روپ دھارنے لگی ۔ وہ تعلق جو میں اصلی دنیا میں قائم کرنے سے کتراتی تھی وہ اس مجازی دنیا کی حقیقت بننے لگا۔ رات بھر کی بورڈ پہ تھرکتی انگلیاں محو رقص ہوکر نئی داستانیں رقم کرنے لگیں ، جو سوہنی ماہیوال کی کتھا سے زیادہ پر سوز اور ہیر رانجھا کی داستان سے زیادہ پر کشش ہوتیں کیونکہ وہ میری اپنی کہانی تھی۔ جس کو میں ایک خواب میں جی کر اسی خواب ہی میں تعبیر بھی کر رہی تھی۔

سب کچھ اچھا جا رہا تھا مگر مجھ میں ایک بے چینی پرورش پا نے لگی ۔ رات بھر وارفتگی سے شل راتیں گزار کر صبح کی چکا چوند میں ڈھلی محرومیاں مجھ میں نیا ہیجان پیدا کرنے لگی تھیں ۔میری تنہائی دو چند ہو گئی تھی۔ فرقت کے دورانیے مجھے بہت زیادہ کھلنےلگے اوپر سے ضمیر میں چلنے والی گناہ و ثواب کے جھکڑ مجھے متزلزل کیئے دیتے تھے۔اکثر سوچتی کہ میں ہی پہل کر لوں اس سے بات کرکے دیکھوں وہ کیا سوچتا ہے ۔

دو روز سے مینہ برس رہا تھا اور انٹرنیٹ ڈاؤن تھا ۔ میرے اندر کا موسم باہر کے موسم سے کچھ مختلف تو نہ تھا۔اسکی یادیں ایسی گھر کے آئیں تھیں کہ آنکھیں چھلک چھلک جاتیں۔ جہانزیب سے کوئی رابطہ ہی نہ ہو سکا تھا ایسے میں کبھی حکومت کو کوستی تو کبھی باذل سے الجھتی کرتی تو کیا کرتی؟ اپنی بے بسی پہ رونا آ رہا تھا ۔ اپنی تڑپ میں بھی اسی کا خیال غالب تھا کہ جانے وہ کتنا یاد کرتا ہوگا مجھ کو؟ میرا دل چاہا کہ میں اسے فون کروں اسے بتاؤں کہ بیلے پہ جو پھول آئے تھے اس طوفانی بارش نے روند دیئے ہیں۔۔۔ بہت تذبزب کے بعد جب میں نے پہلی بار اسے فون ملایا تو دوسری طرف ایک مترنم آواز نے فون ریسیو کیا اور بولی “ جہانزیب اس وقت موجود نہیں۔” میں نے گھڑی میں دیکھا تو اسکے مقامی وقت کے مطابق رات کے ڈھائی بجے تھے۔ شک اور وسوسوں نے مجھے گھیر لیا حالانکہ اس نے مجھ سے کوئی عہد و پیماں نہیں کیئے تھے، پھر نہ جانے کیوں مجھے بے وفائی کا شدت سے احساس ہوا۔ نیٹ بحال ہوتے ہوتے میرے اندر جلتے شبہات کا ایک لاوا پک چکا تھا جو جہانزیب کی دی گئی وضاحت سے ٹھنڈا نہ ہوا کہ وہ اس کی سیکریٹری تھی جو پروجیکٹ میں مدد کرنے آئی ہوئی تھی۔ میرا دل کہتا تھا کہ میں اسی بات کو سچ مان لوں مگر دل راضی نہ ہوتا۔میں کبھی بھی اس خواب سے نہیں نکلتی اگر میری تشفی ہوجاتی۔ میں چڑچڑی ہوتی جا رہی تھی اور جہانزیب بھی مجھے میرے حال پہ چھوڑنے لگا تھا جس کا مجھے بہت قلق تھا۔ یہ پھندہ میں نے اپنے لیئے خود تیار کیا تھا اور اب جیسے جیسے ہالہ تنگ ہو رہا تھا تکلیف بڑھ رہی تھی۔

جب جب وہ میرے ٹیکسٹ کا جواب دینے میں تساہل کرتا برتتا میں نفسیاتی ہوجاتی حالانکہ سب کچھ پہلے جیسا تھا مگر مجھے اسکا نیٹ پہ بتائے وقت پہ نہ ملنا بے وفائی لگنے لگا تھا ساتھ ہی دس طرح کے اندیشے گھیرے رکھتے کہ کہیں اس نے کوئی اور نیٹ سہیلی تو نہیں بنا لی ؟ اس خوف نے مجھ سی پینتیس سالہ پروفیشنل اور مستحکم عورت کے اندر وہ رقابت پیدا کردی کہ مجھے خود بھی اپنی ذہنی حالت پہ شک ہوتا جب میں گھنٹوں اس کا پیچ سرچ کرتی ، اور تو اور اس کے دوستوں کے دوست کو بھی کھنگال ڈالتی ۔ مگر پھر جب جہانزیب کبھی نظرِ التفات ڈالتا تو میں سب کچھ بھول جاتی ۔ وہ میری محبت ہے یا میری عادت فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔

اس روز جب اس نے اپنے آسمان پہ ٹنکے چودھویں کے چاند کی تصویر بھیجی تو میں بھی مسحور ہوکے رہ گئی کہنے لگا، “ جانتی ہو یہ اتنا حسین کیوں دکھتا ہے؟ کیونکہ اس میں ہم دونوں کا عکس شامل ہے !”

مجھے اسکی الفت کا یہ انداز بہت بھاتا مگر جانے کیا وجہ تھی کہ اب ہماری ملاقاتوں کے دورانیے مختصر اور ان میں با قائد گی کم ہوگئی تھی۔ مجھے لگ رہا تھا کہ اسے کوئی مجھ سے بہتر مل گئی ہے اور وہ جلد مجھے یہ خبر دینے والا ہے ۔ پہلی بار مجھے نیٹ پہ بتائی زندگی کی بے ثباتی کا احساس ہوا۔ شاید لفظوں پہ گھڑی محبتیں اسی لیئے پروان نہیں چڑھتیں کیونکہ وہ عمل کی کسوٹی سے نہیں گزری ہوتیں ۔سوچتی ہوں اس سے پہلے کہ وہ مجھے بلاک ڈیلیٹ کردے میں خود اس کی زندگی سے نکل جاؤں۔ ایسا میں پچھلے کئی دنوں سے سوچ رہی تھی مگر فیصلہ نہیں کر پارہی تھی۔ میں خود بھی اپنے آپ سے یہ اعتراف کرنے سے قاصر تھی کہ مجھے اس سے سچ مُچ میں محبت ہوگئی تھی۔ میں نے محسوس کیا تھا کہ وہ تقسیم شدہ آدمی ہے جو کسی ایک کا نہیں ہو سکتا۔ میں جان گئی تھی کہ وہ صرف میرے فون میں بستا ہے اور میرا نہیں ہے۔

یہ راز آشکار ہوتے ہی میں بوجھل قدموں سے اٹھی ، لیپ ٹاپ آن کیا اور اپنے پیر پڑتے دھائی دیتے آنسوؤں کی پرواہ کیئے بغیر گریز کرتی کپکپاتی انگلیوں سے اپنا اسٹیٹس بدل ڈالا۔ دھندلی آنکھوں نے جو نیا ریلیشن شپ اسٹیٹس آپشن کلک کیا وہ تھا ۔۔۔

سیپریٹڈ!

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

April 2024
M T W T F S S
1234567
891011121314
15161718192021
22232425262728
2930