آئیہ اواخر ۔۔۔ ذوالفقار فرخ
آئیہ اواخر
( ذوالفقار فرخ )
ہم سنبھلتے تو تب بھی کیا ہوتا
برف کی اُن سِلوں پہ تھے ہم لوگ
جو پھسل جاتی ہیں ٹھہرتی نہیں
برف کے ریگزار ِ سرد میں یہ
چھیل دیتی ہیں منظروں کے بدن
پاؤں پیوست ہو چکے ہیں مگر
مت سمجھنا کہ ہم گریں گے نہیں
ایک وقت آئے گا اے جان ِ جہاں
آر پار ہو کے اِن سلوں میں سے
منجمد آب ِ سخت جاں کے لیئے
لقمئہ ِ گرم بن کے بکھریں گے
چار جانب دیار ِ یخ بستہ
جس میں اپنے سفید سایوں کو
کون دیکھے گا سب کی آنکھوں میں
برف بن کر جمے ہوئے آنسو
ہم کو ہم سے بھی راز رکھیں گے
برف کی چوٹیاں پھسل جائیں
تو پھسل جاتے ہیں جہاں بھی ساتھ
لاکھ سورج بھی جل اُٹھیں لیکن
آنچ آتی نہیں سِلوں پہ کبھی
لاکھ آنکھیں بھی اشک برسائیں
برف کے سلسلے پگھلتے نہیں
مدتوں سے وہ زائران ِ قدیم
آج بھی استخوان ِ سرد ہیں جو
منتظر ہیں ہماری آمد کے
کون جانے کے کب سے دفن ہیں وہ
برف کے منجمد صحیفے میں
مدتوں سے سطور ِ جامد ہیں
آج ہو جائیں گے رقم ہم بھی
اس صحیفے کی ٹھنڈکوں میں کہیں
کیا خبر برف کو کہ کون ہیں ہم
ہم کو چوٹی سے کھینچ لائی ہے وہ
ہم تو ازلوں سے اس صحیفے کی
جان ِ جاں آئیہ ِ اواخر ہیں