نذرانہ عقیدت ۔۔۔ ذوالفقار تابش
حضرت بابا فریدؒ گنج شکر کے حضورمیں
( ذوالفقار تابش )
طلوع ساعت صبح صدا کا منظر تھا
نگاہ ِ نیل میں ٹھہری ہوا کا منظر تھا
وہ زلف ڈال کے سوئے تھے اپنے چہرے پر
وفور ِ حسن کا، رنگ حیا، کا منظر تھا
مقام ِ گریہ سے آگے درِ تسلی تھا
حریم ِ ھُو میں سکوت و صدا کا منظر تھا
فصیل ِ جنبش ِ لب پر کھلا تھا باب ِ ظہور
مقام ِ کُن پہ کہیں ابتدا کا منظر تھا
ہرے کچور کریروں پہ بارشوں کا نزول
سحاب ِ سبز میں عکس و ادا کا منظر تھا
فراز ِ راہ میں ہر گام عاشقوں کا ہجوم
تیرے دیار میں جود و سخا کا منظر تھا
جہان بنتے، بگڑتے، دکھائی دیتے تھے
مثال ِ شیشہ وہاں کی فضا کا منظر تھا
جمال ِ جلوہ کہیں تھا، کہیں جلال وجود
کہیں پہ لذت ِ فخر و غنا کا منظر تھا
کہیں تھا اِذن محبت کہیں تھا زخم ِ فراق
کہیں پہ کشتہء صدق و صفا کا منظر ھا
شعاع ِ نیل پہ اڑتی قطار کونجوں کی
شب ِ شعور میں ظاہر فضا کا منظر تھا
وہ لب دعاوں کی کلیاں وہ ہاتھ برگ طلب
فصیل و در پہ لکھا التجا کا منظر تھا
کہیں فرشتے دلوں سے کلام کرتے تھے
کہیں نگاہ ِ صنم آشنا کا منظر تھا