غزل ۔۔۔ ذوالفقار تابش
غزل
ذوالفقار تابش
سفر حیات کا اک احتمال جیسا تھا
گمان گزراں تھا خواب و خیال جیسا تھا
کبھی لگا مجھے اندوہ ِ آتش ِ ہجراں
کبھی لگا کہ نشاط ِ وصال جیسا تھا
نظر پڑی تو اسے دیکھتا رہا تا دیر
کہ حسن اس کا کسی کے جمال جیسا تھا
کہیں لگا وہ ابھی معرض ِ ظہور میں ہے
کہیں ظہور ابھی خال خال جیسا تھا
کہیں سوال تھے لیکن جواب کوئی نہ تھا
کہیں جواب بھی مجھ کو سوال جیسا تھا
میں اپنے آپ کی تکمیل کر رہا تھا ابھی
مگر وہ مرحلہ کار ِ محال جیسا تھا
Facebook Comments Box