غزل ۔۔۔ ذوالفقار تابش
غزل
ذوالفقار تابش
ادھر سے آئی تھی آ کر ادھر تمام ہوئی
پلک جھپکنے میں عمر شرر تمام ہوئی
پھر اس کے بعد تو بس دھوپ کی تنازت تھی
سحر کے ساتھ نوید سحر تمام ہوئی
وہ شور تھا کہ سنائی نہیں دیا کچھ بھی
وہیں چلیں کہ جہاں پر خبر تمام ہوئی
عجب خمار تھا اس خواب رو کی آنکھوں میں
نگاہ ملتے ہی تاب نظر تمام ہوئی
طلسم خواب میں کچھ ایسا کھو گیا تھا میں
تمیز دشت و جبل، بام و در تمام ہوئی
جہاں فروغ تجلی تھا ہم بھی حاضر تھے
حریم حسن میں لیکن نظر تمام ہوئی
مری نگاہ کو بس اتنی ہی رسائی تھی
زمیں سے اٹھ کے تیرے بام تک تمام ہوئی
مرے ہی ساتھ کوئی ہاتھ ہو گیا جیسے
ہنر کے ساتھ رہی بے ہنر تمام ہوئی
عجیب بات ہے لیکن یہی ہوا تابش
مری کہانی ترے نام پر تمام ہوئی۔
Facebook Comments Box