غزل ۔۔۔ ذوالفقار تابش
غزل
ذوالفقار تابش
سارے لمحے سر نگوں تھے سارے پل ٹھیرے ہوئے تھے
وادیاں سنسان تھیں دشت و جبل ٹھیرے ہوئے تھے
کیسے کیسے سرکشیدہ عرصہ افسوس میں تھے
ساحلوں پر بادلوں کے دل کے دل ٹھیرے ہوئے تھے
کیا سخن ور تھے کہ جن کے لفظ لکنت کھا گئی تھی
دم بخود سب خواجگان بے بدل ٹھیرے ہوئے تھے
سب خزانے سارے کس بل خاک میں رل مل گئے تھے
آج ان کے کھو چکے تھے اور کل ٹھیرے ہوئے تھے
ان کے لفظوں کی سیاہی ان کے چہرے پر ملی تھی
ان کے نعرے ان کے دعوے بے محل ٹھیرے ہوئے تھے
کیسے کیسے لوگ تھے جا اک خدائی کے خدا تھے
ایک گوشے میں وہ خاموش و خجل ٹھیرے ہوئے تھے
کور چشم ایسے کہ ان کو سوجھتا کچھ بھی نہیں تھا
ان کے محلوں پر سفیراں اجل ٹھیرے ہوئے تھے
Facebook Comments Box