مسافتیں ۔۔۔ ذوالفقار تابش
مسافتیں
ذوالفقار تابش
( غزل کے معروف، سینئر شاعر کی پہلی نثری نظم، عمدہ نظم )
اس کنارے پر میں بیٹھا تھا
اس کنارے پر وہ بیٹھی تھی
ہم دونوں کے بیچ ایک بے نام بہاو تھا
ہر لحظہ اس کا رنگ بدلتا تھا
کبھی یہ رنگ کبھی وہ رنگ
کبھی کوئی، کبھی کوئی نہیں
” سنو۔ تم کب سے یہاں بیٹھے ہو “؟ اس نے پوچھا
میں نے اس کی طرف دیکھا
” میں ازل سے یہاں بیٹھا ہوں ۔”
” تم کب سے یہاں بیٹھی ہو ” ؟
“میں ہمیشہ سے یہاں بیٹھی ہوں۔ “
” اس دوران یہاں کیا ہوتا رہا “؟ میں نے پوچھا
” پتا نہیں۔ ” وہ بولی، ” تمہیں پتا ہے ” ؟
“نہیں۔ میں بھی نہیں جانتا۔ “
” کناروں کے بیچ یہ کیا بہہ رہا ہے ۔ “؟ اس نے پوچھا تھا
” مسافتیں بہہ رہی ہیں۔ ” یہ میری آواز تھی۔
“کب تک بہتی رہیں گی، یہ مسافتیں؟ ” اس نے پوچھا
“یہ کوئی نہیں بتا سکتا۔ ” میں بولا
” تم کب تک بیٹھی رہوگی یہاں۔ ” ؟
وہ مجھے دیکھتی رہی، خا؛لی نظروں سے
” جب تک تم ادھر نہیں آ جاتے”
یہ کہہ کر اس نے آہ بھری
میں نے بھی اسے دیکھا۔ اور اک آہ بھری
کچھ لمحے میں اسے اور وہ مجھے دیکھتی رہی
” کیا تمہیں یقین ہے کہ میں ادھر آوں گا۔ ؟”
وہ چپ رہی
” کیا تمہیں یقین ہے کہ میں ادھر آوں گی ؟ “
میں چپ رہا۔ کچھ دیر خاموشی رہی
اس نے مجھے، میں نے اسے دیکھا
اور پھر دونوں مسافتوں کو بہتے
دیکھنے لگے