نظم ۔۔۔ ذوالفقار تابش
نظم
( ذوالفقار احمد تابش )
سوچتے سوچتے ذہن پتھرا گئے
اور لفظوں کی بارش
یونہی قطرہ قطرہ ٹپکتی رہی
لوگ کہتے ہیں
کہنہ صحیفوں میں لکھے ہوئے لفظ تاثیر گم کر چکے ہیں
کسے یہ پتا کہ بصارت کی شمعیں دھواں دے رہی ہیں
سوالوں کے طائر دلیلوں کے آفاق پر اُڑ رہے ہیں
گھنے جنگلوں کی عجب خوشبویئں دلکشی کھو رہی ہیں
گلابوں کی رنگت سبک ساعتوں میں سفر کر رہی ہے
اب تو آفاق سے حرف در حرف
ہونے نہ ہونے کی آیات
ذہنوں کے غاروں میں نازل ہوئی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی فیصلے کی گھڑی ہے
Facebook Comments Box