زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے۔۔۔۔۔
سیدہ شوال رضا
ساغر صدیقی کی زندگی ان کے اس مصرعہ کی مکمل تفسیر تھی .ساغر کو سنبھالنے والے ہاتھ کبھی میسر نہیں آئے.وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ تباہ حال ہوتے چلے گئے. ان کا اصل خاندان انبالے سے تھا وہ وہیں پیدا ہوئے.خاندانی نجابت اور انا ضرور تھی لیکن گھر میں مفلسی جاگزیں تھی. ایسے حالات میں باقاعدہ تعلیم حاصل کیا کرتے۔ محلے میں ایک پڑھے لکھے شخص حبیب حسن رہتے تھے.انہی کے پاس ساغر کا آنا جانا تھا. جو کچھ پڑھا انہی سے پڑھا کچھ حوالے ہیں کہ مڈل کے کچھ درجے تک پڑھا تھا. آخر اس ماحول سے تنگ آکر امرتسر چلے گئے اور وہاں رہنے کے لیے وسائل تلاش کرنے لگے. بال بازار امرتسر میں ایک دکان پر ملازمت کر لی وہاں کنگھیاں بناتے تھے. جلد ہی اس فن میں طاق ہوگئے۔
ساغر صدیقی چودہ پندرہ سال کی عمر میں ہی شعر کہنے لگے. اپنے یاروں دوستوں کو سنانے بھی لگے اس وقت تخلص ناصر مجازی تھا .کچھ عرصہ بعد ساغر صدیقی لکھنے لگے. ساغر کی اصل شہرت 1944 میں ہوئی.اس سال امرتسر میں ایک بڑے پیمانے کا مشاعرہ منعقد ہوا. اس میں لاہور کے بہت سے شاعر شامل تھے.وہاں منتظمین تک بات پہنچی کہ ایک لڑکا ساغر صدیقی بھی یہاں ہے جو شعر کہتا ہے. اسے سنانے کے لیے بلایا گیا. ساغر صدیقی کو بہت داد ملی اور پرسوز ترنم بھی سنا اور سراہا گیا.اس کے بعد راستے ہموار ہو گئے اور مشاعروں پہ مشاعرے ملنے لگے. ساغر نے کنگھیوں والا کام بالکل چھوڑ دیا. گھر والے شاعری کے شغف پہ اور زیادہ ناراض ہو گئے لیکن ساغر کو کہاں پروا تھی۔
شاعری پہ اصلاح لینے کے لیے لطیف انور گورداسپوری کا انتخاب کیا.اور بہت فیض پایا۔
انیس سو سینتالیس کی تقسیم میں ساغر صدیقی پاکستان چلے آئے اور دوستوں کی محفلیں سجنے لگیں. مشاعرے ایک تسلسل سے پڑھنے لگے. حیرت انگیز طور پر فلمی گیت لکھنے کا موقع بھی ملنےلگا۔انور کمال پاشا کی سرپرستی میں ساغر نے شاندار وقت گزارا۔
انیس سو باون میں ساغر صدیقی مارفیا کے ٹیکے سے نشے کی لت میں پڑگئےاور پھر یہ سلسلہ طرح طرح کے نشوں سےہوتا موت پر منتج ہوا اوروہ آخری دم تک وہ خود کو سنبھال نہیں سکے. ان کے کلام کو بہت سارے لوگوں نے چرا کر اپنے نام سے شائع کروایا اور شہرت پائیﺳﺎﻏﺮ ﺻﺪﯾﻘﯽ کے ﻭﺍﻟﺪ ﻧﮯ ﺳﺎﻏﺮ ﮐﯽ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﻮ ﯾﮧ کہہﮐﺮ ﭨﮭﮑﺮﺍ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺧﺎﻧﺪﺍﻧﯽ ﻟﻮﮒ ﮬﯿﮟ. ﮐﺴﯽﺗﻨﺪﻭﺭ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯽ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺑﮩﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻨﺎ ﺳﮑﺘﮯ۔غصہ میں لڑکی کے گھر والوں نے اس کی ﺷﺎﺩﯼ ﭘﻨﺠﺎﺏ کے ﺍﯾﮏ ﺿﻠﻊ ﺣﺎﻓﻆ ﺁﺑﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﮐﺮﺩﯼ۔ ﺟﻮ ﮐﺎﻣﯿﺎﺏ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽﻟﯿﮑﻦ ﺳﺎﻏﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﺁﺳﺎﺋﺶ ﻭ ﺁﺭﺍﻡﭼﮭوﮌ ﭼﮭﺎﮌﮐﺮ لاہور آگئے اور داتا گنج بخش کے مزار کے قریب رہنے لگے ﺟﺐ ﺍنکی ﻣﺤﺒﻮﺑﮧ ﮐﻮ ﭘﺘﺎ ﭼﻼکہ ﺳﺎﻏﺮ ﺩﺍﺗﺎ ﺩﺭﺑﺎﺭ میں رہ رہا ﮨﮯﺗﻮ ﻭﮦ ﺩﺍﺗﺎ ﺻﺎﺣﺐ ﺁ ﮔﺌﯽ ﮐﺎﻓﯽ ﺗﻼﺵ کے ﺑﻌﺪ ﺁﺧﺮﺗﺎﺵ ﮐﮭﯿﻠﺘﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﻧﺸﺌﯿﻮﮞکےایک ﺟﮭرﻣﭧ ﻣﯿﮟﺳﺎﻏﺮ ﻣﻞ ﮨﯽ ﮔیا ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺎﻏﺮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﻨﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﺍﻭﺭ یہ بھی ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺧﺎﻭﻧﺬ ﻧﮯ ہاتھ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺩﺍﺳﺘﺎﻥ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﻦ ﮐﺮﻣﺠﮭﮯ ﻃﻼﻕ ﺩﯾﺪﯼﮬﮯ.ﺍﺏ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﭼﺎﮨﻮ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯﺍﭘﻨﺎ ﻟو۔۔۔۔ﺳﺎﻏﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ
ﺑﻨﺪﮦ ﭘﺮﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﯿﺮﺍﺕ ﻧﮩﯿﮟ
ﮬﻢ ﻭﻓﺎﺅﮞ ﮐﺎ ﺻﻠﮧ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﮬﯿﮟ
ﻏﺮﺑﺖ، ﮈﭘﺮﯾﺸﻦ، ﭨﯿﻨﺸﻦ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺳﺎﻏﺮﺻﺪﯾﻘﯽ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﭼﻨﺪ ﺳﺎﻝ ﻧﺸﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭﮮ ﺍﻭﺭ
ﻭﮦ ﺑﮭﯿﮏ ﻣﺎﻧﮓ ﮐﺮ ﮔﺰﺍﺭﮦ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﮔﻠﯿﻮﮞﻣﯿﮟ ﻓﭧ ﭘﺎﺗھ ﭘﺮ ﺳﻮﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻭﻗﺖﺑﮭﯽﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺷﺎﻋﺮﯼ نہ چھوڑی۔
ﻣﯿﺮﯼ ﻏﺮﺑﺖ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﻓﻦ ﮐﺎ ﺍﮌﺍ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ مذاق
ﺗﯿﺮﯼ ﺩﻭﻟﺖ ﻧﮯ ﺗﯿﺮﮮ ﻋﯿﺐ ﭼﮭﭙﺎ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﯿﮟ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺟﺒﺮ ﻣﺴﻠﺴﻞ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮐﺎﭨﯽ ﮨﮯ
ﺟﺎﻧﮯﮐﺲ ﺟﺮﻡ ﮐﯽ ﭘﺎﺋﯽ ﮨﮯ ﺳﺰﺍ ﯾﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ
ﺁﺅ ﺍﮎ ﺳﺠﺪﮦ ﮐﺮﯾﮟ ﻋﺎﻟﻢِ ﻣﺪﮨﻮﺷﯽ ﻣﯿﮟ
ﻟﻮﮒ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺳﺎﻏﺮ ﮐﻮ ﺧﺪﺍ ﯾﺎﺩ ﻧﮩﯿﮟ
۔۔۔۔۔۔۔۔
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺟﻨﺮﻝ ﺍﯾﻮﺏ ﺧﺎﻥ ﺻﺎﺣﺐ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥﮐﮯ ﺻﺪﺭ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺍﻥ ﺩﻧﻮﮞ ﺟﻨﺮﻝ ﺍﯾﻮﺏ ﺧﺎﻥ ﺻﺎﺣﺐﮐﻮ ﺑﮭﺎﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﺸﺎﻋﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﮩﻤﺎﻥﺧﺼﻮﺻﯽ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺑﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺐ ﻣﺸﺎﻋﺮﮦ شروع
ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﺷﺎﻋﺮ ﻧﮯ انتہائی ﺩﺭﺩ ﺑﮭﺮﯼ ﻏﺰﻝ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﯽﺷﺎﻋﺮﯼ ﮐﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﮐﯿﺎ۔ﺟﺐ ﻭﮦ ﺷﺎﻋﺮ ﺷﺎﻋﺮﯼ سنا کر ﻓﺎﺭﻍ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺟﻨﺮﻝﺻﺎﺣﺐ ﺍﺱ ﺷﺎﻋﺮ ﮐﻮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﺤﺘﺮﻡ ﺟﻮﻏﺰﻝ ﺁﭖ ﻧﮯ آغاز ﻣﯿﮟ ﭘﮍﮬﯽ ﺑﮩﺖ ﺩﺭﺩ ﺑﮭﺮﯼ ﺗﮭﯽ ﯾﻘﯿﻨﺎﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺧﻮﻥ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮﻭﮞ ﺳﮯﻟﮑﮭﯽ ﮨﻮ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺩﺍﺩ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯﺑﮩﺖ ﭘﺴﻨﺪ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺷﺎﻋﺮ ﺑﻮﻟﮯ ﺟﻨﺎﺏ ﻋﺎﻟﯽ!ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺧﻮﺷﺨﺒﺮﯼ ﺍﻭﺭ ﺣﯿﺮﺕ ﮐﯽﺑﺎﺕ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻏﺰﻝ ﮐﺎ ﺧﺎﻟﻖ،ﺍﺱ ﮐﻮ ﻟﮑﮭﻨﮯ والاﺷﺎﻋﺮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻣﻠﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﮐﺎﮨﮯ، ﺟﺐ ﺟﻨﺮﻝ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﺳﻨﯽ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺩ ﻨﮓ ﺭﮦ گئے ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﮨﯿﺮا ﻣﯿﺮﮮ ﻣﻠﮏ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ہے ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯﭘﺘﮧ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺐ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺷخص ﺳﮯ ﺍﺱ ﻏﺰﻝﮐﮯ ﺷﺎﻋﺮ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯﮐﮩﺎ ﺟﻨﺎﺏ ﻋﺎﻟﯽ ﺍﺱ ﺩﺭﺩ ﺑﮭﺮﮮ ﺷﺎﻋﺮ ﮐﻮ ﺳﺎﻏرﺻﺪﯾﻘﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﯾﺎﺩ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ﺟﺐ ﺟﻨﺮﻝ ﺻﺎﺣﺐ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﻏﺮﺻﺪﯾﻘﯽﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﻨﺎﺏﻋﺎﻟﯽ ﻭﮦ ﻻﮨﻮﺭ ﺩﺍﺗﺎ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮﺟﻨﺮﻝ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺍﭘﻨﮯ ایک وفد کوﺗﺤﺎﺋﻒ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻻﮨﻮﺭ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﺍﻭﺭﺍﻥ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺳﺎﻏﺮ ﺻﺪﯾﻘﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺑﮍﯼ ﻋﺰﺕ ﻭ ﺗﮑﺮﯾﻢ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻻؤ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧﺟﻨﺮﻝ ﺍﯾﻮﺏ ﺧﺎﻥ ﺻﺎﺣﺐ ﺁﭖ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ﺟﺐ ﻭﮦ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮨﻮﺍ ﻭﻓﺪ ﻻﮨﻮﺭ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎﺗﻌﺎﺭﻑ ﻧﮧ ﮐﺮﻭﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﺍﺗﺎ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﮭﮍﮮﭼﻨﺪ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﺷﺎﻋﺮ ﺳﺎﻏﺮ ﺻﺪﯾﻘﯽ ﮐﯽ ﺭﮨﺎﺋﺶﮔﺎﮦ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﮭﮍﮮ ﭼﻨﺪ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯﻃﻨﺰﯾﮧ ﻟﮩﺠﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗھ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧﮐﯿﺴﯽ ﺭﮨﺎﺋﺶ؟؟ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﺷﺎﻋﺮ؟؟ ﺍﺭﮮ ﺁﭖ ﺍﺱﭼﺮﺳﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﻨﮕﯽﺁﺩﻣﯽ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﻮﻗﻊ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﺍﻥ ﭼﻨﺪ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺷﺎﺭﮦ ﮐﺮﺗﮯﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﺳﺎﻣﻨﮯﭘﮍﺍ ﮨﮯ ﭼﺮﺳﯿﻮﮞﺍﻭﺭ ﺑﮭﻨﮕﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﮭﺮﻣﭧ ﻣﯿﮟ، ﺟﺐ ﻭﮦ ﺟﻨﺮﻝﺍﯾﻮﺏ ﺧﺎﻥ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮨﻮﺍ ﻭﻓﺪ ﺳﺎﻏﺮ ﺻﺪﯾﻘﯽﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭﺍﻥ ﮐﻮ ﺟﻨﺮﻝ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺎﭘﯿﻐﺎﻡ ﺩﯾﺎ ﺗﻮ ﺳﺎﻏﺮ ﺻﺪﯾﻘﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮩﻨﮯﻟﮕﮯ ﺟﺎؤ۔
ﺍﻥ ﺳﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﻭ ﮐﮧ ﺳﺎﻏﺮ ﮐﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﮩﯿںﺑﻨﺘﯽ ﺍﺳﯽ ﻟﺌﮯ ﺳﺎﻏﺮ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ ،ﺟﺐﺳﺎﻏﺮ ﺻﺪﯾﻘﯽ ﻧﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﮐﮩﯽ ﺗﻮ ﺑﺸﻤﻮﻝ ﺳﺎﻏﺮﻧﺸﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺖ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﺮ ﻧﺸﺌﯽ ﺍﯾﮏ ﺯﻭﺭ ﺩﺍﺭ
ﻗﮩﻘﮩﮯ ﮐﮯ ﺳﺎتھ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﺩﯾﮯﻏﻤﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﯿﺎ ﺑﮩﺮﺣﺎﻝ ﺑﮯﭘﻨﺎﮦ ﺍصرﺍﺭ)ﺗﺮﻟﻮﮞ( ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﻭﮦ ﻭﻓﺪ ﻭﺍﭘﺲ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭﺳﺎﺭﮮ ﺍﺣﻮﺍﻝ ﻭ ﺣﺎﻻﺕ ﺳﮯ ﺟﻨﺮﻝ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﻮ ﺁﮔﺎﮦﮐﯿﺎ۔ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﻨﺮﻝ ﺍﯾﻮﺏ ﺧﺎﻥ ﺻﺎﺣﺐ ﭘﮭﺮ ﺧﻮﺩﺳﺎﻏﺮ ﺻﺪﯾﻘﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﻻﮨﻮﺭ ﺁﺋﮯﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﺳﺎﻏﺮ ﺻﺪﯾﻘﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﮨﻮﺍﺗﻮ ﺳﺎﻏﺮ ﺻﺪﯾﻘﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺯﺍﺭ ﺩﯾﮑھ ﮐﺮﺟﻨﺮﻝ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﺴﻮﻭﮞ ﮐﯽ ﺍﮎ ﻧﮧﺭﮐﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﮭﮍﯼ ﻟﮓ ﮔﺊ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﺎتھ ﺑﮍﮬﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻏﻢ ﺳﮯ ﭼﻮﺭ ﺍﻭﺭ ﻧﺸﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺖﺳﺎﻏﺮ ﺻﺪﯾﻘﯽ ﺳﮯ ﺟﺐ ﻣﺼﺎﻓﺤﮧ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺎ ﺗﻮ ﺳﺎﻏﺮﺻﺪﯾﻘﯽ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻥ ﺳﮯ ﮨﺎﺗھ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮨﭩﺎ ﻟﯿﺎ۔۔۔۔
ﺟﺲ ﻋﮩﺪ ﻣﯿﮟ ﻟﭧ ﺟﺎﺋﮯ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ
ﺍﺱ ﻋﮩﺪ ﮐﮯ ﺳﻠﻄﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﻮﻝ ﮨﻮﺋﯽ ﮨﮯ
افسوس کی بات ہے کہ ساغر کی قدروقیمت اور صلاحیت کو بچانے کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی. ہردور کے دوست انہیں مختلف نشے کرنے میں مدد دیتے رہے. کوئی ان کے کام کا مناسب معاوضہ ادا نہیں کرتا تھا. ساغر کی حالت دن بدن بگڑتی چلی گئی.دوست بھی نظریں چرانے لگے ہر ملنے والے سے ایک چونی طلب کرتے. چیتھڑوں میں بیزار،اوازارحالت میں پھرتے زندگی کے قابل رحم اختتام تک پہنچ گئے۔جنوری انیس سو چوہترمیں فالج کا اٹیک ہوا ور جسم مفلوج ہوکر رہ گیا. جولائی تک زندگی نے ساغرکے اندر دم توڑ دیا. تو میانی صاحب قبرستان نے کسی ماں کی آغوش کی طرح اس زخم خوردہ وجود کو اپنے اندر سمیٹ لیا۔ساغر کا وجود مٹی ہو گیا.وہ زندگی کے جبر سے آزاد ہوگئے. لیکن ان کی شاعری ادب کے افق پر ہمیشہ کے لئے چمکتی رہے گی۔
|