فرہنگ ِ نو ۔۔۔۔ فہمیدہ ریاض
فرہنگ ِ نو
فہمیدہ ریاض
بناتے ہیں ہم ایک فرہنگ نو
جس میں ہر لفظ کے سامنے درج ہیں
وہ معانی جو ہم کو نہیں ہیں پسند
جرعۂ تلخ کی مثل پی جائیں گے
اصل کی اصل جو بس ہماری نہیں
سنگ سے پھوٹتا آب حیواں ہے یہ
جو ہمارے اشارے پہ جاری نہیں
ہم فسردہ چراغ اک خزاں دیدہ چراغ
زخم خوردہ اناؤں کے مارے ہوئے
اپنی توصیف حد سے گذارے ہوئے
اپنے ہر زخم کو ہر گھڑی چاٹتے
ایک شاداب وادی ہے چاروں طرف
سانس تازہ ہواؤں میں لیں گے وہاں
اپنے چہرے سے دھو دیں گے گرد ملال
وقت کا کھیل ہیں سب عروج و زوال
وقت کے آئینے میں جو تصویر ہے
اس میں شامل ہیں ہم خوش وضع با کمال
دل ربا خال و خد دیکھ پائیں گے ہم
اس گلستاں کے ہر ایک مہمان کے
رو برو ہوں گے ہم اصل امکان کے
جس کے آگے برابر ہیں میں اور تو
جس کی نظروں میں یکساں ہیں ہم اور وہ
بناتے ہیں ہم ایک فرہنگ نو