یوسف کا خواب ۔۔۔ عاصم جی حسین

یوسف کا خواب

عاصم جی حسین

ہم سب اپنے اپنے لنچ باکس میں زندہ ہیں

بھوک امید سے ہے

اور قحط کا ساتواں سال چل رہا ہے

بن یامن کے تھیلے میں

چوری کا پیالہ

اس کی مسکراہٹ گونگی ہے

افسوس اس نے

Money hiest

یا

Italian job

نہیں دیکھی

اکیلا رہ جانے سے ڈرنے والا

خدا کے دکھ کو جانتا ہے

میری جیب میں پڑی دستک

تمھارے حوالے سے میری آشنا ہے

میری بس تم سے شناسائی تھی

ایک دن خود سے ملاقات ہوئی

تو جانا

کہ جس دن میں پیدا ہوا

اس دن میری موت کو بیالیس سال گزر چکے تھے

Just celebrate

آنسوؤں کی ہتھیلی پہ رکھا ذائقہ ذرد ہے

میں نے وقت کو اندھیرے میں کھوجا

سورج اسے چرا کے لے گیا

میں کسے بتاؤں

میں نیلی نظمیں کہتا ہوں

اور شاعر نہ ہونا

میری جیت کا کلمہ ہے

ہار کو ہار کون پہنائے

میری آواز کی چاپ

تنہائی کا حوصلہ بندھاتی ہے

وہ آنکھیں

جو روحوں کے ڈیلیٹ ہونے کا منظر دیکھنے کے خوف سے

عاری ہو گئ ہوں

انہیں رات کی تھیلی میں بند کر کے رکھنا پڑتا ہے

پو پھٹتے ہی دریا ان میں اشنان کرتا ہے

تب کہیں جا کے

مکتی اپنی پوجا مکمل کرتی ہے

محبت سوچ کا دھوکا ہے

اس سے پہلے

کے ظرف سوتیلا ہو جائے

آؤ خواب کے دوسری سمت دیکھیں

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930