ہم ۔۔۔ شعیب کیانی
“بم”
شعیب کیانی
کوئی کتنی مشقت سے پیدا ہوا
ایک قطرے کو گبرو جواں کرتے کرتے
کسی کے بدن کا لہو لگ گیا
یا کوئی نیزہ قامت کماں بن گیا
بم نہیں سوچتا
اک جواں ہاتھ میں پکڑے سی وی سے لف
اعلیٰ تعلیمی ڈگری کے کاغذ پہ
کنبے کی تقدیر ہے
ایک بس میں نفاست سے چلتی ہوئی ہوسٹس
کے قرینے سے رکھے ہوئے
اجلے پیروں میں آٹے کی زنجیر ہے
بم نہیں دیکھتا
کوئی پنڈت ہے، فادر ہے، ملّاں ہے
یا کوئی پہنچا ہوا پیر ہے
بم نہیں پوچھتا
کوئی زم زم سے دھویا ہوا ہے یا گنگا نہایا ہوا
بم نہیں سونگھتا
بم کو پہنے ہوئے
خوبرُو نوجوانوں کی آنکھوں میں
جو سبز باغوں کا نقشہ ہے۔۔۔ وہ باغ ہیں۔
بم نہیں مانتا
بم جو پھٹتا ہے تو مسجدوں، مندروں،
کوٹھیوں، گاڑیوں، گھونسلوں،
چھوٹے بچوں، بزرگوں، خرد مند ذہنوں
اور احمق دماغوں کو کھا جاتا ہے
بم پہ حیرت نہیں
بم سے شکوہ نہیں
بم کی آنکھیں نہیں
بم تو بے جان ہے
مجھ کو حیرت ہے تو بس اسی بات پر
بم پہ اترانے والا تو انسان ہے
وہ نہیں سوچتا۔۔۔
کیوں نہیں سوچتا؟