چین آشنائی۔۔شاہ محمد مری/مصباح نوید
چین آشنائی ( سفرنامہ)
مصنف۔۔ شاہ محمد مری
مبصر ۔۔ مصباح نوید
کچھ چٹکلے، کچھ شہ پارے،کچھ دل سے ٹپکے شنگرفی انار دانے
“چین آشنائی” محض چین سے آشنائی نہیں ہے۔ اس
سفرنامے کے کئی پرت ہیں۔ سیاسی، تاریخی، ثقافتی۔ اس سے بڑھ کر نسوانی حسن کو بے تحاشا سراہنے والی آنکھ ہے۔
’حسن اور ریجکشن!!دُر پھٹے منھ”
پریم کی شہنائی پر جھومتا دل بھی ہے اور اس دل کو اپنے وطن کی پسماندگی، نادیدگی، درماندگی رنجور بھی رکھتی ہے۔
شاہ محمد مری اس سفر نامے میں سوشلزم کا سہارا لے کر جی اُٹھنے والی قوم کی داستان بیان کرتا ہے,اس کی نگاہ بنیادوں پر لگی اور تیزی سے پھیلتی ہوئی سرمایہ داری کی دیمک پر بھی ہے۔
کیٹپلزم وہ آکاس بیل ہے جو ہرے بھرے درخت پر ایسا جالا بنتی ہے کہ اس پر درد مندی اور انسانیت کے شگوفے کھلنا بند ہو جاتے ہیں۔
اس سفر میں ہم رکاب چار سنگی ہیں۔ پانچویں ورچوئل سنگت کی چوڑیوں کی کھنک بھی ساتھ ہے۔ سب سے جاندار سنگت بھی یہی ہے جو اپنی غائب موجودی میں بھی موجودگی سے زیادہ حاضر رہی۔
’جیسے دو جام ٹکرائے ہوں، جیسے چوڑیاں کھنکی ہوں جیسے موتی کا دانہ فرش پر گر جائے”
مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے پاکستانی سفر نامہ نگار چاہے حقیقی سفر کریں کہ خیالی ہر سنگ میل پر ان کی گود میں ایک دلربا پکے پھل کی طرح آگرتی ہے۔
لیکن شاہ محمد مری دل کی ہتھیلیوں میں چھپا کر اپنی دلربا اپنے ساتھ لے گیا۔
یہ چمپا روح و دل مشکبار بھی کرتی رہی اور اشکبار بھی۔شاہ پنل اپنے سکالر، دانشور ہم راہیوں سے نگاہ بچا کر اپنے ہاتھ کی پشت سے آنکھوں کی نمی خشک کرتا رہا اور مسکراتا رہا۔
اپنے وطن سے دوری، اپنے اپنوں سے دوری اور پھر اپنے ’مرکز ثقل‘ سے دوری کیا کیا کربناک صورتیں پیدا کرتی ہیں ہم ان کا بھی نشانہ ہے۔”
یہ روداد محض ’دیکھتا چلا گیا‘ نہیں ہے۔ مصنف سوچتا ہے، نئے ابھرتے امکانات دیکھتا ہے۔ تجزیہ کرتا ہے، تقابلی جائزہ لیتا ہے۔ جس جہاز پر مضنف اڑان بھرتا ہے
اس جہاز میں ضیاء الحق کا فلسفہ مکمل طور پر نافذ تھا کہ یہاں مرد ہی مدد کی مہمان نوازی کر رہے تھے۔ ایئر ہوسٹیس آگے ’حلال کی کمائی‘ والی کلاس کو جلوے حلوے بانٹ رہی تھیں‘۔
چین میں عوام کی اکثریت کسی مذہب کو سرے سے مانتی ہی نہیں، علامہ اقبال کے فلسفے سے بالکل اُلٹ وہاں دین و سیاست پچاس برس سے جدا جدا ہیں،مگر اس کے باوجود سارے نظریہ پاکستان والے نوائے وقتیئے اس چنگزی والے ملک کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔
“انسان کائنات کا سب سے بڑا پٹواری ہے۔ وہ آسمان بانٹنا ہے،زمین بانٹتا ہے، زیر زمین بانٹتا ہے، سمند ر بانٹتا ہے، دل بانٹتا ہے، پتہ نہیں اُسے اجتماعیت سے کیا بیر ہے؟ یہ کیوں نہیں کہتا کہ ہمار ایئر سپیس، انسانوں کی زمین!!۔۔”
شاہ مری کے دل میں بستا بلوچستان بھی گاہے گاہے زخم کی طرح ٹیس اُٹھاتا رہا۔
”ڈنڈے، چھڑیاں، چاقو، کلہاڑے، تلواریں۔۔۔ہم نے کیا کرنی تھیں یہ چیزیں، کہ ہمارا وطن ان بدبختیوں کا میوزم تھا“۔
راستے میں فربہ بھیڑوں کے ریوڑ دیکھ کر اپنے وطن کی لاغری اور چراہوں کے ننگے زخمی پاؤں یاد آتے ہیں۔ چرواہاعوت نے کوٹ پتلون پہن رکھا تھا اور کندھے پر پانی سے بھرے مشکیزہ کے بجائے ریڈیو رکھا تھا۔مصنف کی حیرت دیدنی ہے اور دلدوز بھی۔
’ارے اس عورت نے تو جوتے پہن رکھے ہیں۔ جی ہاں! جوتے! اس کے کپڑے پھٹے نہیں ہیں‘’
شاہ محمد مری اپنی تحریر کو بلوچ کے دل کی کسک اور بلوچی زبان کی ضرب المثل دونوں سے ایک نیا رنگ آہنگ دیتا ہے۔ دو بھائی اور تیسرا حساب۔ گھر میں حساب کتاب نہ ہو تو وہ گھر برباد ہو جاتا ہے۔
چین کے ماضی میں طویل سلسلے شہنشاہت اور فیوڈلزم کے ہیں۔ محلات کا ذکر آتا ہے تو شیطان کی آنت کا خیال بھی آتا ہے۔ بارہ ہزار مربع میٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے شہرِممنوعہ کے امپیریل پیلس کی رسائی اب ٹکٹوں سے ممکن ہے۔ وقت کی ستم ظریفی ہے نا!
شاہی محلات For bidden cityکی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کیا خوب لگا کھاتے عنوان دئیے گئے کہ یہ عنوان ہی ساری کہانی بیان کر دیتے ہیں۔
’شہر ظلمات کو ثبات نہیں‘
’کیا کروں روؤں ہنسوں رقص کروں یا ماتم‘۔
’ملکہ نہاتی کیسے تھی‘۔
’بادشاہ کا مولوی‘۔
’ارے ابھی کہاں چل دئیے، ان محلات کا نام پڑھے بغیر میں آپ کو جانے نہ دوں گا۔ آپ کو نہ تو ان میں رہنا ہے نہ انہیں دیکھنا ہے نہ ان کے اندر کے مکینوں کے جاہ و حشمت کو بھگتنا ہے نہ ان کی تعمیر پر لاگت کا حساب لگانا ہے اور نہ ہی ان کوڑوں کا شمارکرنا ہے جو بیگار کرنے والے رعایا کی پیٹھ پر پڑتے تھے۔ نہ ہی ان اموات کی فہرست بنانی ہے جو اس جاں گسل مشقت سے ہوتی رہی تھیں‘”
تفصیلات پڑھتے ہوئے آپ کو قحط زدہ پسماندہ اور افیونی چینوں کا ذلت بھرا ماضی سمجھ میں آجائے گا۔
”نوہزار نو سو ننانوے محلات پر مشتمل اس عمارت میں جو چیز بطور سیمنٹ استعمال ہوئی وہ لیس دار چاول اور انڈے کی سفیدی سے بنائی گئی تھی“۔
پھر ذہن کے دریچے میں اپنے وطن کی بدبختی کی تصویر بال بکھیرے نمودار ہوتی ہے۔
”یہ بھی اچھا ہے کہ چینی قوم کسی منظم مذہب کی پیروکار نہیں وگرنہ وہ بھی لاہوریوں کی طرح ہر جابر شاہجاں اور شاطر اکبر بادشاہ کے سارے محلات کو اسلامی فنِ تعمیر قرار دیتے۔’
ارتقا ہی تہذیب کو زندہ رکھتا ہے۔ چائنہ کے کلچر کا بیانیہ بھی بہت دلچسپ ہے۔ کھانا یا خوراک انسانی نسل کی تہذیب ہے اور پکانا ایک آرٹ۔
”یہ لوگ 5000سے زائد ڈشیں پکاتے ہیں اورکھانے میں رنگ، خوشبو، ذائقہ، صورت، نیوٹریشن پر توجہ دیتے ہیں۔
چین کا ماضی فیوڈلزم اور بادشاہت کی ہولناکی ہوسناکی اور بے رحمی سے اس قدر لتھڑا ہوا ہے کہ گھن آتی ہے۔ ستم یہ ہے کہ ان کا گزرا ہوا کل ہمارا ’آج‘ ہے۔
“پورے چین میں لازم تھا کہ لوگ اپنے سروں پر ہندو ملاؤں کی طرح چوٹی رکھیں۔ چوٹی کا نہ ہونا بغاوت تصور ہوتا تھا جیسے مغرب زدگی، کفر اور خدا سے بغاوت سمجھا جانا تھا۔” کسی بھی معاشرے کی بدحالی یا خو شحالی کا اندازہ عورت کی حالت زار سے،عورت کے ساتھ روا رکھے گئے رویوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
فیوڈل چین عورتوں کو انڈر کنٹرول رکھنے کیلئے باقاعدہ نظریہ غلامی کی رواجی، روایتی آئین سازی کرتا نظر آتا ہے۔
چال کی ٹھمک سے لطف اندوز ہونے کے لیے یہ بدبخت لوگ پیدائش کے وقت سے ہی لڑکی کو لوہے کے جوتے پہنا دیتے تھے۔ اس طرح پاؤں کی فطری نشوونما رُک جاتی تھی ۔زرا سی نظربازی کے لیے عورت کی زندگی عذاب بنا دی جاتی تھی ۔ سائنس نے انداز سوچ بدل دیا ہے لیکن ۔۔۔۔؟ آج بھی عورت کو چار انچ کی ہیل پر مٹک مٹک کر چلتے دیکھتے ہیں۔محض اپنے اصل قد سے بڑھ کر نظر آنے کے لیے، چال میں دل کشی لانے واسطے عورت اپنے گٹے گوڈوں کی مت مار دیتی ہے ۔
پیرسازی سے بڑھ کر یہ بدبختی اس طرح اپنی انتہاء پر ہے کہ دماغ کی فطری نشوونما روکنے کے لئے نہ نظر آنے والے آ ہنی کنٹوپ کھوپٹریوں پر چڑھا دئیے جاتے ہیں۔
چینی عورت کو بارہ چودہ برس کی عمر میں طوائف یا داشتہ کے بطور فروخت کیا جاتا تھا۔ اگر شادی ہو جاتی تو شوہر کو ناخوش کرنے یا نرینہ اولاد پیدا نہ کرنے کی صورت اسے واپس والدین کے پاس بھیج دیا جاتا تھا۔ ساری شادیاں باپ منظم کرتے تھے۔ حتیٰ کہ دلہن دلہا نے شادی کے وقت تک ایک دوسرے کو دیکھا تک نہ ہوتا تھا۔ فیوڈل لوگ ایک سے زیادہ بیویاں کھتے اور داشتائیں ان گنت۔
فرمان سنتے جائیے، چاہے تو تائید میں سر دُھنیے کہ ہمارے سماج میں تو یہ فارمولے کچھ کمی بیشی کے ساتھ اب بھی لاگو ہیں۔ سائنس نے انداز سوچ بدل دیا ہے لیکن۔۔۔۔۔۔؟
بیویوں کے لیے مشہور کہاوت تھی۔ ’اگر تم ایک کتے سے شادی کرو تو کتے کی پیروی کرو۔ اگر تم ایک مرغے سے شادی کرو تو مرغے کی پیروی کرو۔”
’
“عورتیں تین فرماں برادریاں کریں۔اگر وہ غیر شادی شدہ ہے تو باپ کی فرماں برداری کرے، شادی شدہ ہے تو خاوند کی اور بیوہ ہے تو بڑے بیٹے کی.”
بے حجاب عورتیں چائینہ میں بھی قدرتی آفات کا سبب بن رہی تھیں۔
کسی بھی قوم کو ذلت اور درماندگی کی چوکھٹ سے اُٹھانے میں اس کے لکھاری، دانشور اور اُستاد اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ چائنہ میں تبدیلی کے سرخیل بھی یہ ہی رہے۔
چین کے فکری اُفق پر فروزاں تاروں میں نمایاں نام لوہسون، باجین، ماؤٹون،گوومورو ہیں۔ ان میں سے قطبی تارا لوہسون ہی کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ لوہسون وہ ادیب اور دانشور تھا جس نے اپنی فکری قوت سے مردہ سماج میں روح پھونکی۔
’پاگل کی ڈائری‘ (لوہسون) کو جدید چینی فکشن کے اولین شاہکار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ چین کا فیوڈل معاشرہ آدم خوروں کا معاشرہ ہے۔ جہاں ہر شخص دوسرے شخص کو کھا رہا ہے اور جو شخص اس آدم خوری کی نشاندہی کرے، پاگل کہلاتا ہے۔
’۷۱۹۱ء اور ۳۲۹۱ء کے درمیان پروفیسروں، طالب علموں، دانشوروں اور انقلابیوں نے تحریک چلائی کہ مغربی سائنس کلچر اور جمہوری اصولوں کو اپنایا جائے۔ ماوزرے تنگ، لانگ مارچ، ریڈ آرمی ان سب ناموں سے تو ’دیوار چین‘ کی طرح کان آشنا ہیں۔
ایک مقام پہ آکر ماوزے تنگ، کمیونسٹ پارٹی اور چین ایک ہی وجود بن جاتے ہیں۔ یہ لمحہء نروان ہے، کایا کلپ ہے۔ گراں خواب چینی سنبھلنے لگے۔ایک افیمچی قوم انتھک محنتی قوم میں ڈھل جاتی ہے۔
“چین آشنائی“ ایسی کتاب ہے جو قاری کو مکمل اپنی گرفت میں رکھتی ہے۔ ڈاکٹر انوار احمد لکھتے ہیں؛ ”چین آشنائی“ ایک طرف تو شاہ محمد مری کے افکار و نظریات کا مظہر ہے اور دوسری طرف مستقبل کی پاکستانی اُردُو کے اظہاری امکانات کا بے پناہ ذخیرہ ہے_”
نام کتاب : چین آشنائی( سفر نامہمصنف : شاہ محمد مری پبلشر: علم و ادب پبلشر کراچی)