راضی نامہ ۔۔۔ انجیل صحیفہ
راضی نامہ
انجیل صحیفہ
رات کے کالے بدن پہ ستارے ٹانکنے کی مشق
اپنی روح پر پیوند لگانے جیسی مشکل نہیں ہوتی
آسمان سے لٹکتی شاخوں پر
منتوں کے دھاگے کب تک باندھے جا سکتے ہیں
بجھے ہوئے کوئلے اور گیلی لکڑی چنگاری نہیں پکڑتے
سوئی ہوئی سرد محبت نے کروٹ بدل لی ہے
چراغ لے کر سفر پر نکلنے والی تتلی کو
چودہ دن پرانے چاند سے کیا غرض
بہتی ہوئی سڑکوں سے اپنا راستہ چن لینا
اور آوازوں میں سے اپنے حصے کی آواز سن لینا
آسمان کے بس میں کب ہے
اس کے جزدان میں لپٹی صحیفے جیسی رات نازل ہو گئی ہے
سات سروں میں بہتا رات کا یہ پہلا پہر اور
کن من سا برستا تمہارا نرم احساس
بارش کے بائیں گال پر رکھا ہوا ہے
آگ بارش کی بولی بول رہی ہے
ستمبر کی گیارہویں رات ہے
سڑک کی سلوٹوں پر اٹھکھیلیاں لیتی محبت کو
بارش کے پانی سے با وضو درختوں نے سجدہ کر لیا ہے