ایک نظم ۔۔۔ ابرار احمد
ایک نظم
ابرار احمد
ہر روز کوئی قلم ٹوٹ جاتا ہے
کوئی آنکھ پتھرا جاتی ہے
کوئی روزن بجھ جاتا ہے
کوئی چہرہ ساکت ہو جاتا ہے
کوئی سسکی جاگ اٹھتی ہے
اور کوئی ہاتھ جھڑ جاتا ہے
ہر روز کوئی چھت بیٹھ جاتی ہے
کوئی درخت گر جاتا ہے
کوئی آہٹ رخصت ہو جاتی ہے
کوئی آواز بستر کی سلوٹوں میں جاگ اٹھتی ہے
اور ایک زمانہ خاموش ہو جاتا ہے
ہر روز میری آنکھ سے تیرے لیے ایک آنسو گر جاتا ہے
ہونٹوں سے ایک دعا اتر جاتی ہے
اور ایک دن غروب ہو جاتا ہے
اور ایک روز
موسم گدلا جایں گے
چہرے چپ ہو جایں گے
سارے دن
میرے اندر غروب ہو جایں گے
اور آتے ہوئے روز میں
ٹوٹا ہوا قلم
ایک نام کا دھبہ
اور کٹی ہوئی انگلیوں کے نشان ملیں گے
Facebook Comments Box