سرخ پوشاکیں ۔۔۔ کنیز باھو

سرخ پوشاکیں

کنیز باھو

“اپنے ملک پہ سایہ فگن آسمان بھی اپنا ہوتا ہے”

کچھ دیر کھڑے رہنے کے بعد میں نے بیزاری سے کھڑکی بند کی اور لاٸٹ بند کرکے بستر پر ڈھے گیا۔کھڑکی پر تیز ہوا کے تھپیڑوں سے سرسراہٹ ہونا شروع ہوگٸی جیسے ہوا کواڑوں کو چیر کر زبردستی اندر داخل ہونا چاہتی ہے۔

“تمہیں کہاتھا کان اور آنکھیں کھلی اور زبان بند رکھنا۔“ یہ سرسراہٹیں سماعتوں پر بم کی طرح گررہی تھیں۔ دھندلے مناظر سے باغی آنکھیں شعوری طور پر کھلے رہنے کی سزا میں اندھی ہوچکی تھیں جن سے نیند روٹھ چکی تھی۔

میں نے آنکھوں کو نرمی سے مسلا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ کمرے کی خالی دیواریں اوراندھیرا مجھے لرزارہا تھا ۔

دفعتہً اندر سے آواز آٸی ۔۔۔۔

نیند موت کا دوسرا نام ہے۔اگر بصیرت کو بصارت دھندلا دے تو زندگی کاباغی کب تک بچ پاتا ہے۔۔۔آہ ۔۔۔

”یہ سوٸیاں پھر مجھے چھبنا شروع ہوگٸیں۔“

یہ میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑدیتیں اب تو نہ زمیں اپنی نہ آسماں ۔۔۔میں نے وحشت سے آنکھیں بندکرلیں اور سر گھٹنوں میں دبا لیا۔ مناظر وقت کی قید سے آزاد ہوکر میرے سامنے فاٸلوں کی طرح کھل گٸے۔

اپنے کیریٸر میں قدم رکھا تو میرا واسطہ مجبوریوں کی رسی میں بندھی بےبس زندگیوں سے پڑا۔ میں کالے کوٹ میں ملبوس ہاتھوں میں فاٸلوں کا پلندہ تھامے وہاں اکثر بے بسیوں کا تماشہ دیکھتا، جانتا تھا میری زبان ہی ان کے لیے مژدہ جانفزاں لاسکتی ہے ۔ لیکن کالے کوٹ نے میرے اندر لکیر کھینچ کر مجھے دوحصوں میں تقسیم کردیا تھا جس کے پار بس اپنے سر کاہی کھلا آسماں نظر آتا۔ میں اکثر کوٹ پراطمینان سے نرم ہاتھ پھیرتا اور منظروں سے نظریں چُرالیتا۔ مجھے کھلے آسمان میں پرواز کرنی تھی ۔

بام پر لٹکتی سُرخ پوشاکیں بے بسی کے نوحے سنارہی تھیں۔ ” خاموش ہوجاٶ خدا کے لیے مجھے سوٸیاں چبھ رہی ہیں۔“ میں پوری قوت سے دھاڑا اور اندھیرے میں ہاتھ پاٶں مارنے لگا۔

داٸیں دیوار کے پاس لٹکتی پوشاک سے

چنگاریاں نکلتی ہوٸی محسوس ہوٸیں۔

” وہ خود گرا تھا یہی الزام لگایا تھا تم نے۔“

آگ کا شعلہ پوری قوت سےبھڑکا، میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا۔

“یہ تو وہی چنگاریاں ہیں جو میں کمزور سمجھ کر دبادیا کرتا تھا ۔۔۔۔افففف۔۔… یہ شعلہ بن گٸیں۔“میں زمین پر ہتھیلیاں جماکر خود کو پیچھے گھسیٹ رہا تھا۔

شعلہ گرجدار آواز کے ساتھ بھڑک کر میری طرف لپکا جس میں نظر آنے والا چہرہ دیکھ کر میں خوف سے کانپ اٹھا۔

بھٹے پر کام کرنے والے مزدور کو مالک نے غصے میں گرم بھٹے میں پھینک کر زندہ جلا دیاتھا۔اس کے بیوی بچوں نے یہ کربناک منظر دیکھا لیکن بے بسی کی تصویر بنے کھڑے رہے۔

تیسری فاٸل پر لکھی کہانی پڑھ کر میں مسکرایا تھا چونکہ بیوی اور بچوں کی گواہی مانی نہیں جاتی اور کسی کو کیا پرآٸی آگ میں کودنے کی۔

ان پر زمین تنگ ہوگٸی تھی اور میرا آسمان وسیع ہوگیا۔ پجاری زبان نے اپنے معبود کے سامنے ساجھکا کر اٹل دلیل پر جرح سمیٹی”بندہ اپنی غلطی سے گرا تھا۔“کوٹ پر ہاتھ پھیرکر میں مطمٸن تھا۔

میں جلنا نہیں چاہتا۔۔۔۔مممم ۔۔مجھے مت جلانا ۔۔۔پلیز ۔۔۔۔ہاں! میں مانتا ہوں کوٸی خود نہیں جلتا۔“

جب جھوٹ ذندگیاں نگل چکا ہوتو زبان کے

سچ اگلنے کا کیا فاٸدہ ۔۔۔ یہ تیسرے جہنم کی آگ تمہاری ہی جلاٸی ہوٸی ہے۔

ہوا کی بازگشت سے یہ الفاظ میرے منہ پر طمانچہ کی طرح لگے۔ میرے اندر اٹھتے اُبال کی وجہ سے رگوں میں خون کی رفتار کم ہوگٸی ۔ کمرے کی حبس زدہ فضا میں گہری سانس لی اور سختی سے تنے اعصاب کو ڈھیلا چھوڑدیا۔ کچھ دیر تک ہمت مجتمع کی اور اٹھ کر کھڑکی کھولنے لگا ۔

تو گردن پربوسیدہ پوشاک کا پھندہ ڈال کر کسی نامعلوم قوت نے مجھے اپنی طرف کھینچنا شروع کردیا۔ بدبو کے بھبکے میری سانس کے ذریعے اندر داخل ہوکر دماغ سمیت تمام اعضا کو جامد کررہے تھے ۔میرا سانس بند ہونا شروع ہوگیا اور بدن میں سوٸیاں چھبنے لگیں۔

” اوہ ! یہ بدبو تو میرے اندر سے اُٹھ رہی ہے۔ “

مجھے باد مخالف کا مقابلہ کرتے ہوۓ اونچی اڑان سیکھاٸی گٸی تھی۔ کاغذ کے ٹکڑوں پر بیٹھ کر میراقد اتنا اونچا ہوچکا تھا کہ مجھے سب پستی پر چلتے کیڑے مکوڑے نظر آتے جن کی زندگیاں فاٸلوں میں قید تھیں۔۔۔۔فاٸل کو سوٸیوں کی قید سے آزاد کرکے جس طرف اڑاٶں ہوا اسی رُخ پہ چلتی تھی۔

” تم مرد ہو تمہارے لفظ ہی اسے بدکردار ثابت کرنے میں کافی ہونگے ۔ “ دوست کی بیوی کو طلاق دلوا کر میں اپنے کوٹ پر ہاتھ پھیررہاتھا۔

ہوس جگانے والی مست ہوا کی خوشبو نے میرے سوچنے سمجھنے والے تمام مسام بند کردیے تھے ۔ اُسے پانے کے لیے کردار کی فصیل سے آزاد کروانا ضروری تھا۔ میں نے ہوا کا رُخ اس طرح سے موڑا کہ اُس بے قصور عورت پر زمیں تنگ ہوگٸی کبھی کبھار ہوش میں اس کی گود میں چند سکے زندگی کے اچھال دیتا۔

میری ضرورتوں کا مقناطیس اتنا طاقتور تھا ذندگی اور موت کی جنگ میں انصاف کے تقاضوں سے مبرا وقت کا ترازو ہمیشہ میری ضرورت کے مطابق جھک جاتا۔ آج ہر ترازو میری موت کی طرف جھک رہا تھا۔

کم سن طلبا کی خون آلود پوشاکیں میرے سر پر ہتھوڑے برسانا شروع ہوگٸیں۔ ہتھوڑے کی ضربیں میری رگوں کو چیر کر مجھے آہوں اور سسکیوں بھری اُس تباہ شدہ بستی میں لے گٸیں جہاں سینکڑوں معصوم ذندگیاں بے رحمی سے دہشت گردی کا نشانہ بنی تھیں ۔ میں نے بھاری رقم کے عوض زبان بیچ کردہشت گردوں کے سرغنہ سے اپنے خاندان کے تحفظ کا سودا کیاتھا۔ ” خودکش حملہ آور ذہنی معزور تھا۔“سوچی سمجھی شازس ترتیب دے کر ڈاکٹروں کے پینل سے باہمی مفاہمت کے بعد میں نے بیان دے دیا اور جھاگ بیٹھنے سے پہلے ملک سے فرار ہوگیا۔ سُرخ پوشاکیں داٸروی گردش میں مجھ پر باری باری ضربیں لگانے لگیں۔

مسلسل ضربیں مجھے اچھال کر بار بار ذندگی اور موت کے درمیان معلق کررہی تھیں ۔

میں زمین میں دھنسا جارہا اور آسماں پوری قوت سے مجھ پر گررہا تھا۔ ایسالگ رہاتھا بہت جلد اپنا ذہنی توازن کھوبیٹھوں گا ۔کمرے سے نکل کر میں نے بے سمت بھاگنا شروع کردیا ۔ میں موت سے نہیں بھاگ رہا تھا،ذندگی کا باغی تھا میری سزا ختم ہونے کے بجاۓ بڑھتی ہی جارہی تھی۔

“صاحب کل پیشی کی آخری تاریخ ہے ۔ ملک کا دیوالیہ کرنے والے قبیح انسان کاچہرہ دنیا کے سامنے لانے میں آپ کاکردار بہت اہم ہے۔“

ٹھیک ہے۔ میں کل کی فلاٸٹ سے واپس آرہا ہوں تمام ثبوت اور ہسٹری تیار رکھنا۔”“

اپنے سیکریٹری کو پیغام دے کرکال بند کی۔

اپنی گروی زبان آزاد کرا کر ذندگی میں پہلا کیس ایسا لڑاجس نے میری پوشاک میلی کرکے مجھے تاعمر سلاخوں میں قید کردیا۔ لیکن میں مطمٸن تھا اب مجھے نہ بدبو آتی تھی نہ سوٸیاں چبھتی تھیں۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930