برٹنڈ رسل نے خدا کو خدا حافظ کیوں کہا ۔۔۔ ڈاکٹر خالد سہیل
سائنسدان برٹنڈرسل نے خدا کو خدا حافظ کیوں کہا ؟
ڈاکٹر خالد سہیل
۔پچھلی چند صدیوں کے جن انگنت سائنسدانوں اور فلسفیوں نے مذہب اور خدا کو خدا حافظ کہا ان میں
ماہر بشریات چارلز ڈارون
ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ
ماہر سماجیات کارل مارکس
ماہر فلکیات سٹیون ہاکنگ
اور وجودی فلسفی ژاں پال سارتر سر فہرست ہیں۔
غیر روایتی اور باغی فلسفیوں کی طویل فہرست میں ایک نام ریاضی دان سائنسدان اور فلسفی برٹرنڈ رسل کا بھی ہے۔ ان کی مقبول عام کتاب WHY I AM NOT A CHRISTIAN نے دو نسلوں کے نوجوانوں کو خدا اور مذہب کے بارے میں اپنے اندھے ایمان کے خواب سے جگایا اور ان کا منطقی اور معروضی’سائنسی اور تنقیدی سوچ سے تعارف کروایا۔ آج میں ‘ہم سب’ کے قارئین کے لیے اس کتاب کے چند اقتباسات کی تلخیص اور ترجمہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔ امید ہے برٹرنڈرسل کے خیالات اور نظریات آپ کو بھی نئے انداز سے سوچنے کی دعوت دیں گے۔
خدا کا وجود
خدا کے وجود کا سوال ایک نہایت ہی سنجیدہ اور اہم سوال ہے۔ اگرچہ اس موضوع پر ایک طویل بحث ہو سکتی ہے لیکن آپ کی آسانی کی خاطر میں اپنا نقطہ نظر اختصار سے پیش کروں گا۔
آپ سب لوگ جانتے ہیں کہ کیتھولک چرچ میں (باقی آسمانی مذاہب کی طرح) یہ عقیدہ مقبول ہے کہ خدا کے وجود کو دلائل سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں یہ عقیدہ اس لیے اختیار کرنا پڑا کہ ایک زمانے میں آزادانہ سوچ رکھنے والوں نے خدا کے وجود کی تردید میں دلیلیں دینی شروع کر دی تھیں۔ دلیلوں کے اس سلسلے نے اتنا طول کھینچا کہ کیتھولک چرچ نے یہ ضروری سمجھا کہ اس بحث کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے اس عقیدے کا اعلان کیا کہ خدا کے وجود کو بغیر دلیل کے قبول کرنا پڑے گا۔ یہ علیحدہ بات کہ انہوں نے خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے خود ہی دلیلیں دینی شروع کر دیں۔ وہ دلیلیں ہیں تو بہت سی لیکن میں یہاں صرف چند ایک کا تجزیہ کروں گا۔
خدا مسبب الاسباب ہے
سب سے زیادہ مقبول اور آسانی سے سمجھ آنے والی دلیل کائنات کی تخلیق کے FIRST CAUSE (پہلے سبب) کی ہے۔ اس دلیل کی رو سے ہر وہ چیز جو موجود ہے اس کا کوئی سبب ہوگا اور اگر اس سوچ کو پیچھے کی طرف لے جایا جائے تو جہاں اس سلسلے کی آخری کڑی آتی ہے اسے ہم خدا کہتے ہیں۔ یہ دلیل آج کل کچھ زیادہ وزن نہیں رکھتی اس کی وجہ یہ ہے کہ اسباب کی جو اہمیت پہلے تھی وہ اب نہیں رہی کیونکہ ہم جان چکے ہیں کہ ایک ہی عمل کے بیسیوں اسباب ہو سکتے ہیں۔
سائنسدانوں اور فلاسفروں نے اس نظریے کے مختلف پہلوئوں پر روشنی ڈال کر اس مسئلے کو گھمبیر بنا دیا ہے۔ اگر میں صاف گوئی سے کام لوں تو جب میں نوجوان تھا تو اس دلیل پربہت عرصہ تک غور کرتا رہا تھا۔ آخر ایک دن جب میں اٹھارہ برس کا تھا میں نے جان سٹوارٹ مل کی خود نوشت سوانح عمری پڑھنی شروع کی اور اس میں یہ فقرہ میری نگاہ سے گزرا
‘ میرے باپ نے مجھے سکھایا کہ اس سوال کا ۔۔۔مجھے کس نے بنایا ہے؟۔۔۔کا کوئی جواب نہیں کیونکہ اس کے بعد اگلا سوال پیدا ہوتا ہے۔۔۔خدا کو کس نے بنایا ہے؟۔۔۔یہ سوال بذات خود اس توجیہہ کے سطحی پن کو اجاگر کرتا ہے کہ اگر ہر چیز کے پہلے کوئی اور چیز ہے تو خدا کے پہلے بھی کوئی چیز ہونی چاہیے۔ اگر کوئی چیز بغیر کسی خالق کے موجود ہو سکتی ہے تو وہ خدا کی بجائے کائنات کیوں نہیں ہو سکتی۔
اس مفروضے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ دنیا کا کوئی آغاز تھا۔ یہ خیال ہی کہ ہر چیز کی کوئی ابتدا ہونی چاہیے ہمارے ذہن کی تنگ دامنی کی عکاسی کرتا ہے۔ اس لیے مجھے اس دلیل پر زیادہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
قانون فطرت کی دلیل
ایک اور دلیل جو بہت مقبول ہے وہ قوانین فطرت کی دلیل ہے۔ آئزک نیوٹن کے اثر کی وجہ سے یہ دلیل اٹھارویں صدی میں بہت پسند کی جاتی تھی۔ لوگوں نے جب سیاروں کو کش ثقل کی وجہ سے سورج کے گرد گھومتے پایا تو کہنے لگے کہ خدا نے انہیں اس طرح حرکت کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ کائنات کو سمجھنے کا ایک آسان طریقہ تھا کیونکہ اس طرح وہ تحقیق کرنے کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو گئے تھے۔ آج کل جب ہم آئن سٹائن کی تحقیق کی روشنی میں اس پیچیدہ مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کرتےہیں تو بہت ہی مختلف نتائج پر پہنچتے ہیں۔ اب ہم جان گئے ہیں کہ بہت سی چیزیں جنہیں ہم قوانین فطرت کہتے رہے ہیں وہ دراصل انسانوں کے اپنے وضع کردہ اصول ہیں۔ مثال کے طور پر آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپ کو ایک گز میں تین فٹ ہی ملیں گے لیکن آپ اسے قانون فطرت نہیں کہیں گے۔ اس طرح کی ہمیں اور بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ سائنس کے بہت سے اصول اتفاق اور شماریات کی اوسط نکال کر بنائے گئے ہیں۔
یہ کہنا کہ چونکہ قوانین فطرت موجود ہیں اس لیے انہیں بنانے والا بھی کوئی ہے، فطری اور انسانی قوانین کو خلط ملط کرنا ہے۔۔۔۔ انسانی قوانین ایسے ہیں جن میں آپ کو اختیار ہے کہ کسی حکم کی تعمیل کریں یا اس سے انکار کریں لیکن فطری قوانین کا یہ حال نہیں۔ وہ صرف اس حقیقت کا پرتو ہیں کہ نظام فطرت کیسے چل رہا ہے۔ اگر ہم یہ فرض کر لیں کہ نظام کائنات کو خدا نے یہ احکام دیے ہیں تو اگلا سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ صرف یہی احکام کیوں دیے ہیں اور یہی قوانین کیوں بنائے ہیں، کوئی اور کیوں نہیں بنائے اور اگر اس کا یہ جواب دیں کہ یہ خدا کی مرضی تھی۔ اس میں دلیل کا کوئی دخل نہیں تو آپ کی اپنی ہی سوچ اور دلائل کی کڑی گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ خدا ایک بہترین دنیا بنانا چاہتا تھا (جو کہ دیکھنے میں نطر نہیں آتی) اور خاص نظریے کے تحت کام کر رہا تھا تو پھر بھی اہمیت اس نظریے کی ہوئی نہ کہ خدا کی۔۔۔ بہر حال اس گفتگو کا ماحصل یہ ہے کہ قوانین فطرت کی دلیل جو بہت اہم لگتی تھی دراصل اتنی اہم نہیں ہے۔
کائنات کے خصوصی منصوبے کی دلیل
آپ لوگ اس دلیل سے بھی واقف ہوں گے جس کے تحت یہ دنیا نہایت سوچ سمجھ کر ہمارے رہنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس دلیل کے مطابق اگر دنیا کسی اور طریقے سے بنائی گئی ہوتی تو ہمارا اس ماحول میں زندہ رہنا ناممکن ہو جاتا۔ یہ دلیل کچھ عجیب سی ہے۔ بعض شکاری کہتے ہیں کہ خرگوش کی دم اس لیے سفید ہے کہ شکار کرنے میں مدد مل سکے۔ میں نہیں جانتا کہ شکار ہونے والے خرگوش اس کے بارے میں کیا کہیں گے۔ یہ مثال والٹیر کی طنز کی طرح ہے کہ ناک اس لیے بنائی گئی تھی کہ اس پر عینک جم سکے۔ اس قسم کی سوچ کو شاید اٹھارویں صدی میں برداشت کر لیا جاتا لیکن چارلز ڈارون کے نظریہ ارتقا کے بعد ہمیں اس بات کا اندازہ ہو گیا ہے کہ جاندار اپنے ماحول کے سانچے میں کیسے ڈھلتے ہیں۔ ہمارے لیے سمجھنے کی بنیادی بات یہ ہے کہ جاندار ماحول کی وجہ سے بدلتے ہیں، ماحول ان کی وجہ سے نہیں بدلتا۔ ان مشاہدات کی روشنی میں یہ دلیل بھی زیادہ وزن نہیں رکھتی۔
اگر آپ اس دلیل کا بغور مطالعہ کریں تو آپ کو حیرانی ہوگی۔ یہ ایمان رکھنا کہ یہ دنیا اپنی تمام تر خرابیوں کے ساتھ کسی قادر مطلق نے لاکھوں سال کی سوچ بچار کے بعد بنائی ہے، کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ کم از کم میں تو اس پر یقین نہیں لا سکتا۔ اگر آپ کو تمام تر اختیارات دے دیے جائیں اور لاکھوں برس کی مدت بھی دے دی جائے تو کیا آپ چور ڈاکو اور فاشسٹ سے بہتر انسان نہیں بنا سکتے۔
اگر آپ سائنس کے قوانین کو قبول کرتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کرہ ارض پر زندگی کا وجود عارضی ہے۔ زمین کے اپنی فطری سفر میں ایسے حالات پیدا ہو گئے ہیں جن میں زندگی کا وجود ممکن ہوا لیکن یہ سفر موت کی طرف رواں دواں ہے۔ ہماری زمین کا مستقبل بھی چاند کی سطح کی طرح بے جان اور سرد ہے۔
مذہب کی بنیاد خوف ہے
میرے خیال میں مذہب کی بنیاد خوف پر ہے۔ زندگی میں پراسرار چیزوں کا خوف، شکست کا خوف اور موت کا خوف اس کے محرک ہیں۔ خوف سے ظلم جنم لیتا ہے اسی لیے مذہب اور ظلم کا گہرا رشتہ ہے۔چونکہ دونوں خوف سے ابھرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی نگہبان کی خواہش بھی اہم کردار ادا کرتی ہے جو ہر مشکل اور تکلیف میں سہارا دے سکے۔
اب ہم آہستہ آہستہ سائنس کی وجہ سے زندگی اور کائنات کو سمجھنے لگے ہیں۔ سائنس نے اپنے آپ کو بڑی مشکلوں سے مذہب گرجوں اور عقائد کی مخالفت کے باوجود منوایا ہے۔ سائنس ہمیں اس خوف سے نجات حاصل کرنے میں مدد کر سکتی ہے جس کے سائے میں ہم نسل در نسل زندگی گزارتے آئے ہیں۔ سائنس اور ہمارے دل کی گہرائیوں کا خلوص ہمیں اس راستے پر لے جا سکتا ہے جہاں نہ تو ہمیں خیالی سہاروں کی ضرورت پیش آئے اور نہ ہم آسمانون سے ہمدردیاں مانگیں بلکہ زمین پر اپنی محنت سے خوشحال زندگی گزارنے کا سامان مہیا کر سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم انفرادی اور اجتماعی زندگیوں کو خوشحالی اور ترقی کی ان منزلوں پر لے جا سکیں جہاں صدیوں سے مختلف مذاہب ہمیں گناہ و ثواب کے چکروں میں الجھا کر روکتے رہے ہیں۔
ہمیں کیا کرنا چاہیے
ہمیں اپنے پائوں پر خود کھڑا ہونا چاہیے اور زندگی اور کائنات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا چاہیے۔
ہمیں زندگی کے حسن اور بدصورتی اور اس کے خیر و شر کو ایسے ہی قبول کرنا چاہیے جیسا کہ وہ ہیں
ہمیں دنیا کو عقل سے تسخیر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اس سے ہراساں نہیں ہونا چاہیے۔
خدا کا تصور صدیوں کی فرسودہ روایات کا مرہون منت ہے۔ آزاد منش انسانوں کو اس تصور کی کوئی ضرورت نہیں۔
ہمیں اپنی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ اس دنیا کو بہتر بنا سکیں۔
ایک صحتمند اور خوشحال معاشرے کے لیے علم اور حکمت، ہمت اور مہربان رویے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ماضی کے عقائد پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنی فہم و فراست اور عقل و دانش سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
آج کے انسانوں کو مردہ ماضی کے مقابلے میں زندہ اور پرامید مستقبل کی زیادہ ضرورت ہے۔