کنوار کدہ ۔۔۔ مریم عرفان
کنوار کدہ
مریم عرفان
یہاں پانچ کنوارے جسم رہتے ہیں ۔ دو جسموں کے کنوار پن کو تو زمانے گزر گئے اور باقی تین مرتبان میں پڑے ہیں ۔ زمانہ انھیں شیرے میں لپیٹ کر ان کا رس کشید رہا ہے ۔ ان کی پھانکیں کٹ چکی ہیں ۔ یہ ہر زبان کا ذائقہ بننے کو تیار ہیں مگر کوئی انھیں تالو پر رکھنے کو راضی نہیں ۔ سیب، گاجر، آملہ اور ہرڑ کی قاشیں تہہ در تہہ پڑی ہیں ۔ مرتبان کی دیواریں جب گریہ کرتی ہیں تو آنسو پاتال میں گرتے ہی شیرے کو زہر بنا دیتے ہیں ۔ جلد ہی یہ مرتبان سفید رنگ کا جالا بن دے گا ۔ پھر سارا مربہ کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا جائے گا ۔ یہ پانچوں کنوارے جسم ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ۔ اکٹھے سانس لیتے ہیں اور ایک ساتھ موت اوڑھ لیتے ہیں ۔ دو کنواروں کی بوڑھی آنکھیں اب خواب نہیں دیکھتیں ۔ بس مرتبان میں پڑی اونگھتی ہیں ۔ باقی تین جسموں میں عالیہ سب سے بڑی ہے اور راشدہ چھوٹی ۔ صفدر نے ابھی پھپوندی لگے شیرے میں ڈبکی لگائی ہے ۔ بیبا جی گھر کے بزرگ ہیں ۔ مزید دو کنوارے جسم ان کے چھوٹے بھائی ہیں ۔ جنہوں نے تنہائی کی زمین پر بڑھاپے کی سرحد پار کرلی ہے ۔
پہلوانوں سا کثرتی وجود رکھنے والے بیبا جی کا دل موم کا دیاہے ۔ ان کے سر اور پلکوں کے بال بھی سفید ہیں مگر چہرے مہرے اور چال ڈھال میں ابھی جان باقی ہے ۔ پھولوں سے بھرے صحن میں بو باس محسوس نہیں ہوتی ۔ سیڑھیوں پررکھے گملوں میں اگی کنوار گندلیں اوپر سے کتنی ہی سرسبز نظر آتی ہوں لیکن اندر سے سوکھ رہی ہیں ۔ ان کی رالیں پیلی پڑنے لگی ہیں اور تنوں کی سختی نرمی میں بدل گئی ہے ۔ بھربھرے اور بے جان جسم موسموں کی ترشی سہنے کے قابل نہیں رہے ۔ اب ان ملگجی بوٹیوں کے جسموں پر اگنے والے کانٹے بھی سامنے والوں کو محتاط رہنے کا سگنل نہیں دیتے ۔
یہ گھر ماں کے بغیر زندہ ہے ۔ یہاں ایک بوڑھی پھوپھی پرانے دنوں کی یادگاربنی کھڑی ہے ۔ جسے فقط دو دن کی سہاگن بننے کا اعزاز حاصل ہے ۔ جوانی کی بیوگی نے اس کی کمر توڑدی ہے ۔ بوڑھی پھوپھی اپنی خم زدہ کمر کو دھکیلتی دن بھر گھر کے باہر سیڑھیوں پہ بیٹھی رہتی ہے ۔ عالیہ گھر کے سناٹوں سے گھبرا کر چھت کے کونوں میں چھپنے لگی ہے ۔ بس ایک راشدہ ہے جس کی گونج خاموشی میں بھی سنی جا سکتی ہے ۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے جب لائبریری اسسٹنٹ راشدہ کتابوں سے سجے ریکس پر خود کو بھی رکھ چکی تھی ۔ اسے بولنے کی بیماری نے گھیر لیا تھا ۔ اس کا ہنستا مسکراتا چہرہ سیمنٹ کی مضبوط دیوار بن گیا ۔ جس پر وقت نے دراڑیں ڈال دی تھیں ۔ سب کے غم کھاتی،گھرسنبھالتی راشدہ عرف رشو ، نن بن گئی تھی ۔ بوڑھی پھوپھی کا ذہنی مرض بڑھ رہا تھا ۔ موٹے موٹے شیشوں سے جھانکتی آنکھیں رشو کو دیکھتے ہی پکار اٹھتیں : ’’ہتھی لائیاں گنڈاں منہ نال کھولنیاں پیندیاں نے ۔ ‘‘ رشو کو اپنے ہاتھ پیٹھ پر بندھے محسوس ہوتے ۔ جنہیں وہ جلدی سے جھاڑتے ہوئے آگے بڑھ جاتی ۔ لائبریری میں ہر آتا جاتا رشو کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ۔ اس کی بے تکان گفتگو پڑھنے والوں کو کھلتی تو تھی لیکن وہ کچھ کہنے کے قابل کہاں تھے ۔ فربہ جسم پر گندمی رنگت والی رشو، باجرے کا سٹہ بن گئی تھی ۔ گندمی اور سبز رنگ اس کے وجود سے نکلنے لگا تھا ۔ اس کے اوپری ہونٹ پر اگے بالوں کے ریشے بھی ہلکے سبزی مائل ہو گئے تھے ۔ اسے اپنے چہرے کی سجاوٹ سے کوئی مطلب نہیں تھا ۔ اسے گرمیوں میں کروشیے کی تاریں بننا پسند تھا ۔ جبکہ سردیوں میں وہ اون کے گولے لے کر بیٹھ جاتی ۔
بڑے بھائی سب سے الگ تھلگ تھے ۔ وہ ہمہ وقت باپ سے خاءف اور سنکی سے دکھائی دینے لگے تھے ۔ انھیں منہ میں کچھ بڑبڑانے کی بیماری لگ گئی تھی ۔ وہ بیبا جی کو دیکھتے ہی دائیں بائیں تھوکنے لگتے ۔ انھی دنوں انھوں نے شادی کی رٹ لگا دی ۔ ناشتے اور کھانے کے وقت بس ایک ہی بات کرتے کہ جلدی سے کوئی لڑکی دیکھو ۔ رشو کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔ اسے بھائی جی کے لیے کوئی لڑکی پسند ہی نا آتی تھی ۔ کسی کی ناک لمبی تھی تو کسی کے ہاتھ مردانہ لگتے تھے ۔ پھر بالاخر اسے کلثوم بھاگئی ۔ پھولی سرسوں جیسی لڑکی بڑے بھائی کے کھیت میں بونے کے لیے تیار تھی ۔ دانے پکنے میں ابھی وقت تھا کہ سرسوں پھولنا بھول گئی ۔ بھیاجی کے لیے منگیتر کا گھر سے بھاگنا جذباتی صدمے سے کم نہیں تھا ۔ انھیں مرگی کے دورے پڑنے لگے ۔ پہلے تو وہ گھر کے صحن میں گر جاتے تھے لیکن اس دن تو حد ہی ہو گئی ۔ بھیا جی سر بازار ڈھیرہو گئے ۔ کثیرالوجود مجسمہ دھڑام سے نیچے پڑا تھا ۔ ان کے ہاتھ پاؤں مڑ چکے تھے اور کنوارہ جسم پوری طاقت سے ہل رہا تھا ۔ جیسے بجری کوٹنے والی مشین گھر رگھرر گھرر کرتے آگے بڑھ رہی ہو ۔
کنوارے جسم بے نام و نشاں لاشیں تھیں ۔ جن کی بوچلنے پھرنے والوں کے نتھنے گلانے لگی تھی ۔ بے کفن اور بے گور لاشوں کو کوئی ٹھکانے لگانے کے لیے تیار نہیں تھا ۔ بھائی جی سارا دن اپنے کمرے میں پڑے رہتے ۔ عالیہ چھت کے کونوں میں دبک جاتی اور بوڑھی پھوپھی دروازے کے باہر سیڑھیوں پر جا بیٹھتی ۔ چھوٹا کنوارہ جسم صفدرکاتھا جس کا زیادہ وقت باہر ہی گزرتا ۔ اسے بھی خود سے خاءف رہنے کی بیماری لگ گئی تھی ۔ صفدر کی جیب پیسے مانگتی تھی ۔ رشو خاموشی سے اس کے بٹوے کا منہ بند کر دیتی ۔ وہ اپنے کنوار پن کو سگریٹ کے دھوئیں میں اڑاتا تھا ۔ دو بڑے جسم کوڑھیوں کی طرح بند کمرے میں رہتے تھے ۔ وہ اس ڈر سے باہر ہی نہیں نکلتے تھے کہ کہیں سورج کی کرنیں ان کی آنکھیں نہ نوچ لیں ۔ رشو نے ان سب کو اپنے پروں میں سمیٹ رکھا تھا ۔
لائبریری کا سٹاف اس کے سر پر اگنے والی چاندی گنتا رہتا ۔ اگر کبھی کسے کے قدم آگے بڑھنا چاہتے تو گھر میں اگی کنوارپن کی فصل دیکھ کر الٹے قدموں واپس ہو لیتے ۔ پتنگ بوہو کر کسی اور چھت پر جا گرتی ۔ رشو خالی ہتھیلی پر ڈور لپیٹتی رہ جاتی ۔ کتنی خاموش محبتیں اس کے دل میں پرورش پاتی رہیں ۔ وہ کنوارکدے کے مکینوں سے ڈر کر ان کے گلے گھونٹتی رہتی ۔ رشو کے آئیڈیل بیباجی تھے ۔ جنہوں نے اسے حوصلے اور ہمت کی گھٹی سیمنٹ اور ریت میں ملا کر کھلا دی تھی ۔ سیسہ پلائی دیوار سر زور زور سے ہلاتے ہوئے یہ ڈائیلاگ سنتی ۔ ’’ ہمت نہ ہارو، صبر سے کام لو، حوصلہ ہی سب سے بڑی قوت ہے ۔ ‘‘ بیباجی اپنی باتوں کا فولاد اس کے نازک جسم میں بھرتے رہتے ۔ رشو کا نازک جسم سٹیل مل بن چکا تھا ۔ سخت کھردرے ہاتھ جو گرمیوں میں بھی پتھریلے رہتے ۔ اس کے سینے میں دل تو تھا لیکن فولادی پلیٹوں میں لپٹا ہوا ۔ بڑے بھیا کو باپ کی ان نصیحتوں سے کافور کی بو آتی تھی ۔ وہ آخ تھو کرتے ہوئے دہلیز پار کر جاتے ۔
پھر ایک دن بھائی اپنی بائیں بغل میں درمیانی عمر کی عورت کوگھسیڑے گھر داخل ہوئے ۔ تالاب کے پانی پر ذرا سا ارتعاش پیدا ہوا ۔ منڈیروں پر بیٹھے کبوتروں نے غٹرغوں کرتے ہوئے آنکھیں کھولیں ۔ بھائی جی نے ہُررررر کہتے ہوئے گھگیوں کو اڑایا اور جھٹ پٹ عورت کو لیے کمرے میں گم ہو گئے ۔ رشوبلی کی طرح دم ہلاتی صحن میں کھڑی تھی ۔ عالیہ کی آنکھیں پانیوں سے بھرئی ہوئی تھیں ۔ بوڑھی پھوپھی ہوا میں انگلی سے دائرے بناتی اور پھر بغلوں میں ہاتھ دے کر کندھے ہلانے لگ جاتی ۔ دو بوڑھے جسم کھڑکی کی جالی سے لگے باہر کا جائزہ لے رہے تھے ۔ گرد آلود جالی سے ٹکی ان کی ناک پر کھڑکی کی ڈبیاں نقش ہو چکی تھیں ۔ بھیا جی نے رات کھانے کی میز پر ہولناک خاموشی کا فیتہ کاٹتے ہوئے بتایا کہ نجمہ ان کی بیوی ہے ۔ کنوار کدے کی دیوار میں پہلا سوراخ ہو چکا تھا ۔
پکی عمر کی عورت بھیاجی کے ساتھ ان کے کمرے میں منتقل ہو چکی تھی ۔ رشو اور عالیہ اپنے ادھ کھلے دروازے سے ان کے کمرے میں جلتی بجھتی لاءٹ دیکھ کر گہرا سانس کھینچتیں ۔ رات کی خاموشی میں نل کی آواز خالی ٹب پربجتی ۔ پانی کی تیز دھار رشو کے جسم کو چیرنے لگتی ۔ بیبا جی کے معمولات زندگی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا ۔ وہ روزانہ زبردستی صفدر کو موٹر سائیکل کے پیچھے بٹھا کر دکان روانہ ہو جاتے ۔ کنوارے جسموں کا رہٹ اسی مستقل مزاجی سے چل رہا تھا ۔ سب بیل رہٹ کو دھکیلنے میں جتے ہوئے تھے اور زندگی کے ڈونگے چھپاچھپ پانی گرا رہے تھے ۔ لوگ بیبا جی سے کنوارے جسموں کے رشتوں کی بابت کریدتے ۔ وہ سفید پلکیں جھپکاتے بے بسی سے نفی میں سر ہلا دیتے ۔ صفدر آرے کی ہتھی پر بازو کا پورا زور لگاتے ہوئے لکڑی کو چھیلنے لگتا ۔ لکڑی گول گول دائرے بناتی میز سے نیچے گرتی اور ساری چھال اس کا منہ چڑاتی ۔ وہ غصے سے دوبارہ آرے پر جھک جاتا اور بیباجی کن انکھیوں سے اس کا جائزہ لیتے رہتے ۔
ان دنوں رشو کی زندگی میں مراد نامی طوفان آچکا تھا ۔ وہ پانی کی اتنی بڑی لہروں کو اپنی جانب آتا دیکھ کر بے دست و پا ہونے لگی ۔ ’’ یہ مرد کا ساتھ کتنی عجیب چیز ہے ۔ جیسے کوئی سوتے میں گدگدا رہا ہو ۔ ‘‘ رشو آئینے میں اپنی فربہی دیکھتے ہوئے بڑبڑائی اور سیدھی مانگ کھینچ کر بالوں کی تہیں جمانے لگی ۔ مراد اسے لائبریری سے لینے آ یاتھا ۔ دونوں آئس کریم پارلر میں بیٹھے تھے ۔ رشو اپنی تمام ترتوانائیاں سمیٹ کر بول رہی تھی ۔ چالیس کا سن لگتے ہی اس کے جذبے انگیٹھی کی جالی بن چکے تھے ۔ جس پر مراد اپنی تمناؤں کی دیگ چڑھا چکا تھا ۔ وہ اس بار بھی جوا کھیلنے کو تیار تھی ۔ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا ۔ مراد کو کاروبار کروادینے کے باوجود اس کے رونے ختم ہونے کو نہیں آتے تھے ۔ وہ آئس کریم کا بل دے کر مراد کے پیچھے سیڑھیاں اتر گئی ۔ خالی پیالیاں اس پر ہنستے ہوئے تالیاں پیٹ رہی تھیں ۔
مراد نے گل گھوٹو بیر کی طرح رشو کا گلا بند کر دیا تھا ۔ وہ اپنی آخری امید کا جنازہ اٹھنے پر ملول تھی ۔ سہاگن نہ سہی لیکن محبت کی عدت گزارنے کا حق تو اسے حاصل تھا ۔ عالیہ ناخن کترتے ہوئے اسے روتا دیکھتی رہی ۔ پھر یکدم اس کے بازو پر دانت گاڑتے ہوئے اسے نوچنے لگی ۔ ’’ حرام زادے ، سب مرد حرام زادے ۔ تو اس سے بڑی حرام زادی ۔ کنجری ۔ ‘‘ عالیہ چیختی چنگھاڑتی چھت کے کونے کھودنے لگی ۔ بھیاجی کمرے سے نکلتے ہوئے ہانپنے لگے ۔ تھوک جھاگ بن کر ان کے ہونٹوں کے کناروں سے ابل رہا تھا ۔ ’’ پاگل کی اولادو، جینے نہیں دیتے تو مرنے ہی دو ۔ ‘‘ نجمہ اپنے پاگل شوہر کو بانہوں میں لپیٹتے ہوئے گھسیٹنے لگی ۔ وہ بھی غصے سے بڑبڑا رہی تھی ۔ پورے گھر میں شور و غوغا تھا ۔ جیسے چڑیوں کا پنجرہ بند کر دیا گیا ہو اور وہ چیخ چیخ کر حلق پھاڑ رہی ہوں ۔ کھڑکی کی جالیوں سے لگے چار ہاتھ اور بیس انگلیاں پیلاہٹ سے بھری اور خون سے نچڑی ہوئی تھیں ۔ کوٹھے جیسا شور کنوار کدے کی دیواروں سے چھپکلی کی طرح چمٹا ہوا تھا ۔ یہ گھر ہیرا منڈی کی کسی گلی میں ہوتا تو اس کے باہر تختی پر کنوار کوٹھا لکھا جانا چاہیے تھا ۔ رشو یہ سوچتے ہوئے کپڑوں سمیت شاور کے نیچے کھڑی ہو گئی ۔
ان دنوں بھی رشو اتنا ہی بولتی تھی جتنا مراد کے زندگی میں آنے سے پہلے بولا کرتی تھی ۔ لائبریری کی الماریوں کے ریکس چم چم کرتے تھے ۔ وہ ان میں قرینے سے کتابیں لگاتے ہوئے اپنے بھاری وجود کو ایڑھیوں سے اوپر اٹھا کر پڑھنے والوں کو متوجہ کرتی ۔ جب کوئی اس کی جانب متوجہ نا ہوتا تو خود کو کتاب سمجھ کر کسی ریک میں رکھ دیتی ۔ شاذونادر ہی دیکھنے والے اسے ریک سے نکالتے، صفحات پلٹتے اور بے دردی سے دوسری کتابوں کے اوپر پھینک جاتے ۔ اس کی جلد بری طرح اکھڑ چکی تھی ۔ صفحات پھٹ چکے تھے لیکن وہ اس خستگی کے عالم میں بھی کسی قدردان کے ہاتھوں مجلد ہونے کے خواب دیکھ رہی تھی ۔ بوڑھی پھوپھی اپنے خوابوں کا بورا اٹھا کر زمین بوس ہوگئی ۔ ’’ ٹوٹے گا ، سب کا دل ٹوٹے گا، ٹوٹے گا ۔ ‘‘پھوپھی کی گونج رشو کے کانوں کے پردے پھاڑنے لگتی ۔ اتنے بہت سارے دیوانے ایک چھت تلے بے یارو مددگار پڑے تھے ۔
عالیہ کے دورے اب مستقل ہونے لگے تھے ۔ وہ چھت کی چھوٹی دیواروں کی اینٹیں اکھیڑکر ان کے سرخ رنگ پتھروں کو کچلتی ۔ پھر انھیں پیس کر ذرہ ذرہ چباتی رہتی ۔ سلو پوائزنگ دھیرے دھیرے جاری تھی ۔ ایک دن اسے نجانے کیا ہوا کہ چھت سے نیچے دیکھتے ہوئے چھلانگ لگا دی ۔ رشو کی دیگر مصروفیات میں ایک اورمصروفیت کا اضافہ ہو چکاتھا ۔ اب اسے بچی کھچی عالیہ کو ہسپتال دیکھنے جانا پڑتا تھا ۔ بھیاجی پر پڑنے والے مرگی کے دوروں میں کمی آ گئی تھی ۔ بیباجی کو دیکھتے ہی وہ دوبارہ آپے سے باہر ہونے لگتے ۔ ان دنوں ایک اور دیوانہ رشو کو شمع بنا کراس کے گرد منڈلانے کے چکروں میں تھا ۔ رشو کا دل کبھی دھڑکتا اور کبھی ونڈ سکرین پر چلنے والے واءپر کی طرح آہستہ آہستہ ہلتے ہوئے درمیان میں ہی رک جاتا ۔ اس بار اس کی توجہ بٹتی چلی جارہی تھی ۔ وہ پروانے کے پروں کو انگلیوں میں دبوچ لینا چاہتی تھی ۔ مگر اب کی بار اس کی ہڈیاں بے جان تھیں ۔ ’’ ہتھی لائیاں گنڈاں منہ نال کھولنیاں پیندیاں نے ۔ ‘‘
بوڑھی پھوپھی کا جملہ یاد آتے ہی وہ ہتھیلیاں کھول دیتی ۔ زندگی کے چاروں طرف اگی تنہائی گھاس کی طرح بڑھتی جا رہی تھی ۔ بات چالیس کے سن سے آگے نکل چکی تھی ۔ بیباجی کے ماتھے پر لکیروں کا جال گنجلک تاروں جیسا ہو گیا تھا ۔ عالیہ نے ایک بار پھر خودکشی کی کوشش کی لیکن ابھی قسمت نے قبرکا دروازہ نہیں کھولا تھا ۔ ہسپتال کے یخ بستہ بستر پر بے سدھ لیٹی عالیہ کی آنکھوں کے نیچے حلقے گہرے ہو چکے تھے ۔ رشو اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے سہلا رہی تھی ۔ مرتبان میں پڑی مربے کی ایک قاش گلنے سڑنے کے لیے تیار تھی ۔ دوسری قاش نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا ۔ کیا اوپر تلے اب ہم سب کو مرنا ہے ۔ اسے معلوم تھا کہ اردگرد کتنی ہی آنکھیں ان پر ٹکی تھیں ۔ اس کے اردگر بہت سی زبانیں باہر کو نکل آئی تھیں ۔ ان کے کنوارے جسم چاٹے جا رہے تھے ۔ مجمع کی آنکھوں میں سوال ہی سوال تھے ۔ رشونے ان تمام آنکھوں اور زبانوں سے پیچھا چھڑانے کے لیے کروٹ بدل لی ۔ اس نے وارڈ کی مخصوص بو کو نتھنوں سے کھینچتے ہوئے سوچا ۔ کاش ! دنوں کے پر نہ ہوتے ۔ کاش! یہ دن راتوں میں بدل جاتے ۔ کاش ! یہ گھر کوٹھا ہی بن جاتا ۔ ‘‘ وہ سوچتے سوچتے بہت دور نکل گئی ۔
’’مس رچنا یہ میرے کولہے اتنے بھاری کیوں ہو رہے ہیں ۔ ‘‘ اس نے اپنی اسسٹنٹ کے کان میں سرگوشی کی ۔ ’’ میڈم جی ! چلا پھرا کریں ۔ ‘‘ رچنا نے اکتاہٹ سے اسے دیکھا ۔ رشو کو تخت پوش پر پڑا ہوا گاوَ تکیہ یاد آ گیا ۔ وہ بھی توگاوَ تکیے کی ٹیک ہی تھی ۔ اپنے بھرے بھرے جسم کو ہاتھوں سے ٹٹولتے اور مسلتے ہوئے اس کے اندر بھی ہیجان ٹھاٹھیں مارنے لگا ۔ گاڑیاں سگنل پر رکتیں اور آگے بڑھتی جارہی تھیں ۔ سرخ، زرد اور سبز رنگ کی بتیاں جلنے بجھنے لگیں ۔ شہر کے چڑیا گھر میں اپالونامی شیرکے لیے سری لنکا سے شیرنی منگوائی گئی تھی ۔ سڑکوں پر لگے بڑے بڑے بینرز ،رشو کا منہ چڑا رہے تھے ۔ اس نے چڑیا گھر کا ٹکٹ کٹایا اور اندر داخل ہو گئی ۔ سیڑھیاں پار کرتے ہی اس کے سامنے شیروں کی جوڑی کا پنجرہ تھا ۔ وہ لوہے کے راڈ پر تھوڑی ٹکائے انھیں تکنے لگی ۔ شیر دھم دھم کرتا شیرنی کی پشت کو سونگھتا ہوا آگے بڑھ جاتا ۔ مجمع اس کے منہ سے خوشی کی دھاڑیں سن کر آوازیں کسنے لگتا ۔ شیر جنگلے کی جالی سے خود کو مسلتا تو رشو کے کانوں کے پیچھے چیونٹیاں رینگنے لگتیں ۔ وہ اس جوڑے کی سرمستیوں پر مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئی ۔ جہاں سانپوں کے پنجرے جوڑیوں سے محروم تھے ۔ رشو کی زبان بھی دو رخی ہو کر بڑی ہو گئی ۔ وہ اپنے لجلجے جسم کو گھسٹیتے ہوئے باہر سڑک پر رینگنے لگی ۔ ایک چڑیا گھر بیباجی کے دروازے کے پار بھی بن چکا تھا ۔ جس کے باہر اب مستقل بورڈ لگا دیا گیاتھا ۔ کنوار کدہ ۔