کُتا جو ۤدمی تھا ۔۔۔ اسلم سراجدین
کتا، جو آدمی تھا
اسلم سراجدین
میں دیوار کے ساتھ کھڑی چارپائی کے پیچھے سٹک گیا ہوں۔۔۔ میری پشت پر، کونے میں، گیس چولہے کے پاس، سہمے سہمے کنبے کے تمام افراد بیٹھے ہیں۔۔۔ کسی کے ہونٹوں پر پُچکار ہے نہ آنکھوں میں پیار۔۔۔ چھوٹی لڑکی مرغی کی طرح سکڑی بیٹھی ہے۔ یہ وہی ہے جو آج تک اپنے دن کا آغاز میرے سامنے دودھ رکھنے سے کرتی رہی ہے اور مجھے جس سے دن کا آخری پیار ملتا تھا۔ ایکا ایکی ہوا میں اجنبیت اور مخاصمت رچ گئی ہے۔ ابھی چند ہی ثانیے کی تو بات ہے، گھر کا بڑا بیٹا ستون کے ساتھ لگا کھڑا پہلے تو مجھے گھورتا رہا۔ پھر میرا نام لے کر پُچکارتا وہ میری طرف بڑھا۔ اور پھر میرے سر پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔مجھے اس پر بہت پیار آیا۔ جی چاہا کہ اپنی تھوتھنی اس کے ہاتھوں کو سونپ کر گہری نیند سو جاؤں۔۔۔ پھر نہ جانے کیا ہوا۔۔۔ میرے اندر ایک ہول سا اُٹھا۔ ایک آگ سی بھڑکی۔ وہ سہم کر پیچھے ہٹ گیا۔ ستون کے پاس جا کر اس نے کلائی پر سے آستین ہٹائی اور پھر اپنی بیوی سے سرخ مرچ طلب کرنے لگا۔۔۔ ’چودہ دن کی مصیبت‘۔۔۔ یوں بڑبڑاتا وہ باہر نکل گیا۔ وہ سمجھ نہ سکا کہ مجھے تو پناہ چاہیے، اس ہول سے، جو میرے اندرون سے اُٹھ کر مجھے ملفوف کر لیتا ہے اور اس آگ کے گولے سے جو میرے پیٹ کے اندر پڑا ہے۔
میری زبان سیاہ پڑ گئی ہے۔۔۔ وجود پگھل رہا ہے اور مورچھل ایسی دم اپنی چنچلتا فراموش کر چکی ہے۔ تمام اشیا ایک غیر فطری سکوت کی لپیٹ میں ہیں۔۔۔ آس پاس پھدکتی گوریاؤں کی چیں چیں، میرے خوف سے منڈیروں پر دبے پاؤں چلتی بلیوں کی میاؤں میاؤں، شریر بچوں کی آوازیں، دوستوں کی مجھے پکارتی ہوئی صدائیں کہاں ڈوب گئی ہیں!؟ مجھے یاد ہے کہ کیسے پہلے پہل ہر صدا اپنی مانوس معنویت سے رشتہ توڑ کر بے ہنگم شور کے گڑھے میں اُتر گئی تھی۔ شاید یہ بے ہنگم شور اب بھی چنگھاڑ رہا ہے۔ لیکن میرے ارد گرد بھلا کوئی دیوار کہاں ہے کہ اس سے ٹکرا کر لہریں صداؤں کے جامے اوڑھ لیں۔ پس میں ایک گرجتے، شوریلے عفریت کے بطن میں بیٹھا ایک غیر فطری سکوت کو چچوڑ چچوڑ کر کھا رہا ہوں۔ جہاں میری تھوتھنی پڑی، اب اپنے بدن کے پانی میں تیرتی ہے، کبھی ایک کونا تھا۔۔۔ میں حیران ہوں کہ وہ دیواریں کیا ہوئیں جن کے اتصال سے یہ کونا بنا تھا۔۔۔ پھر وہ دیوار بھی تو تھی جس کے سہارے چارپائی کھڑی تھی۔۔۔ دیوار، چارپائی، ادوائن، پس و پیش، اطراف، حفاظتی احاطے میں گھرے ہونے کا احساس۔۔۔ یہ سب کہاں ڈوب گئے!؟ روشنی اشیاء پر پہلے بھی پڑتی تھی لیکن وہ اسے یوں کلی طو پر منعکس تو نہ کر دیا کرتی تھیں۔ تب تو آنکھوں میں ہنستے، ہلتے، ہلکورتے پتوں کا سبز آرام دہ رنگ ناچتا رہتا تھا۔۔۔ اور اب راکھ ایسے تنوں والے درختوں کی مردہ شاخوں سے اندھے شیشے کے بے لوچ ٹکڑے لٹکتے رہتے ہیں۔
شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش
صحرا میں، اے خدا! کوئی دیوار بھی نہیں
اکثر ایسا ہوا کہ اٹکھیلیاں کرتا جب میں منجھلے بیٹے کے کمرے میں جا نکلتا تو وہ یہ شعر گنگنا رہا ہوتا ۔۔۔وہ مجھے پیار بھری ڈانٹ پلاتا اور پھر گنگنانے لگتا۔ اب سوچتا ہوں کیا دیواروں میں محصور، اس ایسا عافیت کوش شخص اس شعر کے اسرار سے واقف ہو سکتا ہے۔ منجھلے بیٹے! بھئی کہاں ہو تم؟ آؤ تمہیں اپنے بدن میں میلوں تک بچھے تھور زدہ میدان دکھاؤں۔ میں اس میدان میں سمتیں کھوجنے نکلا تھا اور اب دائروں کا اسیر ہوں۔۔۔ ایک چکر ہے میرے پاؤں میں۔۔۔
کاش دُکھ کے اس لمحے میں میری نوع کا کوئی فرد میرے قریب ہوتا۔۔۔ کاش ماں۔۔۔ تُو ہی ہوتی! تو تو اس لمحے عرفان و عشق کے شہر میرے جنم استھان، جھنگ میں، اپنی دہلیز پر بڑے سکون سے بیٹھی آتے جاتے لوگوں کو دیکھ رہی ہو گی۔ قطعی بے خبر کہ تیرا بیٹا اس وقت کس حال میں ہے۔ اس شہر کا، شہر کے لوگوں کا کوئی نقشہ میرے ذہن میں موجود نہیں، کیوں کہ اس گھر کا چھوٹا بیٹا جب مجھے وہاں سے لایا تو میں بہت چھوٹا تھا، بمشکل مہینہ بھر کا۔ اون کے گولے کی مانند میں اِدھر اُدھر لڑھکتا پھرتا تھا اور سفید اتنا کہ دودھ کو اپنے بدن کے عکس کا اعجاز خیال کرتا تھا۔ اب یہ سوچنا بیکار ہے کہ اگر میں یہاں نہ لایا جاتا۔۔۔؟ لیکن اس ’’اگر‘‘ کے کنویں میں بھلا کون اُتر سکا ہے۔۔۔ ویسے بھی زماں و مکان شاید دو مختلف ابعاد نہیں۔۔۔ اس دوسرے شہر میں مجھے ایک کچا پکا دیہاتی وضع کا گھر ملا۔
میری اُچھل کود کو صحن فراخ تھا، وسط میں شہتوت کا پیڑ، اور اس کے اوپر آسمان کا طلسم تنا تھا۔ رات کو میں شہتوت کے پاس بندھتا۔۔۔ نیم شب جب گدیلے پاؤں والی بلی چڑیوں کے شکار کو نکلتی تو میری بھوں بھوں، اس کی میاؤں میاؤں، پر غالب آ جاتی۔ سچ تو یہ ہے کہ صنف کرخت اور صنف نازک کا فرق محض افسانہ نہیں، بھلا کہاں میں، ایک برتر نسل کا گوشت خور فرد اور کہاں وہ خفتہ کبوتروں اور گوریاؤں پر جھپٹنے والی۔۔۔ شکرانے کے طو رپر، اگلی صبح، اس روز کے اولین گیت، شہتوت کے پرندے میرے لیے گاتے۔
اب باہری منظر کو ’’زوم ان‘‘ کرنے سے پہلے، میں کنبے کے چند نمایاں افراد کو سامنے لاتا ہوں۔ کنبے کے سربراہ ایک بڑے میاں تھے جنہیں دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ تمام اشیاء اپنی اصل کی جانب مراجعت کر رہی ہیں۔ چیختی چنگھاڑتی جدیدیت کا وہ Primitiveنصف بہتر تھے۔ پھر ان کی اپنی نصف بہتر تھیں۔ تھیں تو وہ بھی نیک طینت بی بی، لیکن میں صحیح طو رپر ان کی رمز نہ پا سکا۔ نماز کے پانچوں وقت وہ انتہا کی جھلائی، جاء نماز اُٹھا ئے، کوئی ایسا کونا کھدرا ڈھونڈا کرتیں جو میرے ’’ناپاک‘‘ قدموں سے محفوظ رہا ہو۔ اکثر بڑے میاں انہیں پاک ناپاک کے اضافی ہونے پر لیکچر پلایا کرتے، بچے مجھے بڑی بی کے تخت پوش پر لے چڑھتے، رسوئی میں گھسیٹتے پھرتے۔ آئینے کے سامنے کر کے میرے نرگسی احساسات کو تقویت دیتے اور پھر بنا ہاتھ دھوئے کھانا کھانے بیٹھ جاتے، گویا بڑے میاں کے نظریات کا عملی مظاہرہ کرتے۔
بڑھاپے میں اپنے Spouseکے سوا بھلا اور کسے چاہا جا سکتا ہے۔ شاید اپنے بطون میں بڑے میاں اور بڑی بی ایک دوسرے کو بے حد چاہتے تھے لیکن اس میں ایک دوسرے کی عادت بن جانے کو اس قدر دخل تھا کہ چاہت کا خارجی اظہار کبھی دیکھنے میں نہیں آیا۔ بات بے بات دونوں میں چخ چخ ہوا کرتی۔ میں تو دونوں کے درمیان مستقل وجہ نزاع تھا۔ گو جو کچھ بھی مذہب کا کچا پکا علم بڑی بی رکھتی تھیں بڑے میاں کی دین تھا۔ مگر جب سے وہ آزادانہ طور پر حجّن بی کی درود شریف کی محافل میں شرکت کرنے لگی تھیں، بشمول بڑے میاں، تمام افراد خانہ پر مذہبی نکتہ آفرینیوں کی چاند ماری ہونے لگی تھی۔۔۔ میرے حوالے سے وہ پاکی پلیدی کو اکثر زیر بحث لاتیں۔ تب بڑے میاں میری نوع کے ان افراد کی مدح سرائی کرنے لگتے جو اب لیجنڈ بن چکے ہیں۔ اصحابِ کہف کے کتے کا ذکر بالخصوص ہوتا۔۔۔ چونکہ بڑی بی گھر کی امیرِ طعام بھی تھیں اس لیے اُن کے تمام تر ہتک آمیز رویے کے باوجود، مَیں ان کی چاپلوسی کیا کرتا ۔بعدازاں جب منجھلے بیٹے نے مجھے پڑھایا کہ کھانا پینا ہی زندگی کے تمام رویوں کا تعین کرتا ہے تو میرا مجرم و مجروح ضمیر بڑی حد تک مطمئن ہو گیا۔ مہینے کے آخر پر جب بڑی بی کے بٹوے کی ڈوریاں کم کم ڈھیلی ہونے لگتیں تو میرے دودھ میں پانی کی مقدار زیادہ ہو جاتی۔ بعض اوقات تو فقط چا ئے ہی ملتی اور گو اس سے میرے دانشورانہ رجحانات کی تسکین ہوتی۔ لیکن مجھے خارش کی شکایت ہو جاتی اور بال جھڑنے لگتے۔
اب میں ایک خوبصورت گریز کر کے بیرونِ در نکلتا ہوں۔ صبح ہوتے ہی میں چیخ چیخ کر گھر کو سر پر اُٹھا لیتا۔ یعنی سب کو بتاتا کہ ’’کال آف نیچر‘‘ بہت شدید ہے۔ بڑے میاں دروازہ کھولتے۔ میں گولی کی طرح باہر نکلتا اور کوندے کی طرح لپکتا چلا جاتا۔۔۔ میری لپیٹ میں آتی مرغیاں کٹ کٹ کرتی منڈیروں پر چڑھ جاتیں۔۔۔ نالیوں پر پاخانہ کرتے بد تمیز بچے سہم کر اپنی ماؤں کو پکارنے لگتے۔۔۔ اپنی جرأت و بسالت کی یوں دھاک بٹھا کر میں مرطوب ریت کے اس ڈھیر کا رُخ کرتا جو سیمنٹ کی جالیوں کے کارخانے کے سامنے پڑا رہتا تھا۔ ریت پر خوب لوٹیں لگاتا۔۔۔ لیکن میرے لیے ریت کا یہ ڈھیر اس کے سوا بھی بہت کچھ تھا۔۔۔ تم اسے پریم دوارا کہہ لو یا پھر راں دے وُو (Rendezvous) کیونکہ میری محبوب یہیں مجھے ملنے آیا کرتی تھی۔۔۔ ایک عرصہ سے ہماری کورٹ شپ چل رہی تھی۔ ہم جلد ہی ایک دوسرے سے بندھنے والے تھے۔ بس بہار کا انتظار تھا اور اب بہار آئی ہے تو دیکھو۔۔۔! دیکھو۔۔۔! لیکن نہیں ابھی میں موجود کے جال میں نہیں آؤں گا۔ میں ایک بیلچے سے وقت کی ریت کو آگے پیچھے کرتا جا رہا ہوں، موجود پر نہیں گرنے دے رہا اور نہیں گرنے دوں گا، جب تک تمہیں سب کچھ نہ بتا چکوں۔۔۔،
ماں کاش تو اپنی بہو کو دیکھ سکتی۔ اسے سراہتے تیری زبان سوکھ سوکھ جاتی اور پھر بھی اس گن ونتی کے گن ان گنے رہتے۔ گوہ وہ بے حد سادہ تھی۔ مگر میں ہمیشہ کسی سترہویں سنگھار کو اس کا ہالہ کئے دیکھتا۔ تمہارے ذہن کو جھٹکا تو محسوس ہو گا۔ لیکن اس مہوش کے ذکر کو اب میں یہیں چھوڑتا ہوں کہ یہ ذکر تو لوح کائنات پر پھیل سکتا ہے۔ جبکہ میرے پاس چند گنی چنی گھڑیاں باقی ہیں۔ لمحہ بہ لمحہ کوئی تیز دھار وزنی چیز دھم سے اس دکھائی نہ دینے والی رسی پر گر رہی ہے جو مجھے زمین سے باندھے ہوئے ہے۔ ماں یہ رسی کیوں کٹ رہی ہے!؟ میں بہت ڈرا ہوا ہوں۔ خوف میری دم کے سرے پر آن بیٹھا ہے اور وہ بوجھل ہو کر میری ٹانگوں کے بیچ لٹک گئی ہے۔ میرے نتھنوں میں موت کی دہشت گھات لگائے بیٹھی ہے۔ میری اصل کیا ہے؟ عقب کیا ہے؟ یہ دیکھنے کو میں ذرا گردن موڑتا ہوں تو دم میرے منہ میں چلی آتی ہے۔ خدایا !یہ کیا وحشت ہے؟ دم منہ میں پکڑے میں کیوں چکر لگائے جا رہا ہوں۔ میں تو اپنے عقب، اپنی اصل کو دیکھنے کا متمنی ہوں۔۔۔ یہ گردش دولابی کیوں میرا مقدر ہو گئی!
اوہ ماں! معاف کر دے، میں بہک گیا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ بڑا بیٹا اب کسی وقت بھی آ سکتا ہے۔ یہ بڑا بیٹا پوہ پوہ پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ بعد از شام ،کھانے کے بعد، اپنا حقہ تھامے وہ پارٹی دفتر کی طرف ہو لیتا۔ دن بھر کا تناؤ دور کرنے کو اُس ایسے اور بھی بہت سے لوگ وہاں موجود ہوتے۔۔۔ ایک آبزرور کی حیثیت سے میں بھی وہاں موجود ہوتا۔ ان سب کی باتیں سن کر سکھ راحت اور آرام کا احساس اوس بن کر مجھ پر گرنے لگتا۔۔۔ ان کے خیالات کی رفعت پر، میں بڑے رشک سے بیوقوفوں کی طرح تھوتھنی اُٹھا اُٹھا کر انہیں دیکھا کرتا۔ معدے میں پڑا بھوک کا وزنی گولہ معدوم ہوتا محسوس ہوتا اور میں سوچتا کہ یہ نیک خو آدمی، بڑے میاں کا بڑا بیٹا، گھر پہنچتے ہی مجھے دودھ میں بھگو کر روٹی دے گا۔ لیکن!۔۔۔ لیکن۔۔۔ پھر رات آسمان کی سیاہ چنگیر میں تاروں کی لَو کا بھوجن رکھے اپنے پیارے دن کو کھلانے کے واسطے ٹھمک ٹھمک گزرے چلی جاتی ۔ میں اس سے کچھ روشنی مانگتا تو وہ مجھے ٹھینگا تک نہ دکھاتی۔ یعنی ہم اس قابل بھی نہ تھے۔ (معاف کرنا ماں!کوئی ربط تو ہے نہیں میرے خیالات میں۔۔۔ کاش میرا یہ آخری خط کسی طور تجھ تک پہنچ جائے)
جب ساری سڑک پر دھوپ کا غالیچہ بچھ جاتا۔ تو میں تیری بہو کو اس کے گھر تک چھوڑنے جاتا۔ واپسی پر اس جگہ حوائج ضروریہ سے فارغ ہوتا جہاں ہمارے ہمسائے شیخ لپاڑیہ کی بھینس بندھتی تھی۔ وہ کئی بار بڑے میاں سے اس ضمن میں شکایت بھی گزار چکا تھا۔ شکایت سن کر خود بڑے میاں تو کچھ نہ بولتے لیکن بڑی بی شیخانی کو خوب کھری کھری سنایا کرتیں۔۔۔ اے بہن! تمہاری بھینس بھی تو اتنا سارا گوبر کرتی ہے۔۔۔ ذرا بتا تو سہی کہ تیری بھینس کا گوبر ہمارے کتے کے گُوسے کس طرح بہتر ہے۔ پائپ سے گوبر بہاتی ہو۔ ذرا ایک دھار ادھر بھی پھینک دیا کرو۔۔۔ شیخانی اپنا سر پیٹ لیتی۔
اور پھر ایک واقعہ سے تو مجھے شیخ لپاڑیہ سے شدید کد ہو گئی۔ وہ صبح بے حد خوبصورت تھی۔۔۔ سپید سیپیا روشنی فرشی غرارہ پہنے بے محابہ رقص میں کھوئی تھی۔ نہاں خانۂ دل میں عبادت گزاری کا احساس جاگ اُٹھا۔ کہیں سرجھکانے کی خواہش پیدا ہوئی۔ میں نے سیدھا مسجد کا رُخ کیا۔ جہاں سب جوتے اُتارتے ہیں۔ میں نے پاؤں جھاڑے اور بڑے عجز و انکسار سے صحن عبور کرنے لگا۔۔۔ ’’دُر، دُر،دُر‘‘۔۔۔ ظاہر ہے ایسا تمیز و ادب سے عاری لہجہ شیخ لپاڑیہ کا ہی ہو سکتا ہے۔ موصوف خاصے پریشان معلوم ہوتے تھے۔ میں نے ذرا بھی نہیں لفٹایا۔ اب انہوں نے غوغا کیا۔ ’’لوگو! دوڑیو! اللہ کا گھر پلید ہو گیا۔‘‘
’’بھوں بھوں‘‘۔۔۔ لوگوں کے آنے پر میں نے سوال اُٹھایا۔۔۔’’ ہم سب اللہ کے گھر آئے ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ کون اسے پلید کر رہا ہے۔۔۔ میں اکیلا، یا تم سب!؟ تم سب تو گناہوں کا بوجھ اُٹھا ئے آئے ہو۔ گناہ جو تم کر چکے اور گناہ جو تم کرو گے۔ تم میں سے کتنے ایسے ہیں جن کا احساسِ بندگی احساسِ حُسن سے اُجاگر ہوا ہے۔۔۔ حسن جو صبح کا اُجالا ہے سورج کی کرن ہے، ریت کا نم ڈھیر ہے اور وہ جانِ جاں ہے جو اس نم ڈھیر پر مجھ سے ملتی ہے۔۔۔‘‘ پھر اندھیرا چھا گیا اور جب اندھیراچھٹا تو میں ایک کونے میں دبکا پڑا زخموں کو سہلارہا تھا۔
ایک رات کی بات ہے۔۔۔ دفتر سے آتے ہی بڑا بیٹا سونے چلا گیا اور میں صحن کے بیکراں سناٹوں میں بھٹکنے لگا۔ کاش کوئی آ جائے۔۔۔ کوئی چور ہی سہی اور میں اُسے کہوں: آؤ ایک دوسرے کی جانکاری حاصل کریں۔ اس لمحے تمہارا کوئی نہیں اور میں تو ہوں ہی تنہا۔ پس تم کچھ مت چراؤ اور میں بھی نہ بھونکوں۔۔۔‘ اندھیرے کی تہہ کتنی موٹی ہے۔ میرا پیٹ اتنا خالی ہے کہ میں اس سارے اندھیرے کو اپنے اندر سمو سکتا ہوں۔۔۔ اے اندھیرے! خود اپنی ہیبت سے دہشت زدہ ہو جا اور میرے پیٹ میںآ پناہ لے۔ بھلا اس سے بہتر خان�ۂ اماں تجھے اور کہاں ملے گا۔ یہ ہوا فضا کی اوپری پرتوں میں چلی جا ئے تو کیا ہی اچھا ہو۔ تب یہ سارا ندھیرا کشاں کشاں میرے پیٹ میں چلا آئے گا۔۔۔ سیاہ، لذیذ اور گھنا۔۔۔ یہ جبڑے میرے دشمن ہیں کہ یہ میرے پیٹ اور اندھیرے کے درمیان حائل ہیں۔۔۔ میں انہیں توڑ دوں گا اور وہ سارے اعضاء کاٹ دوں گا جو پیٹ اور اندھیرے کے درمیان حائل ہیں۔۔۔ میں معدوم ہو جاؤں گا اور اندھیرا بن جاؤں گا۔ اس رات مجھے کشف ہوا۔ میری ذات کے صحیفے کا ورق ورق مجھ پر اُترا۔ وقت کا ہر ہر لمحہ میرے پیٹ کو روندتا گذرا۔
بالآخر صبح نے دہلیز عبور کی اور اندر چلی آئی۔۔۔ بڑے میاں عبادت گاہ کی جانب چل دیے اور میں دیوانہ وار گھورے کی جانب دوڑ لیا۔۔۔ ایک گھورا۔۔۔ پھر دوسرا۔۔۔ تیسرا۔۔۔ سب کے سب ویران پڑے تھے۔۔۔ ابھی کچھ دیر بعد یہ سب ڈبل روٹی کے ٹکڑوں، چنوں سے لتھڑے پتوں کے کوزوں، انڈوں کے چھلکوں اور حلوہ پوری کے ریزوں سے آباد ہو جائیں گے، لیکن اس وقت تک میں کہاں جاؤں۔ دوزخ کو کیسے ٹھنڈا کروں۔ اب ذرا بھی سکت نہ رہی تھی۔ میں نڈھال ہو گیا۔ تھوتھنی لٹک گئی۔ اتنے میں میری نظر شیخ لپاڑیہ پر پڑی۔۔۔ مجھے معنی خیز نظروں سے گھورتا وہ اپنے مکان کے اندر گیا اور چند ثانیے بعد پھر برآمد ہوا۔ کوئی چیز اس نے زمین پر ڈال دی اور ذرا پرے ہو کر کھڑا ہو گیا۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی۔ آہستہ آہستہ، گرتا پڑتا میں زمین پر پڑی اس چیز تک پہنچ گیا۔ جب میں نے اسے سونگھا تو ایک خوشگوار مہک میرے رگ و ریشے میں سرایت کر گئی۔۔۔ نظر اُٹھا کر میں نے بے بسی سے شیخ کو دیکھا۔ اس کا چہرہ کئی مختلف رنگوں سے لتھڑا ہوا تھا اور سارے رنگ بدی کے رنگ تھے۔۔۔ تب میں سمجھ پایا کہ چناؤ کا وہ فلسفہ کیا ہے جس میں منجھلا بیٹا ہر وقت اُلجھا رہتا تھا۔ خوشبوؤں میں لپٹی اس چیز کو نگل لوں، چھوڑ دوں۔۔۔ چھوڑ دوں۔۔۔ نگل لوں۔۔۔ یہ چیز حقیقت میں کیا ہے!؟ اے خدا! یہاں، اس گُھورے کے قریب اُتر اور مجھ پر منکشف کر کہ اتنے رنگوں میں حقیقی رنگ کون سا ہے۔ اس شے کی ماہیت کیا ہے!؟ ترغیب کے سامنے میں اب اور مزاحم نہ ہو سکتا تھا۔
میں نے آخری بار رحم طلب نگاہوں سے شیخ کو دیکھا اور اُس شے کو نگل لیا۔
اب یہ ادوائن ہے، میں ہوں اور ماتمِ یک شہر آرزو۔ میں جتاؤں تو کس کو جتاؤں کہ:
توڑا جو تو نے آئینہ تمثال دار تھا
میں موت کا گیت سن رہا ہوں۔ ہاں اب مجھے سو جانا چاہیے۔ بہت دیر سے جاگا ہوں۔۔۔ لو ماں! بڑا بیٹا آن پہنچا۔ اس کے ہاتھ میں ایک خوفناک آلہ ہے۔ جس کے سرے پر لمبی آہنی نالی لگی ہے، لو دیکھو! دیکھو! وہ شست باندھ رہا ہے۔ الوداع، الوداع، الود۔۔۔۔