قطار ختم نہیں ہوتی ۔۔۔ عاصم جی حسین

قطار ختم نہیں ہوتی

عاصم جی حسین

قطار ختم نہیں ہوتی

آوازیں ایک دوسرے کی پسلیوں میں کہنیاں مار کے آگے بڑھنا چاہتی ہیں

دیکھنا چاہتی ہیں

گونج کا خودکشی سے پہلے کا اعتراف

کہ وہ چیخ کی موت برداشت نہیں کر سکی

سانحے کی تنہائی میں زندہ رہ جانے والے

اپنے مرحوم ارادوں کا سوگ

شہر میں بانٹتے ہیں

یہ Christine کے خاموش رہنے کا لمحہ تھا

یہ عاصم کی نظم کا انکار کرنے کی ساعت تھی

دہلیزوں پہ زندہ آنکھیں

انتظار میں گم دروازے

دستک کا جواز ڈھونڈتے ہاتھ

ایک لفظ اور تلاشنا ہو گا

ایک بات اور کہنی ہو گی

کوئی تو دل میں سرگوشی کے دم توڑنے کی داستان سنے

کوئی تو جانے

اداس رہتے چلے جانے کی عیاشی

کن حرماں نصیبوں کی روح کی سرشاری ہے

خاموشیوں کی دھند میں

چپ نے اظہار کا موقع ڈھونڈا

جسے ٹکرا کے میں گرا

وہ کوئی یاد بھی ہو سکتی ہے

جسے محسوس کیا تو صبح مسکرائی

وہ کسی محبت کا لہراتا آویزہ بھی ہو سکتا ہے

یہ ناممکن کے ممکن ہو جانے کا منظر تھا

ہم گزرے ہوئے وقت کے ذرات ہیں

ہمیں X Generation ہونے کی وراثت ملی ہے

چاپ تنہائی کی آہٹ پہچانتی ہے

نیند سے جاگے دکھ کی آنکھیں سرخ تھیں

مجھے چھو کر

ہیولے کی سانس اکھڑ گئ

حبس وینٹی لیٹر پہ بھٹکتا رہ گیا

میں نے اپنی کروٹ کریدی

نظم ختم ہوئی تو جانا

مجھے سورج کو سندیس بھیجنا تھا

بات ختم ہوئی تو سمجھا

مجھے دو لفظ محبت کے نام انتساب کرنے تھے

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

October 2024
M T W T F S S
 123456
78910111213
14151617181920
21222324252627
28293031