تُم ۔۔ عاصم جی حسین
تم
عاصم جی حسین
میں اپنے لفظوں کے چھوٹے ہونے سے پہلے مر گیا
دعائیں ہاتھوں سے گرتی چلی گئیں
لوگ موتی سمیٹ کے لے گئے
دامن خاموشی سے بھرتا چلا گیا
کنگال بدن روح کو آزاد کرنے سے انکار کر دے
تو ریل کی پٹری اپنی چھاتی سے پلو ڈھلکا دیتی ہے
زہر اپنا ذائقہ پیغام کرتا ہے
پنکھے سے لٹکا پھندہ
جسم کو مسکرا کے دیکھتا ہے
میں نے ساری عمر اپنا درد تعمیر کرنے میں گزاری ہے
میری آنکھیں مسمار مت ہونے دینا
دروازے زندہ رہیں گے
انتظار بیت جانے کا سندیس بھیجے گا
میرے اندر روز میرا بھائی مر جاتا ہے
روز میں اکیلا رہ جاتا ہوں
روز اکیلا رہ جانا اچھا نہیں ہوتا
تنہائی کے زرد کیڑے دیواروں پہ رینگنے لگتے ہیں
موسم انگاروں پہ ننگے پاؤں چل کے
دہلیز کا ماتھا محسوس کرتا ہے
ہسپتال میں دس روپے کی پرچی کٹے
تو موت مکمل نہیں ملتی
اتنے میں دکھ کو چھاؤں کون دیتا
لیکن مجھے کیا
میں تو John doe ہوں
میری واحد شناخت ” تم ” ہو
یہ نظمیں میری نہیں تمھاری کہانی کہتی ہیں
سہاگن کی ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کے نوحے
ایک اجنبی کی کٹی ہوئی کلائی کے دکھ ہیں
بچے کے ہاتھوں میں بلکتی بھوک کی آنکھوں میں روٹی کے ٹکڑے کا خواب
بھرے پیٹ کی روح میں سرسراتی خاموشی کا سانحہ
عاصم کی چپ کا حاصل ہیں