سایا ۔۔ نادیہ عنبر لودھی

سایا

نادیہ عنبر لودھی

( مکرر اشاعت۔ گذشتہ شمارے میں یہ افسانہ  سہوا نامکمل شائع ہو گیا تھا )

اس نے آئینے میں خود کو دیکھا – ماتھے پر لکیریں ،چہرے کی جلد لٹکی  ہوئی ،گردن  پر دائرے -یہ چہرہ  ایک پچاس سالہ عورت  کا تھا البتہ جسمانی خوبصورتی  ابھی  بھی برقرار تھی – اس کا بدن آج بھی سڈول اور خوبصورت تھا اس میں ایک اہم سبب سرو قامتی تھا –

وہ ایک خوبصورت اور دل کش عورت تھی – اس نے آئینے میں خود  کو بغور دیکھا – شدت کرب سے اس کے رخسار گیلے ہوگئے اچانک ملازمہ کی آواز اسے حقیقت کی دنیا میں واپس لے آئی –

ملازمہ بولی :بیگم صاحبہ باہر مالی  آیا ہے –

“اچھا “اس نے جوابا کہا –

وہ لان میں چلی گئی مالی کو ضروری ہدایات دے کر وہ اندر واپس آگئی اور اپنی پسندیدہ جگہ پر آبیٹھی – یہ گھر اس نے اپنی نگرانی میں بنوایا تھا -اس کے چپے چپے سے اسے محبت تھی لیکن اپنے بیڈ روم کا ایک گوشہ جہاں اس کا رائٹنگ ٹیبل اور ریکلائنر رکھا تھا اس کا پسندیدہ تھا – اسُ نے میز کے ساتھ کرسی کی جگہ ریکلائنر لیا تھا -اس پر نیم دراز ہوکر وہ کتابیں پڑ ھتی ، بیٹھ کر ڈائری لکھتی اور جب بہت تھک جاتی تو لیٹ کے ریلکس کرتی – اس وقت بھی وہ یہ ہی کررہی تھی کہ ملازمہ نے کھانا لگنے کی اطلاع دی – وہ اٹھی اور ڈائنگ روم کی طرف بڑھی ۔ اب اس میز پر وہ تنہا تھی پہلے اس کا شوہر اس کے ساتھ ہوتا تھا -دو سال پہلے شوہر کا انتقال ہوگیا – بچے دو تھے ایک بیٹا ایک بیٹی دونوں بیاہ دیے – بیٹی ملک سے باہر تھی – اور بیٹا دوسرے شہر میں نوکری کرتا تھا -بیٹا اپنے بچوں کے ساتھ آتا تو گھر آوازوں اور چہکاروں سے بھر جاتا -اور اس کا دل خوشی سے –

اسے کوکنگ کا شوق نہیں تھا لیکن بچوں کے لیے وہ رنگ برنگے پکوان اپنے ہاتھوں  سے پکاتی –

شوہر کے گزر جانے کے بعد اس کی تنہائی مزید بڑھ گئی تھی – شوہر اس کا بہت خیال رکھتا تھا -شوہر سے اس کار شتہ بہت عجیب سا تھا اسے شوہر کی عادت تھی اسے شوہر سے انسیت تھی وہ شوہر کے بغیر نہیں رہ سکتی تھی لیکن اسے شوہر سے محبت نہیں تھی –

کھانا کھا کے وہ کمرے میں آئی اور عبادت میں مشغول ہوگئی – بہار کی رُت تھی ہر طرف خوب صورت پھول کھلے ہوۓ تھے کھڑکی سے بھینی بھینی خوشبو کمرے میں آرہی تھی وہ بیڈ پر نیم دراز ہو گئی اور اس کی آنکھ لگ گئی -دو گھنٹے بعد عجیب بے چینی سے اس کی آنکھ کُھلی – مما! مما !بچی رو رہی تھی اور ماں کو پکار رہی تھی – عائشہ !عائشہ !

وہ بدبدائی – بچی روتی ہوئی بھاگ گئی – اس کا دل بوجھل ہوگیا – وقت اسے حال سے ماضی میں کھینچ کے لے گیا -ایسے ہی بہار کے  دن تھے خوش بو دار  راتیں -آٹھ سالہ عائشہ اٹھلاتی پھرتی – وہ شوخ و شنگ  زندگی سے بھرپور بچی تھی –

اچانک ایک سایا آتا ہے او اسے بازو میں دبوچ لیتا ہے پھر جنونی انداز میں وحشیانہ بوسے اس کے ہونٹوں اور چہرے پر ثبت کرتا ہے وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کرتی ہے- انکل :”مجھے چھوڑ دیں میرا سانس بند ہورہا ہے “-“پلیز مجھے چھوڑ دیں “-اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگتا ہے اس کا گلا دکھنے لگتا ہے وہ آدمی اسے بے لباس کردیتا ہے -جب وہ خوف کے مارے بے دم ہونے لگتی ہے تو وہ اسے چھوڑ دیتا ہے –

اچانک بجنے والی فون کی گھنٹی کی آواز اسے حال میں واپس لے آتی ہے – وہ فون اٹھاتی ہے فون اس کی بیٹی کا ہے بیٹی سے بات کرنے لگتی ہے –

فون بند ہوتے ہی وہی اداسی دوبارہ چھا جاتی ہے _

اس کا احساسِ تنہائی اسے ماضی کے زہر سے آلودہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے – عفریت اسے نگلنے کے لیے بے قرار ہے اپنی گرتی ہوئی ذہنی حالت اسے نڈھال کر دیتی ہے کسی نفسیاتی ڈاکٹر کے پاس جاؤں وہ سوچتی ہے پھر پچھلا تجربہ اسے مزید  مایوس کر دیتا ہے –

پندرہ سال قبل بھی اس نے ایک نفسیاتی معالج  سے رجوع کیا تھا -اپنی زندگی سے وابستہ ڈیپریشن کو دور کرنے کے لیے –

معالج  اس کے مسئلے کی تہہ تک نہیں پہنچ پایا یا اس نے معالج کواپنی ذات  تک رسائی نہیں دی –  معالج نے اُسے انٹی  ڈیپریشن گولیاں دے دیں ۔ جن کو  کھانے کے بعد وہ کئی گھنٹے بے سدھ سوئی رہتی -اس کی یادداشت پر اثر پڑنے لگا وہ بھولنے لگی لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہوا کہ وہ ماضی کا کوئی لمحہ نہ بھول سکی صرف حال سے جڑے واقعات اور لوگ مدہم ہونے لگے – کئی ماہ اس عالم میں گزارنے کے بعد اس نے مذہب میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کی اب دل کو تھوڑا سا سکون ملا – لیکن یہ سکون بھی وقتی ثابت ہوا چند سال بعد گھر بدلا -نئے گھر میں شفٹ ہوگئے –  نئی آبادی میں ایسا کوئی سلسلہ نہ بن سکا –

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑ ھتی  ہوئی   تنہائی  اس  کی ذہنی حالت مخدوش کرتی جارہی تھی –

  رات میں اکثر خوف سے اس کی آنکھ کھل جاتی وہی عفریت اسے دبوچ لیتا اور  اس کا سانس بند ہونے لگتا –

دفعتاً دروازہ  چرچرایا -ایک سایا اندر داخل ہوا – اور بستر پر اس کے قریب آکر بیٹھ گیا –

اُس نے بازو آگے بڑھائے اور اس بچی کو بانہوں  میں بھرنا چاہا بچی بھاگتی ہوئی کمرے سے نکل گئی  وہ بھی بچی  کی پیچھے  بھاگی – رُک جاؤ – رُک جاؤ – میرے  پاس آؤ –

اس کی آواز سن کے ملازمہ پہنچ گئی – “یہاں تو کوئی نہیں ہے “-ملازمہ بڑ بڑائی پھر بیگم صاحبہ کس کو بلا رہی ہے –

“چلی گئی “-وہ بولی اور ڈھیلے ڈھیلے قدموں سے کمرے میں چلی آئی “آج بھی میں اسے سینے سے نہیں لگا پائی “-وہ خود سے مخاطب ہوئی –

ملازمہ جو پیچھے آرہی تھی بولی “یہاں تو کوئی نہیں ہے بیگم صاحبہ “!

“تم جاؤ “-اس نے ملازمہ سے کہا ۔

وہ پلنگ پر ڈھے سی گئی –

ماضی کا عفریت اُسے نگلنے لگا اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے – روتے روتے اس کی آنکھ لگ گئی – صبح طبعیت میں کسلمندی تھی -وہ کافی دیر تک بستر میں پڑی رہی –  صبح کی روشنی دروازے پر کھڑی رہی – اداسی نے در و  دیوار  کو مضطرب سا کر دیا  – کافی دیر بعد وہ  بستر سے نکلی اور منہ ہاتھ دھو کے ڈائینگ  روم کا رخ کیا –

“ناشتہ لاؤ “اس نے ملازمہ سے کہا

“صبح علی صاحب کا فون آیا تھا آپ سوئی ہوئی تھی میں نے جگانا مناسب نہیں سمجھا “-ملازمہ نے بتایا –

“ٹھیک ہے “- اس نے جواب دیا اور ناشتہ کرنے لگی –

ملازمہ نے اس بغور دیکھا اور دل میں بولی “میں نے بھی بیگم صاحبہ کی ذہنی حالت کے بارے میں سب بتادیا ہے کہ کسی سے باتیں کرتی ہیں – سٹھیا گئی ہیں “-

دو تین دن خاموشی سے گزر گئے –

موسم خوش گوار  تھا وہ لان میں بیٹھی کتاب پڑ ھ رہی تھی سامنے دیکھا تو وہی بچی پھولوں سے کھیلتی نظر آئی اس کے لبوں پر مسکراہٹ رینگنے لگی وہ بچی کو ہاتھ ہلانے لگی -ملازمہ یہ منظر اندر کھڑکی سے دیکھ رہی تھی لان میں تو کوئی نہیں ہے -پھر بیگم صاحبہ کس کو ہاتھ ہلا رہی ہیں – ملازمہ نے حیرت سے سوچا –

منظر میں اچانک ایک آدمی شامل ہوجاتا ہے جس کی عمر تقریباً تیس سال ہے اور حلیہ ملازموں جیسا ہے یہ پست قد مکروہ آدمی بچی کی طرف بڑھتا ہے

-وہ کرسی سے اٹھتی ہے خوف سے اس کا چہرہ زرد ہوجاتا ہے “نہیں ..نہیں اسے چھوڑ دو “- وہ چلاتی ہے -آدمی بچی کو اٹھاتا ہے اور بھاگ جاتا ہے –

“عائشہ ….عائشہ “وہ آوازیں دیتی ہے –

بچی ہاتھ پاؤں مارتی ہے اسے مدد کے لیے بلاتی ہے لیکن آج بھی آدمی جیت جاتا ہے اور وہ ہار جاتی ہے –

“عائشہ ..عائشہ ……”وہ بڑ بڑاتی رہ جاتی ہے –

ہر نیا دن اس کے اضطراب میں مزید اضافہ کرتا  چلا جاتا ہے –

ملازمہ اس کے بیٹے کو فون پر آنے کا کہتی ہے -بیٹا مصروفیت کا رونا روتا ہے – اور ملازمہ کی بات کو سنجیدہ نہیں لیتا –

اُس رات شدید طوفان آتا ہے بجلی چلی جاتی ہے – جنریٹر بھی جواب دے دیتا ہے – وہ بستر میں لیٹی ہوئی ہے – ملازمہ کمرے سے باہر لاؤنج میں صوفے پر لیٹی ہوئی  ہے – سارا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہے –

اچانک اسے عائشہ دکھائی دیتی ہے “مما  مما  مجھے  بچاؤ “وہ چلاتی ہے -عائشہ  ! عائشہ ……

اس کی آواز اندھیرے میں ابھرتی ہے – “بیگم صاحبہ کو پھر دورہ پڑ گیا خدا خیر کرے “-ملازمہ بڑبڑائی۔

وہ ننگے پاؤں کمرے سے نکلتی ہے اور عائشہ کو ڈھونڈنے لگتی  ہے اندھیرے میں وہ چیزوں سے ٹکراتی ہے -ملازمہ اسے پکڑ نے کی کوشش کرتی ہے لیکن اس پر تو کوئی آسیب سوار ہے -وہ سیڑھیوں  کی طرف بڑ ھتی ہے –

“میں آرہی ہوں عائشہ “- رکو !ٹھہرو !

ٹھہرو !

وہ سیڑ ھیاں  چڑ ھنے لگتی ہے

ُ”رک جائیں بیگم صاحبہ بہت اندھیرا ہے -اوپر مت جائیں “-ملازمہ اسے پکارتی ہے -لیکن وہ ارد گرد سے بے نیاز ہے – اسے کچھ سنائی نہیں دیتا – وہ دیوانہ وار سیڑ ھیاں چڑھتی ہے – اوپر اسے عائشہ دکھائی دیتی ہے – روتی ہوئی –

وہ آخری سیڑ ھی پر پہنچ کر ہاتھ بڑ ھاتی ہے اور عائشہ کو تھا منے کی کوشش کرتی ہے -اچانک عائشہ غائب ہوجاتی ہے اور وہ توازن کھو بیٹھتی ہے -وہ سیڑ ھیوں سے نیچے گرتی ہے – ملازمہ بھاگ کے اس کے قریب آتی ہے  –  اس کی تشویشناک حالت دیکھ کر ملازمہ اس  کے بیٹے کو فون کرتی ہے -بیٹا اسپتال لے جانے کا کہتا ہے ملازمہ ایمبولینس کو فون کرتی ہے اور اسُے لے کر اسپتال پہنچ  جاتی ہے -ڈاکٹر  اس کا چیک اپ کرتا ہے اور طبی امداد مہیا کرتا ہے  وہ زیر لب عائشہ عائشہ بڑ بڑا رہی ہے اتنے میں اس کا بیٹا  بھی پہنچ جاتا ہے –  ملازمہ اسے حقیقت سے آگاہ کرتی ہے اور سارا واقعہ تفصیل سے بیان کرتی ہے –

وہ غنودگی میں عائشہ عائشہ پکار رہی تھی – بیٹا جھک کر سننے کی کوشش کرتا ہے – اور حیران رہ جاتا ہے –

عائشہ تو ماما کا اپنا نام تھا وہ خود کو کیوں پکار رہی تھیں – بیٹا بڑبڑایا  – اس کی  سانسیں رکنی لگتی ہیں اور وہ دم توڑ دیتی ہے – ڈاکٹر  سوری کہہ کر کمرے سے نکل جاتا ہے – 

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

November 2024
M T W T F S S
 123
45678910
11121314151617
18192021222324
252627282930