بے بسی کا آخری مرہم ۔۔۔ ہاشم بلال
بےبسی کا آخری مرہم
ہاشم بلال
میں نے کہر آلود رات میں
کیکر کے پیلے پھولوں پر
لمبی تان کر سوئی اوس کو تھپکی دی
قریب ہی بھوسے کے ڈھیر پر پڑا ایک کتا
مجھے گھورنے لگا
شاید اس نے مجھے گالی بھی دی ہو گی
مگر میں اوس کے نرم ٹھنڈے قطروں سے
اپنی مٹھیاں سہلاتا رہا
میں نے تمھارے دل میں جگہ بنانے سے پیشتر
اپنی خواہشوں کو ایک روبوٹ کے حوالے کیا
اور خود پگڈنڈیوں سے ہوتا ہوا
ایک ایسی جگہ جا بسا
جہاں پر آدمی خلا میں بدل جاتا ہے
مگر مجھے علم نہیں تھا
کہ خالی کشکول کو بھرنے کے لیے
اپنی جیب سے
ایک دو سکے ادھار لینے پڑتے ہیں
جس طرح توجہ کا دیوتا
کتے پر مہربان نہیں ہوتا
اسی طرح ساری خواہشیں انڈیل کر بھی
آدمی کبھی خالی نہیں ہو سکتا
اس لیے ہمیں
دُور کسی پہاڑی علاقے میں
اپنی قبریں کھود کر لیٹ جانا چاہیے
امید واثق ہے
وقت کی برفباری ہمیں ڈھانپ دے گی
بے بسی کے آخری مرہم میں
سمجھوتے کی مقدار بڑھانا پڑتی ہے