مچھلی جو بولتی تھی ۔۔۔ مصباح نوید


مچھلی جو بولتی تھی

مصباح نوید

وہ چھوٹی سی مچھلی تھی۔ ایک خوش نما ایکیوریم میں دوسری چھوٹی مچھلیوں کے ساتھ تنہا تیرتی رہتی تھی۔وہ کتنی چھوٹی ہے؟ کب سے چھوٹی ہے؟ کچھ خبر نہیں ۔ اکثر اپنی ننھی سی تھوتھنی شیشہ سے لگائے ایکیوریم کی باہر کی دنیا دیکھتی رہتی ۔دوسری مچھلیاں روزمرہ میں غرق رہتیں ۔ وقت پہ خوراک لینا ، خارج کرنا ،ملاپ کرنا اور ایکیوریم میں دائروں میں گھومتے رہنا ، انھیں شیشے سے باہر کی دنیا سے کوئی دلچسپی نہ تھی لیکن وہ چھوٹی سی خاکستری مچھلی جو ان روپہلی سنہری مچھلیوں میں کچھ زیادہ خوبصورت بھی نہ دکھتی تھی وہ شیشہ کے ساتھ لگی اپنی دم ہلاتی رہتی.میں شیشہ کی دیوار کے دوسری طرف کھڑی ہوتی تو چھوٹی مچھلی یک دم ساکت ہو جاتی اور اس کی منی سی تھوتھنی ہلنا شروع ہوجاتی :” سکھی ! مجھے دریا میں پھینک دے، سمندر میں خود تلاش لوں گی ۔اس شیشے کے گھر میں میرا روح کا ساتھی کوئی نہیں۔”

“روح کا ساتھی ؟؟یہ جو تیرے ساتھ ہیں یہ خوش رنگ مچھلیاں ! ؟”میں پوچھتی تو وہ کہتی:” ان سب پر دیکھو کیسے دھنک سے رنگ بکھرے ہیں اور میں مٹی رنگ کی ! ان کی بے چینی شیشے سے نہیں ٹکراتی ، یہ تو شیشے سے پار دیکھنا بھی نہیں چاہتیں ، بنا روح کے ہیں، پانی میں دائروں میں گھومتی رہتی ہیں، میری صدائیں ان سے ٹکرا کر واپس پلٹ آتی ہیں، کیا خبر روح کی بجائے ان میں بھی ویسا ہی کوئی ڈیجیٹل چِپ نصب ہو جیساکہ تم سب انسانوں میں ہے ۔” مچھلی نے کہا۔ “لیکن مجھ میں چپ نصب ہونے سے رہ گئ ہے ، گو کہ سب کمپیوٹرائز ہے،پھر بھی شاید غلطی ہوگئ ۔” میں نے جواب دیا۔ “کمپیوٹر سے تو غلطی نہیں ہوتی” چھوٹی مچھلی جھنجھلا کر بولی .” بے شک میں مچھلی ہوں ،پھر بھی اتنی تو سُجھ ہے کہ جانتی ہوں کہ کمپیوٹر سے غلطی نہیں ہوتی ۔”

میں نے ذرا سوچتے ہوئے جواب دیا:” ہو سکتا ہے کہ ۔۔۔۔۔

چھوٹی مچھلی بھی سوچتے ہوئے ذرا دھیمی آواز میں بولی : “ہو سکتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔” مچھلی کی آواز میں گہری اداسی تھی۔ اس کی آنکھوں سے ٹِپ ٹِپ آنسو گرتے اگر وہ پانی میں نہ ہوتی، اب تو انسو محض پانی کو نمکین کر رہے تھے۔

میں نے اپنا دل اس کے آنسوؤں کے پانیوں میں ڈوبتا ہوا محسوس کیا ۔”دل کا ڈوب جانا جانتی ہو نا! میں نے مچھلی سے پوچھا ۔مچھلی سر اثبات میں ہلاتے ہوئے بولی :” ہاں! ڈوب ڈوب کر ہی تو تیرنا سیکھاہے ، تُو بھی مجھ سے یہ ہنر سیکھ لے سکھی! “

ہمارے بیچ عہد و پیمان ہوگیا وہ مجھے تیرنا سکھائے گی اور میں اس کے لیے دریا تلاش کروں گی ۔اس کے پاس سے ہٹ کر دریچے کے پاس راکنگ چئیر پر بیٹھ گئ ۔اس دریچے سے کھلا آسمان نظر آتا تھا اور رات کو چاند بھی، لیکن ستارے دریا کی طرح گمشدہ تھے ۔کبھی اپنے بچپن میں ٹمٹماتے دیکھے تھے ،لیکن اب بس ان کی یاد تھی۔ اور گمشدہ پیاروں کی یادیں بہت نراش کرتی ہیں ۔ دوسروں کی طرح مجھے یہ سہولت حاصل نہ تھی کہ غیر ضروری میموری کو ڈیلیٹ کر سکوں ۔ مجھ میں ماضی زندہ رہ گیا تھا جو نہ سمجھ آنے والے احساسات سے مجھے دوچار کرتا رہتا بہرحال میں نے فیصلہ کیا جب تک چِپ کے نہ ہونے کی بات راز میں رہتی ہے ،اسے راز میں ہی رہنے دیتی ہوں، بس اپنی سوچوں کو کوپ کی نظروں سے بچانا ہوگا اس کی نظروں سے بچنا محال تو ہے، ناممکن تو نہیں ۔اس دغا کا سوچ کر میں دل ہی دل میں محظوظ ہونے لگی لیکن چہرے پر مسکراہٹ نہ آنے دی کہ کہیں کوپ مسکراہٹ دیکھ کر سوچ کی لہریں جانچنا نہ شروع کر دے ۔

کھڑکی شیشے کی تھی اس میں آر پار دیکھا تو جا سکتا تھا لیکن اسے کھولا نہیں جا سکتا تھا۔ باہر کی آلودگی اور الٹرا وائلٹ شعاعیں اس شیشے کو پار نہیں کر سکتی تھیں ،کمرے کا درجہ حرارت بھی کنٹرولڈ تھا ۔پھر بھی شیشوں سے چھن چھن کر آتی سورج کی شعاعیں آنکھوں کو بھلی نہیں محسوس ہورہی تھی ۔میں نے بٹن دبایا ،رم جھم بارش برسنے لگی میری انگلیوں کی پوروں نےہتھیلی پر رکھی نوٹ بک کی سکرین کو ہلکا سا چھویاتولفظ ابھرنے لگے ۔یہ کچی پکی سی زمانہ قدیم جیسی شاعری ہے ۔ شاعر کا نام111 ہے ڈیجیٹل عہد میں ہر فرد کو نمبر الاٹ ہو گئے ہیں ۔ وہ بھی مچھلی کی طرح روح کے ساتھی کی تلاش میں ہے۔ اس کی شاعری سننا اچھا لگتا ہےکہ میں کوپ کی پر فیکٹ شاعری سن سن کر ہَف پَف گئی تھی، چاہے وہ بہت دلکش لحن کے ساتھ اپنی موسیقیت سے بھری شاعری سناتا تھا، پھر بھی مجھے اس کی شاعری میں روح محسوس نہیں ہوتی تھی۔ کوپ انسانی شکل میں ایک ربوٹ ہی تو تھا روح کہاں سے لاتا! وہ عورت کی بدنی ذہنی ضرورتوں کو مد نظر رکھ کر تشکیل دیا گیا تھا کس ایج کی عورت ؟ ایج لیس عورت ؛ اب عمروں کی گنتی بے معنی ہو کر رہ گئی ہے ۔ اب موجود سارے انسان خوفناک حد تک ایک سی سوچ کے ساتھ ایک جیسے ہیں ۔کوپ آٹو ہے وہ میری رضا کے مطابق خود بخود ڈھل جاتا ہے اور میری رضا کو اپ ٹو ڈیٹ بھی کرتا رہتا ہے ۔ میری چاہت اور ضرورت نے ایک سی صورت بنا لی تھی کوپ رات کو میرا ہم بستر بھی ہوتا اور دن کو بھی میری ضرورتوں کا بن کہے گیان دھیان رکھتا ۔ ہر طرح کا رزق کمانے کی ذمہ داری بھی کوپ کی تھی ۔ اس کے ہوتے ہوئے مجھے کسی اور کی ضرورت بھی محسوس نہ ہوتی اگر چھوٹی مچھلی نے “روح کا ساتھی” کا پنڈورا باکس نہ کھول لیا ہوتا ۔ اس موضوع پر میں نے کئی بار کوپ سے ڈسکس کیا کوپ نے کنفیوز سا ہوتے ہوئے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ روح کا ساتھی تم انسانوں کا ابہام اور مغالطہ ہے ۔مچھلی کو تو شاید اس روح کے ساتھی کی ضرورت ہو لیکن تمھیں قطعی نہیں ، میری مالکن !میری محبوبہ ! میرے ہوتے ہوئے کسی اور کی چاہ؟ کوپ نے پیار بھرے لہجے میں کہا ۔جب بھی کوپ اس لہجے میں بولتا تو میں پگھل کر رہ جاتی بے اختیار اس کی بانہوں میں سمانے لگتی ۔کوپ کے نرم گرم بوسے میرے دکھتےبدن پر ٹکور کرتے رہتے۔دنیا میرے انگلیوں کی پوروں پر تھی پھر کیوں بدن شل رہتا؟ اس بات کا جواب تو نہ کوپ کے پاس تھا نہ چھوٹی مچھلی کے پاس ۔ جب تک کمرے میں رہتی چھوٹی مچھلی تھوتھنی ایکیوریم کے شیشے پہ ٹکائے مجھے تکتی رہتی اور دریا دریا کی رٹ لگائے رکھتی۔ کبھی جھنجھلا کر باہر لان میں نکلتی تو کوپ باہر زیادہ دیر رہنے نہ دیتا تھا ، بہلا پھسلا کر پھر کمرے میں لے آتا۔ پولیوشن اس قدر بڑھ گئ ہے کہ کھلی فضا میں رہنا پھیپھڑے کو زخمی کرنا ہی ہے ۔ جامِ جمشید میرے ہاتھوں میں ہے ۔ذرا انگوٹھے کے دباؤ سے زمین کا کوئی بھی منظر دیوار پر ایسے ابھر آتا ہے کہ اپنا آپ بیچ میں محسوس ہوتا ، گرتی آبشاروں کے اڑتے قطریے بھی اپنے گالوں پہ محسوس کیے جا سکتے ،پھولوں کی نرماہٹ مہک مشام جاں ہو جاتی اس قدر مکمل جہاں ہے کہ مزید کی گنجائش باقی نہیں رہی الہامی کتابوں میں بہشت کی تصویر کشی کی جاتی تھی کچھ ایسی ہی یہ زمین بنا دی گئ ہے۔کوپ مسکرا کر ان الہامی آئیتوں کی تلاوت کرنے لگتا ،جن میں بہشت کا بیان تھا۔جام ِجمشید کی جانکاری بھی کوپ ہی نے دی تھی ۔علم وادب کا خزانہ اس میں فیڈ ہے ۔اسے تو تمام مذہبی کتابیں بھی ازبر ہیں۔ محض کوپ ہی نہیں۔ میرے پاس تو ایک چیہواہوا نسل کا کتااور ایک شیرخورار انسانی بچہ بھی بطور دل بہلاوہ موجود ہیں۔ جب چاہتی شیر خوار کی عمر فارورڈ یا ریورس کر لیتی کبھی کوکھ میں اس کو لمحہ بھر لمحہ بڑھتے دیکھتی تو کبھی اس کو پیدائش کے مراحل سے گزارتی۔ اس کے ڈائیپر تبدیل کر کے نہلا دھلا جھولے میں جھولا جھلاتی تو کبھی اس کے بال سنوار سکول بھیجتے سمے بائے بائے ٹائے ٹائے کرتی ۔چیہواہوا کرتب دکھاتا ،اچھل کود کرتا، میں اس کو گدگداتی تو اس کی کئیوں کئیوں مرے دل کو گدگداتی ۔۔اس قدر کیوٹ ہے کہ اس کے لیے پیارامڈ امڈ کے آتا ہے ۔پھر بھی روح کا ساتھی؟

“اوہ بہن چھوٹی مچھلی ! تم نے مجھے کس جنجال میں ڈال دیا ہے؟

چھوٹی مچھلی نے پھر ہانک لگائی ایک تو تم کوپ کے عشق میں گوڈے گوڈے دھنس چکی ہو اس کے علاؤہ تمھیں کچھ سوجھتا ہی نہیں آخر میرا گمشدہ دریا کیوں نہیں ڈھونڈتی؟

میں بے بس سی ہوکر پھر سکرین اوپن کر کے سکرولنگ کرنے لگی111کے پیغامات ابھرنے اور مٹنے لگے ۔۔”کبھی ملو تم مجھے روح کی ساتھی محسوس ہوتی ہوں میرا دل اداس ہے وہ تمھارا لمس ڈھونڈتا ہے تمھاری مہک کو ترستا ہے۔

روح کا ساتھی ؟؟ سوچا کہ مل لینے میں کیا حرج ہے شاید اسے گمشدہ دریا کا اتا پتا معلوم ہو۔ “آؤنا ایک شام اکھٹے گزارتے ہیں۔ کچھ بیقراریوں کچھ اداسیوں کچھ تنہائیوں کی سانجھ کرتے ہیں ۔”میں نے کہا تو وہ خوشی سے بول اٹھا :

“مجھے تمھاری قربت چاہیے قربت ۔۔نہیں محض قربت نہیں قربت کا احساس بھی۔۔۔نہیں محض احساس نہیں ۔۔۔رئیل انسان ہونے کا احساس بھی ۔۔نہیں۔۔۔؟”

لیکن میرے پاس تو کوپ ہے ۔ہمارے ہمسائے میں مسٹر 222 رہتے ہیں انھیں بھی رفاقت کے لیے فی میل ورژن میں کوپ مہیا کر دیاگیا ہے ۔جس کا نام اس نے اپنی کسی خیالی محبوبہ پر رکمنی رکھ چھوڑا ہے۔ دبلی پتلی سی رُکمنی رنگ برنگی ریشمی ساڑھیاں لپیٹے لان میں بھی کام کرتی نظر آتی ہے ان کے لان پھولوں سے اٹا پڑا ہے ، اب رکمنی کو آلودگی کا ڈر تو ہے نہیں ۔

میں تو گارڈننگ کا شوق سکرین پر پھول پتے بنا کر پورا کرتی رہتی ہوں ۔رکمنی کی موج ہے تروتازہ پھولوں میں مہکتی بہکتی پھرتی ہے ،لیکن اسے شاید اس بات سے فرق بھی نہیں پڑتا کہ پھول اصل ہیں کہ نقل ،جب نقل ہی اصل جیسے ہوں تو پھر کیا تردد!!

میں نے 111 سے کہا:

“مجھے لاحق یہ بیقراریاں اداسیاں اور تنہائیاں شاید میرے ڈی این اے میں ہیں ۔قدیم شاعری میں ان کا تذکرہ ملتا ہے۔ اگر غیر مرئی ڈیجیٹل چِپ میرے کسی مناسب جگہ جیسے کان کے اوٹ میں یا پیشانی میں یا بدھی میں سرایت یا پیوست کر دی جاتی تو مجھےایسے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا ۔ پرانے قصہ کہانیوں میں پڑھا ہے کہ جب پسماندہ سماج کے سپئین بچے غبی پن یا بے ہودہ پن کا مظاہرہ کرتے تھے تو ان کی بدھی میں چپت لگا کر چودہ طبق روشن کر دیے جاتے تھے،اب یہ ہی کام ڈیجیٹل چپ سر انجام دیتی ہے ، چپ جو دانستگی یا نا دانستگی میں نصب ہونے سے رہ گئ”111 نے کہا : “ہاں ! ایسا ہی ہے تم بولتی بھی تو بے تکان، بے ربط ہو ۔اگر چِپ لگی ہوتی تو تمھاری گفتگو موثر اور مختصر ہوتی۔ ہو سکتا ہے کہ گفتگو کی ضرورت ہی نہ رہتی ایسے بھی اب لفظ معدوم ہوتے جارہے ہیں، ہندسے پھیلتے جارہے بے انتہا۔ انفارمیشن ہے کہ انسانی لٹریچر کو معدوم کیا جا رہا ہے کہ یہ انسانی دماغ کے انتشار اور کبھی ہراسگی کا باعث بھی بنتا ہے ۔111 بولتا چلا گیا: ” اس سے پہلے کہ کچھ بھی اختیار میں نہ رہے میں رئیل لائف کو محسوس کرنا چاہتا ہوں ورچوئل لائف جی جی کر تھک گیا ہوں۔”

اچھا تو پھر آؤ نا واک پر چلتے ہیں ۔”

میں نے کہا.

“نہیں! “واک سیو نہیں ڈرائیو پر چلتے ہیں”۔وہ بولا ۔

ڈرائیو پر گاڑی تو خودبخود چلتی گئی ۔اس کو سٹیئرنگ پر ہاتھ رکھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس لیے ہاتھ میرے بدن پر پھرتے رہے کبھی رانوں پر، کبھی اطراف ران ۔میں نے اس کا بازو تھام کر اپنے سینے سے لگا رکھا تھا۔ میں ںسچی مچی کی اس رفاقت کا سیک اپنے بدن پر محسوس کر رہی تھی ۔اس نے گال کو چوما ہاتھ سے ران کو دبا کر پوچھا: کچھ محسوس ہوتا ہے؟”

میں نے کہا : ” نہیں! اس معاملے میں کوپ کی پرفارمنس زیادہ بہتر ہے، بس تم اپنا بازو میرے پاس رہنے دو میں تمھارا قرب محسوس کرنا چاہتی ہوں”

اس نے بیدِل سا ہوکر میری جپھی سے بازو کھینچ کر باہر نکال لیا ،گاڑی واپس موڑتے ہوئے بولا :

” دیر ہوگئ ہے ،میں تمھیں ڈراپ کر دیتا ہوں میری ‘رکمنی’ بھی میرا انتظار کر رہی ہو گی ۔”

گھر کے سامنے گاڑی روک کر اس نے مجھے سرد سا بوسہ دیا کہ اس کی خنکی ریڑھ کی ہڈی میں بھی سرایت کرگئ ۔

شاید چِپ اس میں بھی نصب نہیں کی گئ یا پھر پروگرامنگ میں کہیں گڑ بڑ ہوگئ تھی۔

میں بوجھل ہوا کی طرح گھر میں داخل ہوئی۔

نپے تلے قدم اٹھاتے ہوئے چہرے پر مسکراہٹ ثبت کیے ایکیوریم کی طرف بڑھتی چلی گئ ۔دل کی دھڑکن نظر کا فوکس ،قدموں کا بہاؤ ہر ایک متوازن تھا ۔لگتا تھا کہ میں نے روح سے نجات حاصل کر لی ہے۔جذبات اور احساسات خیالات پر مکمل کنٹرول مجھے شکتی کا احساس دلا رہا تھا۔اپنی ہی آہٹوں کو اپنے کانوں میں محسوس کرتے ہوئے سیدھی ایکیوریم کے پاس جا کھڑی ہوئی چھوٹی مچھلی نے بیقراری سے دم ہلاتی ہوئی شیشے کے ساتھ تھوتھنی لگا لی ۔سکھی ! سکھی ! دریا کا سراغ ملا ؟ “

“ہاں! پر دریا کا پانی !!!!!اب وہاں حقیقی دریا باقی نہیں رہا ،بس ورچوئل لہریں رقص کرتی نظر آتی ہیں ۔”

میں نے مشینی آواز میں جواب دیا ۔

“مچھلی جو بولتی تھی” ایک گہرے علامتی افسانے کی حیثیت رکھتا ہے جو انسانی وجود، تنہائی، اور جدید دور کی ٹیکنالوجی کی چالاکیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ کہانی کا بنیادی پیغام طبقاتی جدوجہد کی عکاسی کرتا ہے۔ مچھلی کا ایکیوریم میں قید ہونا اس بات کا اشارہ ہے کہ انسان بھی ایک مخصوص سماجی اور اقتصادی نظام میں قید ہے، جہاں وہ اپنی حقیقی آزادی اور خودی کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ دوسری مچھلیاں جو کہ خوش رنگ ہیں، دراصل اس سماج کی عکاسی کرتی ہیں جو اپنے حالات سے مطمئن ہیں، حالانکہ  وہ دراصل بے روح ہیں۔”روح کا ساتھی” انسانی تعلقات میں مشینی کردار کو ظاہر کرتا ہے۔ جو کردار “کوپ” نے ادا کیا ہے، وہ موجودہ دور کی ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی علامت لگتا ہے۔ اس طرح کی ٹیکنالوجی دراصل انسانوں کی حقیقی شناخت کو چھین لیتی ہے اور انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ کرتی ہے۔ مچھلی کی تشویش کہ “اب وہاں حقیقی دریا باقی نہیں رہا” اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ انسانیت اب اپنی حقیقی زندگی کے تجربات کو بھولتی جا رہی ہے اور مصنوعی دنیا میں قید ہو رہی ہے۔ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے جو انسانی آزادی کی جدوجہد کو متاثر کرتا ہے۔ یہ افسانہ میں ایک طاقتور پیغام بھی پوشیدہ  ہے کہ انسان کو اپنی حقیقت کو سمجھنے اور اپنی آزادی کی جدوجہد جاری رکھنے کی ضرورت ہے، چاہے وہ کتنی ہی مشکل کیوں نہ ہو۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

January 2025
M T W T F S S
 12345
6789101112
13141516171819
20212223242526
2728293031