
باپ ایسے ہوتے ہیں کیا ۔۔۔ مریم عرفان
باپ ایسے ہوتے ہیں کیا۔۔۔۔
ڈاکٹر مریم عرفان
یہ جوکرسی پر نظرکا چشمہ لگائے ، اخبار کے مطالعے میں گم شخص ہے کون ہے بھلا؟میں نے کمرے میں داخل ہوتے لمحہ بھر کو سوچا اور جیسے خواب سے چونکتے ہوئے بڑبڑائی ابوہیں اور کون ہے۔میں نے آج تک لوگوں کو ماں کے بارے میں ہی مضمون لکھتے اور اشکبارہوتے دیکھا ہے۔ماں کی قربانیاں ، اس کا ایثار، اس کی محبت اوراولاد کے لیے بہت کچھ ، یہ سب کچھ اگرماں میں سے نکال دیا جائے تو وہ ایسے ہی جیسے کلرزدہ زمین،اورباپ وہ کیا ہے؟مجھے تو لگتاہے جیسے میری ماں نے مجھے نوماہ پیٹ میں نہیں رکھا اس کرسی پر بیٹھے شخص نے پیدا کیا ہے جومیرا باپ ہے۔توبہ توبہ ، کیسی ناہنجارلڑکی ہے، کیسا کفربکتی ہے ، کیسی آزادخیال ہے کہ باپ کو بھی تندوری روٹی کی طرح جلتا دیکھ کر اپنے خمیری ہونے کا دعوی کررہی ہے۔سننے والے میرے بارے میں شاید ایسے ہی خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں۔
اچھا تو میں بتارہی تھی کہ باپ کیسے ہوتے ہیں۔میں چونکہ والدین کی بڑی اولاد ہوں تو ایسے ہی ہوں جیسے مزارپر کوئی منت کا دیا۔چھینک مجھے آتی ہے اورزکام انہیں ہوجاتاہے، ہچکی مجھے لگتی ہے تو پانی انہیں پلاناپڑتاہے،گویامیں چلتاپھرتاپھوڑا ہوں اوریہ دونوں پھاہا۔یہ جو میں آج جس مقام پر ہوں ، جتنی بگڑی ہوں ،جتنی سنوری ہوں اس میں کرسی پر بیٹھے اس شخص کا بڑا ہاتھ ہے۔مجھے میٹرک کرنے تک کبھی اپنے سکول یونیفارم استری نہیں کرنے پڑے، جوتے پالش نہیں کرنے دئیے گئے۔یہ تو کچھ بھی نہیں عیدپر بھی انہیں بخشانہیں گیا۔چاندرات کے آخری پہرتھکے ماندے جب بھی وہ گھر لوٹے تو آگے پانچ بچوں کے عید کے جوڑے دھرے ہیں۔کیوں بھئی!آپ کریں گے استری، ہم سے جل نہ جائیں کہیں۔پرمجال ہے جو ماتھے پر کبھی شکن آئی ہو،بس دبی دبی ہنسی دیکھنے کو ملی اور پھر مزدوری شروع۔اب میں سوچتی ہوں کہ باپ ایسے ہوتے ہیں کیا!
پھرمجھ جیسی ناشکری اولاد کو اپنے قدسے اونچے سکول میں ڈال دیا۔وڈیروں کی بیٹیاں ساتھ پڑتی تھیں اورکہاں میں ایک معمولی درجے کے دکاندارباپ کی بیٹی،کوئی پیجارومیں آتی،کوئی مرسڈیزپر،اس سے نیچے تانگوں اوراس سے اوپر والی سکول وین پر ،اورایک میرے لیے بچی سائیکل کی گدی۔واہ ری قسمت!پانچ منٹ کا راستہ اورمیں منہ چھپائے پیچھے بستہ لٹکائے،منہ نیچے کیے شرمندہ شرمندہ سی بیٹھی رہتی۔بڑا غصہ آتا تھا اس سائیکل پر، اللہ ماری ٹوٹتی بھی نہیں کہ اس بہانے شایدپیدل ہی چل لوں۔نجانے کیا کیا خیال دل میں دلدل بناتے اور ایک یہ شخص اپنی مستی میں گم میرے مستقبل کے خواب دیکھے جاتا۔پھرایک دن اسی سائیکل کے پہیے میں میرا پاؤں آگیا۔سائیکل سوارنے تڑپ کر چھلانگ لگائی اور میری جراب اتارکرایڑھی سہلانے لگا۔بڑی نفرت ہوئی اس دن ان مرسڈیز سے، اورغصہ آیا اس معصوم شخص پر جوجانتاہی نہیں کہ پاؤں پرچوٹ کھانے والی یہ بیٹی اس کی سادگی پر دل ہی دل میں کیسے چوٹیں کیے جاتی تھی۔تب سے سوچ رہی ہوں کہ باپ ایسے ہوتے ہیں کیا!
ماں باپ پیارمیں بچوں کوبگاڑدیتے ہیں مگریہ کیا مجھے توسینت سینت کررکھنے نے بگاڑدیا۔مجھ ماچس جیسی طبیعت رکھنے والی کو ماچس کی بواوردھواں برالگتاہے۔اب بگاڑدیکھئے کہ بجائے اس کاعادی بنانے کے گھرمیں ماچس آناہی بند ہوگئی۔ماں نے کہا کل کو چولہا جلانا پڑے گا تو یہ ہمیں جلائے گی کیا؟بس پھر کیا تھا جدید پسٹل نما لائٹرلاکرکچن میں رکھ دیا گیا۔مجھے روٹی بنانا نہیں آتی تھی،توایک دن پیڑھی پر بیٹھے پیڑا بنایا اور لگے سکھانے ۔میرے اندرکے باغی نے دہائی دی کہ جتنا یہ بچتی ہے اتناہی سایہ کیوں تان دیتے ہو،اسے جلنے دودھوپ میں۔اگرمجھ سے کوئی پوچھے کہ کوکنگ کس سے سیکھی تو میں بلاتامل کرسی پر بیٹھے اس شخص کی جانب اشارہ کردوں گی۔انہیں پڑھنے کا شوق ایسا جیسے کسی سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی پرجن آتے ہوں۔مزیدقیامت یہ چاٹ مجھے بھی لگادی۔سرپر امتحان اور کمرے کی دونوں الماریاں ڈائجسٹوں سے بھردیں۔پڑھو، پڑھو جو جی چاہے پڑھو۔پھرمیں بھی بگڑگئی،اوپردرسی کتابیں اورنیچے ڈائجسٹ کی دنیا آبادکرلی۔
کالج میں داخلہ لیا تو دل نے بڑی زورسے انگڑائی لی۔مگریہ کیا،پاس بٹھا کرکہنے لگے اب تم کالج جارہی ہو،نئی زندگی شروع ہونے لگی ہے ،دھیان سے رہناتمہارے نام کے ساتھ میرا نام آتاہے۔بس انگڑائی درمیان میں ہی ٹوٹ گئی، سارا خمار بھک سے اڑگیا،لگامینارپاکستان دیکھنے گئی تھی لیکن کسی نے وہ اوپرکی منزل سے نیچے دھکادے دیاہو۔بس اس دن سے میں اندرہی اندرمردبن گئی۔پھرسمجھواس دن سے وہ میری ڈائری بن گئے اورمیں قلم،اب تو جو دیکھا وہ سنا دیا والا حساب ہوگیا۔ماں بھی تنگ کہ آخریہ ہر بات ‘انہیں’کیوں بتادیتی ہے اورمیں اس خوداعتمادی پر خوش۔ایک دن امی نے اپنی دوست کا دکھ سناتے ہوئے کہا کہ دیکھوبچاری کے پِتے میں پتھری ہے لیکن وہ آپریشن کرانے سے ڈرتی ہے ۔اب جس کے اندرمرد پیداہوچکاہوبھلا اس کی زبان کون روکے۔میں جھٹ سے بولی،پانچ بچے پیدا کرلیے توڈرنہیں لگا اوراتنے سے آپریشن سے ڈررہی ہے آپ کی دوست۔اخبارکے پیچھے منہ چھپائے بیٹھے اس شخص کی ہنسی نکل گئی اورماں کی چیخ۔وہ بولے بالکل سہی کہتی ہے یہ ۔اگلے دن ماں بولی،بے شرم لڑکی باپ کے سامنے ایسی بات کرتے شرم نہیں آتی،کیسی اولاد پیداکرلی میں نے۔نجانے اس وقت کہاں سے اتنی زیادہ ہنسی میرے اندرپھوٹی کے قابوسے ہی باہر تھی۔ماں بیچاری کو کیا پتہ کہ اندرکا مرد پیداہوجائے تو مرتانہیں۔اس کو بولوجس نے یہ خوداعتمادی دی ہے،جس نے جھینپ جھینپ کر جینا نہیں سکھایا۔ٹھاہ ٹھاہ جواب دینے کی ایسی عادت پڑی کہ زمانہ مجھ سے بات کرنے سے پہلے کئی بارسوچتا ہے کہ اس سے یہ بات کریں یا نہ کریں۔کم بخت ڈرتی ہی نہیں۔جو دل میں ہوتڑاخ سے منہ پرکہہ دیتی ہے۔اب یہ ہمت جس نے دی ہے اس کا بھی کیا قصور۔ماں اب سوچے کہ باپ ایسے ہوتے ہیں کیا!
اچھاتو یہ نام کی بھی خوب رہی،ابھی تازہ تازہ قلم میرے ہاتھ میں آیاتھااخباروں میں میرے کالم اور نظمیں چھپنے لگیں۔اس معصوم سے شخص نے بڑی معصومیت سے کہا،بیٹا جی !اب تم میرانام اپنے نام کے ساتھ مت استعمال کیا کرو،شادی کے بعدتو لڑکی کے نام کے ساتھ اس کے شوہر کا نام لگ جاتاہے اس لیے اپنی خود کی پہچان بناؤ۔مجھے لگاجیسے کسی گھرسے مستقل بھیک ملتے ملتے کسی نے دروازہ بند کرکے کہا ہو،جامائی معاف کر۔میرے اندرکے مردنے دہائی دی اورپہلی بارشادی کے نام سے بڑی نفرت ہوئی۔لوبھلا یہ کیا بکواس ہے ،میں کیوں اپنے نام کے ساتھ یہ ظلم کروں،کس کتاب میں لکھا ہے،نانانانانانانا،بس اس دن خودسے عہدکیاکہ زمین پھٹ جائے ،آسمان ٹوٹ کرگرجائے مگرنام کا سابقہ نہیں بدلنا۔قسمت بنانے والا بھی جانتا تھاکہ اس آندھی جیسی طبیعت والی کووہی دے دو جویہ چاہتی ہے۔اب چاہوں بھی تو اس عرفانیت سے جان نہیں چھوٹ سکتی۔
میں ایسے ہی اس شخص کو معصوم نہیں کہتی۔اس کی کئی وجوہات ہیں ۔بڑی وجہ تو یہی ہے کہ بھیڑ میں چلنے والا یہ شخص کبھی کسی کو کندھا مار کر ،راستہ کاٹ کر نہیں چلتا،سرنیہوڑائے اپنے ہی دھیان میں چلے جارہاہے۔اسے چاہیے دوسروں کی طرح شکوہ شکایت کرے ،اپنے پسندکی چیزکھائے،نہ ملنے پربرتن اٹھااٹھا کر دیواروں پر مارے،ایسارعب رکھے کہ اولاد اباجی کہتے ہوئے کانپ کانپ اٹھے۔آہ !ایک یہ ہیں کتنے ہی تھکے ماندے گھرآئیں،کسی کونہیں کہناکہ بھئی !مجھے بھی کھانا دے دو،پانی پلادو۔مجال ہے جو اپنے اندرکے مردکوکبھی زندہ کیا ہو۔ایک دن دوپہرکے بعداپنے کسی کام سے گھرلوٹے،سب سورہے تھے۔سہ پہرکے قریب میں نے اٹھ کر پوچھا ،کھانا نہیں کھایاآپ نے؟شرماکربولے،میں نے سوچا کیا تم لوگوں کو تنگ کرنا جب سب کے لیے شام کی چائے بنے گی تو کھالوں گا کچھ ساتھ میں۔بڑا غصہ آیا اس وقت مجھے،آپ سوچ رہے ہوں گے خودپر۔جی نہیں!اس شخص پر،کہ باپ ایسے ہوتے ہیں کیا!
امیرمینائی نے کہاتھا کہ سارے جہاں کا دردہمارے جگرمیں ہے۔ابونے ثابت کردیاکہ یہ جگرامیرکانہیں بلکہ ان کا ہے۔اخبارمیں کوئی دردبھری خبرپڑھ کریاٹی وی پر کوئی دردناک سین دیکھ کرجتنی جلدی بادل ان کی آنکھوں میں آتے دیکھے ہیں اورکہیں نظرنہیں آئے۔اب توٹی وی کے سامنے بیٹھتے ہی انہیں وارننگ دینا پڑتی ہے کہ پلیز کسی سین پر رونا نہیں۔آپ کیا سمجھتے ہیں کہ ان کا پیارصرف مجھ سے ہے؟ جی نہیں!سب سے ہے۔ایک دن چھوٹا بھائی ماں سے ناراض ہوا تو گھرچھوڑ کر چلاگیا۔انہیں دھاڑیں مارمارکر روتے دیکھا،گھرچھوڑنے والے سے زیادہ گھرمیں رہنے والے کی فکرپڑگئی۔وہ تین دن بعدآیاتوسمجھویہ دنیامیں آئے۔ایک طرف اتنا لاڈدلاراوردوسری طرف غصے کادوسرا رخ دیکھئے کہ پہلے تو کسی کو کچھ نہیں کہنا ،اندرہی اندردم پخت کی طرح پکتے رہنا ہے۔جب بھاپ اٹھنے لگے اورلاواباہرآنے کو تیار ہوتو پھٹ جاناہے۔وہ ایسے کہ یہی بیٹابنا بتائے ایک دن گھردیرسے آیاتو فوراًاندرکے مردنے ہاتھ اٹھالیا۔ساتھ ساتھ مارتے جاتے اورہانپتے جاتے ۔بیچ بچاؤ کے بعدخود رونے لگے۔لواب ایساکمزوردل بھی کسی کا نہ ہو۔میری تو ہنسی ہی چھوٹ گئی۔شیرکی طرح دھاڑبھی نہیں سکتے۔بھلاباپ ایسے ہوتے ہیں کیا!
کرسی پر بیٹھا یہ شخص باپ سے زیادہ محب شوہر بھی ہے۔آج تک امی پر کوئی پابندی نہیں لگائی،اونچی آوازمیں
پکارنا تو دورسخت لہجے میں بات کرتے بھی نہیں سنا،گالیاں تو کیا کوسنے دینے کی بھی آوازنہیں آئی۔کبھی ان دونوں کو ساتھ بیٹھے نہیں دیکھا،ہمیشہ بڑے ادب آداب سے آمنے سامنے بیٹھے باتیں کرتے ہیں۔گویا گھرنہ ہوا مسجد کا صحن ہوگیا کہ جوتا اتارکر جاؤ،آہستہ بولواوربس اللہ ہوُکاوردکرو۔ہردس میں سے ایک عورت ایسی ہوتی ہے جسے ایساشوہرملے۔دونوں ایک دوسرے کا ایسے خیال رکھتے ہیں جیسے مرغی انڈوں پر بیٹھ کر ان سے نکلنے والے چوزوں کا رکھتی ہے۔میں نے کبھی اس معصوم شخص کے ماتھے پر سلوٹ بنتے نہیں دیکھی۔مَیں جو نہیں ان میں،برسنا نہیں ہے،بس گرج گرج کر خودپر ہی رم جھم شروع۔شفیق اتنے کہ رشتے داروں کے بچے بھی ابوابو کہتے پھرتے ہیں۔یعنی ہمارے ابو نہ ہوئے لاٹری کے ٹکٹ ہوگئے جس کی نکلی اس نے چوم کر سینے سے لگالیا۔آپ سمجھیں گے کچھ زیادہ ہی تعریف کے پل باندھ دئیے۔ایساہے تو پھرایساہی ہوگا،کسی بھی محفل میں جائیں ان کی گودمیں ،دائیں بائیں بچے ہی بچے منڈلاتے ہیں۔کبھی بیمارہوجائیں تو ملنے والے ہماری ناک میں دم کردیتے ہیں۔لوگوں کی زبان انہیں ‘‘شاہ صاحب’’کہتے نہیں سوکھتی اوریہ اپنے چاہنے والوں کی چاہت کے احسان تلے سوکھے چلے جاتے ہیں۔بس ایک بری بات ہے اس معصوم شخص میں اور وہ یہ کہ ڈراورخوف بہت ہے،کوئی ناراض نہ ہوجائے، کچھ برانہ لگ جائے جب انہیں ایسے بھنورستاتے ہیں تو قوتِ فیصلہ کافقدان ایسے ہی پیداہوجاتاہے جیسے وٹامن اے،بی ، سی، ڈی کی ایک ساتھ کمی۔ پھرجب باری آئی میری شادی کی تو جیسے پریشانی ان کے کاندھوں پرآکر بیٹھ گئی اورلگی بولنے والے طوطے کی طرح ٹرٹرکرنے۔اگرکبھی کوئی پسند آجاتاتو مجھ سے پچھوایاجاتاکہ ٹھیک ہے؟میں کاپی پردس میں سے تین نمبردے کر امیدوارکو فیل کردیتی تو سرپکڑلیتے۔پھرایک دن بولے کہ آخرمسئلہ کیا ہے۔میری دل ہی دل میں بڑی ہنسی چھوٹی۔ان کی معصومیت کی اس انتہاپرکہ پوچھنا تو چاہتے ہیں کیا مجھے کوئی پسند تو نہیں،میری کہیں اورتو مرضی نہیں،لیکن مارے حجاب کے بول کچھ اوردیا۔اب میرے اندر کیسا ہی مردہولیکن پچھترفیصدعورت کے آگے تو یہ پچیس فیصد کچھ بھی نہیں۔اب میں کیسے یہ کہتی کہ سارا بگاڑآپ کا پیداکردہ ہے۔ایک تو رسی کو اتنی ڈھیل دئیے رکھی اورجب اوپر کھینچنے کی باری آئی تولگے رسی کے بل کھولنے ۔زندگی میں جب بھی کبھی اپنی مرضی کرنے کا موقع ملاتو ذہن میں کرسی پر بیٹھے معصوم شخص کے الفاظ چیخنے لگے کہ تمہارے نام کے ساتھ میرا نام آتاہے۔پھرمیں نے سوچا مرضی کی ایسی کی تیسی، یہ اس شخص کے قد جتنی تو نہیں ۔بس پھر اس خیال کو ایسے خودسے وارکر پرے پھینک دیا جیسے کوئی نئے نویلے دولہے پر سو سو کے نوٹ واررہاہو۔اس غلام کی طرح جس نے اپنے آقاکے حکم پر قیمتی ہیراتوڑ دیاتو مجمع چیخ پڑا ،اے نادان!غضب کا نشانہ بنے گا،غضب کا،لیکن آقانے غلام کی اس بجاآوری پر فخرکیا۔بس ایساہی آقاہے یہ معصوم شخص جس نے غلام کی مرضی پوچھ لی۔کوئی تجھ سا ہو تو پھرنام بھی تیرارکھے۔بس کچھ ایساہی آئیڈیل تھا۔جو کرسی پر بیٹھے اس معصوم کومیرے اندرکے مردمیں نظرنہیں آیا۔اب آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ باپ ایسے ہوتے ہیں کیا