بھوک۔۔وجود کی پہلی چیخ ۔۔۔ نجمہ منصور

بھوک — وجود کی پہلی چیخ  /  نجمہ منصور

نجمہ منصور جانتی ہو

بھوک…

وجود کی پہلی چیخ اور

کوکھ کی آخری طلب ہے

جب تخلیق  پہلا  سانس لیتی ہے

 تو بھوک ہی  پہلی دوا بنتی ہے

اور جانتی ہو کبھی کبھی

انسان کا پیٹ نہیں

اس کی روح بھوکی ہوتی ہے

 شناخت کی، بقا کی، محبت کی بھوکی

بھوک، جو رگوں میں لہو کی طرح دوڑتی ہے

 جب پوری نہیں ہوتی

تو خوابوں کو چبا جاتی ہے تقدیروں کو چاٹ لیتی ہے

بھوک…

ایک ایسا سوال ہے

تہذیبیں جس کا جواب تلاش کرتیں

نوکیلے پتھروں پر ٹھوکریں کھاتی رہی ہیں

جان لو

بھوک…

محض بھوجن کا نام نہیں

یہ تو ہر حسرت کی جڑ 

ہر جنگ کی بنیاد، ہر آنسو کی زبان ہے

کہاں کہاں نہیں چھپی یہ بھوک؟

دانا کی حکمت میں،

فقیر کی جھولی میں،

بادشاہ کے خزانوں میں،

اور گوتم کی ترکِ دنیا میں۔

آخری سانس تک

انسان، بھوک سے نجات نہیں پاتا

کبھی روٹی کی، کبھی محبت کی، کبھی امر ہونے کی بھوک

نجمہ منصور

یہ بھوک ہی ہے

جو حیات کا استعارہ بن کر

ہمیں گھوماتی ہے

زمین و آسمانوں میں

ہم دائرہ در دائرہ گھومتے ہیں

گھوم گھوم کر

آخر اک دن بھوک کی کوکھ میں اتر جاتے ہیں

اپنی موت مر جاتے ہیں!!

راکھ تھوکتی رات/ نجمہ منصور

جب رات نے اپنے ہونٹوں پر

تاریخ کے زخم چپکائے

تو اندھیرے کی بکل میں لپٹے

بھوکے بچے

میرے تکیے میں سانپ بن گئے

دیواروں سے ٹپکتی بھوکی پرچھائیاں

کسی پرانی سوکھی لاش کو

دھیرے دھیرے جلاتی رہیں

اور جلنے کی بےآواز چیخ

میرے دل کے راکھدان میں اترتی گئی

ایک ٹمٹماتا دیا

آخری سانس میں لرزتا رہا،

اور اس کی لو نے

بھوک کے نام پر ایک شکستہ آواز کو

راکھ میں لپیٹ کر

رات کی زبان پر رکھ دیا

میں نے وقت کے بوسیدہ سینے پر ہاتھ رکھا

وہاں دھڑکن نہیں،

صرف تھوکی گئی تمناؤں کی نمی تھی

سچ نے ایک پھٹا ہوا کوٹ پہنا

اور جھوٹ

سرمہ بن کر آنکھوں میں چمکتا رہا

غزہ بھوک سے لڑتا رہا

رات نے

میرے خواب کے کان میں سرگوشی کی:

“تو ابھی راکھ نہیں ہوئی

پر میں تھوک دوں گی تجھے

ہر اُس لمحے پر

جو سچ بولنے سے ڈرتا ہے۔”

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.