قاتل ۔۔۔۔ ژاں پال سارتر
Jean-Paul Charles Aymard Sartre was a French philosopher, playwright, novelist, political activist, biographer, and literary critic.
قاتل
( ژاں پال سارتر )
لندن کی عدالت میں کل ایک غیر معمولی مقدمہ پیش ہونے والا ہے۔ مجرم کے جرم کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں اور ساتھ ہی وہ مقدمہ جیت جائے گا، اس میں بھی شبہ نہیں۔ مختصراً یہ کہ اس غیر معمولی واردات کا خلاصہ اس طرح ہے۔
۲۰؍مئی کی بات ہے۔ لندن کے مشہور معروف ڈاکٹر ہیلیڈن جو کہ پھیپھڑوں کے ماہر ہیں۔کے دو بڑے ہال مریضوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہر مریض کے ہاتھ میں ایک کارڈ ہے۔ جس پر نمبر لکھا ہوا ہے۔ بھیڑ تو ہر روز ایسی ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ سینکڑوں تپِ دق کے مریضوں کو اس مرض سے ڈاکٹر ہیلیڈن ہِل نے شفا یاب کیا ہے۔
ہال کے چاروں طرف شیشے کی کھڑکیوں اوردروازے پر چینی ریشم کا لہراتا ہوا پردہ ہے۔ اندرونی دیوار سے لگے ہوئے بڑے بڑے جاپانی گملے ہیں جن میں مختلف ممالک میں پیدا ہونے والے رنگ برنگی موسمی پھولوں کے بڑے بڑے پودے قرینے سے لگے ہوئے ہیں اور ان سب کے درمیان میں ایک بڑی سی میز کے سامنے ابھی ڈاکٹر ہیلیڈن ہل آکر بیٹھے ہیں۔ چہرہ اطمینان و سکون سے دمک رہا ہے۔ آنکھوں میں زندگی کی چمک ہے۔ سامنے ان کا اسسٹنٹ بیٹھا ہے۔ جو آنے والے مریضوں کا مختصر تعارف ڈاکٹر کے حکم کے مطابق شارٹ ہینڈ میں تحریر کردیتا ہے۔ داخلی دروازے پر ، زینے کے اوپر ، ڈاکٹر کا اردلی لال مخمل کی وردی زیب تن کیے ، چمکدار پٹہ، بلے والی ٹوپی اور دائیں ہاتھ کی دونوں انگلیوں میں سونے کی انگوٹھیاں پہنے کھڑا ہے۔ اس کی دونوں کلائیوں میں سے ایک میں عیسیٰ مسیح اور دوسری کلائی میں ایک برہنہ پری گدے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر کے بولنے کے ساتھ ہی کمزور تپ دق کے مریضوں کو جن کا ٹیسٹ ہوچکا ہے۔ اپنے مضبوط وتوانا ہاتھوں کا سہارادے کر باہر لے جانااور وہاں سے ایک خاص قسم کی ریسٹ چیئر پر بٹھا کر لفٹ کی مدد سے انھیں نیچے پہنچا دینااس کی ڈیوٹی ہے۔
مریض آتے ہیں۔ کمزور ، لاغر ، خوفزدہ ، آنکھیں اور سینہ اندر کو دھنسا ہوا اور ایک ہاتھ میں اتارے ہوئے کپڑے لیے۔ ان کے آتے ہی ڈاکٹر ہِل ، پلے کی میٹر اور چھوٹی نلی کے ذریعے ان کی چھاتی اور پیٹھ کامعائنہ کرتے ہیں۔ ٹھک ، ٹھک ، ٹھک ۔۔۔۔۔سانس لیجئے ۔ ہاں ! ذرا اور زور سے۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے دو سکنڈ بعد ہی نسخہ تحریر کرتے ہیں اور چند سکینڈ ہی میں لکھ لیتے ہیں۔ ہاں، اس کے بعد کس کا نمبر ہے؟ گذشتہ تین برسوں سے یہی عمل جاری ہے۔ اسی طرح ہر روز صبح نو بجے سے بارہ بجے تک تپِ دِق کے مریضوں کا قافلہ ایک ایک کرکے آتا ہے اور اپنی اپنی زندگی و موت کا نسخہ لیے لوٹ جاتا ہے ۔ پھر آتا ہے ، پھر لوٹ جاتا ہے۔
اس عمل کے چلتے ہوئے ایک روز بیس مئی کو ٹھیک نو بجے ایک مریض ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوا۔ دراز قد ، نیم برہنہ اور دیکھنے میں ہڈّیوں کا چلتا پھرتا ڈھانچہ۔ اس کی آنکھوں کی پُتلیاں بے جان سی نظر آرہی تھیں۔ گال دھنس کر اندر چلے گئے تھے اور سینہ کھلا ہوا تھا، جیسے چمڑے سے ڈھکا ہوا ہڈّیوں کا پنجر۔ گوشت سے عاری اس کے بائیں بازو کی چمڑی نیلی پڑگئی تھی۔ وہ لمبے لمبے پائوں سے کانپتے ہوئے آیا، گملے میں لگے ہوئے ایک جاپانی پھولدار پودے کی مضبوط شاخ کو پکڑ کر کھڑا ہوگیا اور زور زور سے کھانسنے لگا۔ کھانسنے کے ساتھ ہی ساتھ اس کا سینہ اٹھنے بیٹھنے لگا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اب مرا یا تب مرا۔ کھانسی کا دورہ پل بھر کو رُکا تو اردلی نے اسے لاکر ڈاکٹر کے سامنے بٹھادیا۔
حسبِ معمول مختصراً جانچ کرکے ڈاکٹر نے ناامیدی کے لہجے میں کہا۔’’ نا ۔۔۔۔۔۔۔۔نا ! کوئی امید نہیں ہے۔ پورا بایاں پھیپھڑا بے کار ہوچکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور، دائیں کی بھی وہی حالت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
مریض نے تشکیک اور خوفزدہ ہوکر لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔’’ ڈاکٹر ، کوئی امید۔۔۔۔۔۔۔؟ ‘‘ اس کے لہجے سے لگ رہا تھا جیسے اسے اس دنیا میں ابھی بہت کچھ کرنا ہے اور صرف زندہ رہنے سے ہی وہ ممکن ہے۔
ان کے بعد کس کا نمبر ہے؟ یہ سنتے ہی اردلی آکر مریض کو لے جانے والا ہی تھا کہ مریض کے خوفزدہ چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے ڈاکٹر نے اپنی پیشانی کو دائیں ہاتھ سے سہلایا ، پھر مٹھی بنا کر ٹھہوکا دیتے ہوئے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔’’ زندہ رہنے کی بڑی چاہ ہے۔۔۔۔۔۔ کیا آپ بہت دولت مند ہیں؟‘‘
مریض کی جان میں جان آئی۔ اس نے اپنی دھنسی ہوئی آنکھوں کو بڑی کوشش کے بعد پھیلایا اور رُندھے ہوئے لہجے میں کہا’’ہاں ، ڈاکٹر میں کروڑ پتی ہوں۔ دولت کی کوئی کمی نہیں ہے۔‘‘
’’تب تو آپ ایک کام کیجئے۔۔۔۔۔۔ ‘‘ ڈاکٹر نے کرسی سے ذرا اٹھنے کا تاثر دیتے ہوئے کہا۔’’ آپ اسی ایمبولینس گاڑی سے سیدھااسٹیشن چلے جائیے۔ وہاں سے گیارہ بجے والی ایکسپریس سے ’ڈوور‘جائیے اور وہاں سے بذریعہ جہاز ’کیلیس‘ پھر ’مارسائی‘۔ وہاں سے گرم سلیپنگ کار میں ’نائیس ‘جائیے ۔ بس وہیں آپ رہیے اور چھ مہینے تک روٹی، شراب ، گوشت وغیرہ کچھ نہیں صرف ’واٹر کریش‘ لیجئے۔ ایک دن کے گیپ سے چمچہ بھر برساتی پانی میں دوچار بوند آیوڈین ملاکر پیاکیجئے۔ دیکھئے واٹر کریش کے سوا کچھ نہیں۔ اچھی طرح سے اسے چھان کر۔۔۔۔۔ ہاں، میں آپ کو زیادہ پُرامید تو نہیں کرسکتا، صرف ایک موقع سمجھ لیجئے۔ اس مفروضی طریقۂ علاج کے بارے میں ، میں نے بہت سُنا ہے۔ مگر اس سے اچھا ہونا ، بیماری سے نجات پانا مجھے نا ممکن ہی لگتا ہے۔ پھر بھی آپ سے کہہ رہا ہوں، جاکر دیکھئے۔ آگے قسمت ، اگر اچھے ہوگئے تو ٹھیک ہے نہیں تو اور کیا۔۔۔۔۔۔۔ آزمائیے۔ دنیا میں کئی بار ناممکن بھی ممکن ہوجاتا ہے۔ اچھا ، اب دوسرا نمبر کس کا ہے؟ ‘‘
مریض کو امید کی کرن نظر آئی۔ ڈاکٹر کا بار بار شکریہ اداکرتے ہوئے وہ اردلی کے ساتھ باہر چلاگیا۔ اس واقعہ کے چھ ماہ بعد دسمبر کی تیسری تاریخ کو ٹھیک نو بجے قیمتی فر کالباس زیب تن کیے ہوئے ایک قوی الحبثہ آدمی بنا نمبر کارڈ لیے سیدھے ڈاکٹر ہِل کے کمرے میں حاضر ہوا۔ بھرے بازو،بڑی بڑی بھوری آنکھیں، چوڑی چکلی چھاتی اور مضبوط قدم ۔ لگتا تھا، پریوں کی کہانیوں کا کوئی راکشش آپہنچا ہو۔
ڈاکٹر صاحب ابھی ابھی آکر کمرے میں بیٹھے تھے اور لبادہ نما کالا اونی کوٹ پہنے ہوئے تھے۔ صبح کی ہلکی گلابی سردی سے ان کا بدن کپکپاتا ہوا نظر آرہا تھا۔ اس دراز قد آدمی نے آتے ہی اپنی مضبوط بانہوں میں کسی بچّے کی طرح ڈاکٹر کو اٹھا لیااور بھیگی ہوئی پلکوں کے ساتھ بغل گیر ہوکر انھیں آرام کرسی پر بٹھادیا۔ ڈاکٹر ہِل کی حالت اس وقت بالکل عجیب سی ہورہی تھی۔ ایسا لگ رہاتھا کہ ان کی سانس ہی اُکھڑ جائے گی۔
اس دراز قد آدمی نے ڈاکٹر کو اپنی جانب حیرت و استعجاب سے دیکھتے ہوئے پایا تو اس نے اونچی آواز میں درخواست کی ۔’’ کتنا چاہیے آپ کو؟ بیس لاکھ ؟ تیس لاکھ؟‘‘
ڈاکٹر خاموش ہی رہے، ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ وہ آدمی کہتا رہا۔’’ میں آپ کی ہی وجہ سے آج سانس لے رہا ہوں۔ آج آپ ہی کی وجہ سے میں دوبارہ اس قابل ہوا ہوں کہ اس دنیا کی ساری خوشیاں اپنے دامن میں سمیٹ سکوں۔ ڈاکٹر، میں اپنی زندگی کے لیے آپ کا قرض دار ہوں۔ آپ نے مجھے نئی زندگی عطاکی ہے۔۔۔۔۔کہئے ۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ کی خدمت کے لیے حاضر ہوں۔ بلا جھجھک مانگیئے ۔ میرے پاس دولت کی کمی نہیں۔۔۔۔۔۔ اپنا سب کچھ دے کر بھی میں آپ کا احسان نہیں چکا سکتا۔ پھر بھی جو ہوسکے، وہ کرنے کے لیے میرا دل بے چین ہے۔ ڈاکٹر حکم دیجئے۔ آپ جو بھی چاہیں؟‘‘
چند لمحوں کے بعد خود پر قابو پاتے پاتے ڈاکٹر نے اردلی کی جانب مخاطب ہوکر کہا۔’’ یہ کون پاگل آپہنچا ہے؟ اسے باہر نکالو۔‘‘
’’ارے ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ، نہیں۔۔۔۔۔‘‘ کہہ کر اس آدمی نے کسی بے پناہ طاقتور آدمی کی طرح اس قدر زور سے میز پر مکّا مارا کہ اردلی اپنی جگہ پر ہی ٹھہر گیا اور خوفزدہ ہوکراسے دیکھنے لگا۔
اس نے پھر سے کہنا شروع کیا۔ ’’ڈاکٹر، آپ نے مجھے اب تک شاید پہچانا نہیں ہے؟ میں جھوٹ نہیں بولتا۔ دراصل آپ میری زندگی کے محافظ ہیں۔ آپ ہی نے مجھے موت کے منہ سے باہر نکالا ہے۔ میں وہی آدمی ہوں، جسے آپ نے ’نائیس ‘بھیجا تھا اور صرف ’واٹر کریش‘ استعمال کرنے کا حکم دیاتھا۔ میں وہی بد قسمت ہڈّیوں کا ڈھانچا ہوں جسے آپ نے کہاتھا کہ دونوں پھیپھڑے بے کار ہوچکے ہیں۔ ’نائیس‘ میں واٹر کریش اور صرف واٹر کریش کے سہارے میںاتنے دن رہا ہوں۔ اسی کے سبب آج مجھے آپ اس روپ میں دیکھ رہے ہیں۔ یہ سب آپ کے سُجھائے ہوئے طریقۂ علاج کا اثر ہے اور یقین نہ ہوتو یہ دیکھئے۔
یہ کہہ کر اس نے اپنے سینے پر زور زور سے مکّے مارنا شروع کردیا۔ یقینی طور سے اِن مکّوں کی برسات سے کسی کی بھی حالت غیر ہوسکتی تھی، مگر اس کے چوڑے چکلے سینے پر جیسے کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔ کچھ لمحوں تک ڈاکٹر حیرت سے دیکھتے رہے۔ پھر اس کی طرف دھیان سے دیکھ کر اچانک تعجب سے کھڑے ہوتے ہوئے بولے۔’’ کیا آپ سچ مچ وہی کروڑ پتی ہیں، جسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں ، ڈاکٹر! میں وہی ۔۔۔۔۔۔ وہی ہوں۔‘‘ اس نے بلند آواز سے کہا۔ ’’ کل ہی میں جہاز سے اترا۔ اترتے ہی سب سے پہلے آپ کے ایک قدِّ آدم مجسمے کا آرڈر دے آیا اور اب ویسٹ مِنسٹر میں آپ کی قبر کا انتظام کررہا ہوں۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ تپاک سے ایک بڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔ اس کے بیٹھنے سے صوفے کے اسپرنگ چرمرائے کچھ منٹ تک ڈاکٹر اس کی طرف تحقیقی نقطۂ نظر سے دیکھ کر کچھ تلاش کرتے رہے، پھر سیکریٹری اور اردلی کو حکم دیا ۔ وہ دونوں باہر چلے گئے۔ ڈاکٹر اُس آدمی کی طرف اداس نظروں سے دیکھتے رہے اور فوراً سنجیدگی سے انھوں نے اپنی نظر گڑاتے ہوئے کہا۔’’آپ کے چہرے پر ایک مکھی بیٹھی ہے، اسے اُڑادوں؟‘‘
اتنا کہہ کر ڈاکٹر جھکے اور اپنی جیب سے ریوالور نکالی اور مسلسل تین فائر کردیئے۔ لمحہ بھر میں ہی سر سے خون کا فوارہ ابل پڑا اور وہ آدمی وہیں صوفے پر ڈھیر ہوگیا۔ کچھ دیراُس نے ہاتھ پیر جھٹکے اور پھر ساکت ہوگیا۔ ڈاکٹر یہ سب بڑے تجسس سے دیکھتے رہے۔ ان کے چہرے پر کئی تاثرات ابھرے اور مٹ گئے۔ مگر تجسس قائم رہا۔ اس کے فوراً بعدانھوں نے اپنا سب سے تیز نشتر نکالا اور اس کا سینہ چیر ڈلا اور پھیپھڑے نکال کر اپنی میز پر رکھ کر بیٹھ گئے۔
تھوڑی دیر بعد جب پولیس ، ڈاکٹر کو اپنے ساتھ چلنے کا وارنٹ لے کر آئی ، اُس وقت وہ اپنی تجربہ گاہ میں خون سے لتھڑے ہوئے پھیپھڑوں پر ’واٹر کریش‘ کے اثرات کا تجربہ کررہے تھے۔
پولیس انسپکٹر نے جب ان کے پاس جاکر اپنے ساتھ چلنے کی درخواست کی تو ڈاکٹر نے خاموشی سے اٹھ کر اسے دیکھا اور کہا ۔’’ میں نے اس آدمی کاقتل جان بوجھ کر کیا ہے کیونکہ بنا اس کا سینہ چیرکر دیکھے یہ جاننا ناممکن تھا کہ تپِ دِق جیسے مرض سے جو پھیپھڑے بالکل ناکارہ ہوگئے تھے وہ دوبارہ کس طرح بہتر ہوسکتے ہیں۔ اس لیے میں بلا خوف و خطر یہ اقرار کرتا ہوں کہ دنیا اور بنی نوع انسان کے مفاد کی خاطر ، ایک عظیم فرض کی ادائیگی کے لیے میں نے ایک معمولی انسانی جان کو قربان کرنا بہتر سمجھا ، اور اسے مارڈالا۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ڈاکٹر ہِل ذاتی ضمانت پر حوالات سے رہائی حاصل کرچکے ہیں، کیونکہ ان کی رہائی انسانیت کے لیے سود مند ہے۔ اس مقدمے کی پیشی کل عدالت میں ہوگی۔ جلد ہی اس مقدمے کی دھوم یورپ اور ساری دنیا میں مچ جائے گی۔
جہاں تک ہمارا یقین ہے، اس چھوٹے سے جرم کے لیے اس انسانیت نواز عظیم ڈاکٹر ہِل کو نیوگیٹ کے پھانسی کے تختے پر چڑھنا نہیں ہوگا۔ آنے والے کل کی خاطر انسان سے بے پناہ محبت کرنے والے اور اس کی خاطر آج ایک حقیر سے آدمی کا قتل کرنے والے ، ڈاکٹر ہِل کو زندہ رکھنے کے لیے اس دنیا کے عظیم سائنس داں اپنی جانب سے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔
What a novelty of thought and idealism !
جی۔ درست