الاو ۔۔۔ نجم الحسنین حیدر
اَلاوء
(نجم الحسنین حیدر)
کنول کے پھولوں، بنفشی خوابوں
کو روز دفتر کی بوڑھی میزوں
کے چٹخے کونوں سے چھلنی کرنا
شراب رت میں بھی دہکی خواہش
کا اک الاو پہن کے پھرنا
خود اپنی آنکھوں میں خاک بھرنا
سفید کاغذ پہ اتری کونجوں
کے زخمی سینوں کی آگ پینا
عذاب ِ حسن و ادا کو سہنا
بدن دریدہ اداس لوگوں
کے خشک ہونٹوں پہ جمتی آہوں سے
دل کی جھیلوں میں خون بھرنا
نہ بندگی ہے نہ کافری ہے
یہ شاعری ہے، یہ زندگی ہے
Facebook Comments Box