چندہ ۔۔۔ سیمیں درانی
چندہ
سیمیں درانی
نہ جانے کہاں سے دوبارہ آکر وہ کچرے کے ڈھیر پہ بے سدھ پڑی تھی۔ ملگجے بال۔ صدیوں کی میل و غلاظت بھری نگاہوں سے بدبو کے بھبوکے اُڑاتا جسم جو اس بات کی غمازی کر رہا تھا کہ چرند و پرند کو اس اشرفالمخلوقات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ شاید ہر حیوان اسکو اپنی برادری کا حصہ سمجھتے اسکو رزق میں بھی شریک کرتا رہا کیونکہ اسکے لمبے نوکیلے سیاہ ناخنوں والی مخروط انگلیوں میں وہی روٹی کا ٹکڑا تھا جو پاس بیٹھی کتیا کے پلوں کے لیے دودھ کا وسیلہ بنا تھا اور وہ آنکھیں بند کئے مامتا کے سرور میں اس تکلیف کا بھی مزہ لوٹ رہی تھی جو اسکے بچے دودھ چوسنے کی سعی میں اسکو پہنچا رہے تھے۔
جمعہ کا دن تھا۔ سب بھاگ دوڑ میں مصروف۔ دودھیا سفید لباسوں میں دلوں کی کالک چھپائے ایک دوسرے سے جنت چھیننے کا لالچ لئے ،باوضو اور مسنون انداز میں سجے سجائے لوگ،گاڑیاں ٹکراتے،بائیک گھماتے پیدل افراد پہ کیچڑ اڑاتے ایک دوسرے کو گالیاں بکتے خطبہ سننے کی جلدی میں آپس میں ٹکراتے پھر رہے تھے۔
اسی دوران ایک گاڑی نے جب جلدی نکلنے کی خاطر ایکسیلیریٹر پہ زور دیا تو پہیے گھوم کر کیچڑ میں پھنس گئے۔ اپنے مسلک کی پگڑیاں سجائے ایک ٹولی نعتوں کا ہدیہ عقیدت پیش کرتی، جب پاس سےگزری تو ڈرائیور نے مدد طلب کی۔ ًبھائی صاحب دھکا تو لگا دیں۔ اس ٹولی کی لے ٹوٹ گئی۔ ہمارے کپڑے ناپاک ہو جائیں گےً۔ دوبارہ لے کو جوڑا گیا اور یہ جا وہ جا۔
جمعہ ختم ہوا تو تمام اطراف گاڑیوں کا اژدہام تھا۔ غلط پارکنگ،ون وے،ہر قسم کے قوانین توڑتے ایک دوسرے کو زبانی بھنبھوڑتے لوگ،اپنا اپنا ہفتے کا ثواب کھاتہ بھرےواپس جانے کو لوٹے۔
اسی دوران اس نیم برہنہ جسم نے کراہنا شروع کردیا۔ پھر آہستہ آہستہ اسکی آواز ، ہلکی چیخوں میں بدلتی گئی اور لوگوں کی توجہ کچرے کے ڈھیر میں پڑی اس پگلی پہ پڑی جس کی برہنہ ٹانگوں کے درمیان سے خون جاری تھا۔ کتیا اور اسکے بچے جا چکے تھے۔ اب انسان اسکے آس پاس جمع ہونا شروع ہو گئے۔ وہ درد سے کرلاتی رہی،مجمع بڑھتا رہا۔ جامع مسجد کے عقب اس کچرے کے ڈھیر پہ جب ایک وجود کو اس حال میں پایا تو لوگ مجمع کی شکل اختیار کر گئے۔
ًماہواری ہے شاید۔ ایک دانا نے نکتہ اٹھایا۔ دوسری جانب سے سوال آیا پھر یہ ڈھونگ کی کیا ضرورت۔ اوپر سے ستر پوشی بھی نہیں۔ استغفراللہ۔ اب مجمع بہت بڑھ گیا۔ ساتھ ہی اس بے ستر کی درد بھری کراہٹ۔ اب باریش حضرات بھی اس ہجوم میں شامل ہوئے اور حکم دیا۔ تمام نوجوان لڑکے باہر کی جانب کھڑیں ہوں اور بچوں کو یہاں سے نکال دیا جائے۔ حد ہوتی ہے بے شرمی کی۔ ایک تو بے ستر۔ اوپر سےبھرے مجمع میں یہ حرکتیں۔ بھیا۔ ہم بہن بیٹیوں والے ہیں۔ کیا اثرات مرتب ہونگے اس بے شرمی کے۔ سر عام ماہواری میں اسکو یہ ناٹک کرنے کی سوجھی۔ کیا دروازہ کھٹکھٹاتی تو کھانا نہ ملتا۔ اور تو آج ہے بھی جمعہ کا مبارک روز۔ اور کچھ نہیں تو اسکا سر ہی ڈھانپ دیتے کسی پرانی چادر سے۔ بالکل بالکل جناب۔ کیوں نہیں۔ چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔
ًارے یہ وہی پگلی ہے ناں جو کچھ ماہ قبل اس علاقے میں آئی تھی اور رات کو اسکی چیخ و پکار کے بعد اسکو باقاعدہ کھانا کھلایا کر اور سرڈھانپنے کو اپنی گھر والی کی اوڑھنی دی تھی میں نے جناب۔ رمضان کا ماہ تھا۔ میں قیام کے بعد مسجد سے واپس جا رہا تھا۔ دوسرے دن یہ غائب تھی۔ سبحان اللہ۔ مجمع پکار اٹھا۔
اب اس بے ستر عورت نے باقاعدہ چلانا شروع کردیا۔ گٹھڑی سی بنی اپنے پیٹ کو تھامے دائیں بائیں سرپٹختی بے ستر عورت۔
تمام مجمع اس کی ٹانگوں کے درمیان خون کی روانی پہ گہری نگاہ رکھے تھا۔ کچھ بزرگ افراد نے اپنی جہاندیدگی کے بل بوتے پہ اعلان فرمایا، یہ توزچگی کا معاملہ ہے۔ تو کیا اس پاپن کو یہی جگہ ملی تھی اپنا حرام جننے کو۔ مسجد کا عین پچھواڑہ؟
اب تمام باوضو افراد کو طیش آگیا۔ اور مغلظات کی بوچھاڑ اور بے ستر کی چیخیں آپس میں دست و گریباں ہو گئیں۔ اچانک اسنے ایک زوردار چیخ ماری اور بے سدھ ہو گئی۔ تمام تر مجمع جس کی آنکھیں اسکے ستر پہ گڑی تھیں یکسر خاموش ہوگیا۔ ایک جلالی طبع والے بزرگ بھنا کے بولے۔ جن دیا فاحشہ نے اپنے حرامی کو۔
اسکی۔چیخیں تھم چکی تھیں۔ چاروں جانب سناٹا چھا گیا۔ اتنے میں مولوی صاحب مسجد کو تالا لگا کرباہر نکلے اور پچھواڑے کی جانب سےگھر کی راہ لی تو مجمع کو دیکھ کر ٹھٹکے۔ سب کو چیرتے آگے بڑھے تو اس بے ستر عورت کی ٹانگوں کے بیچ خون میں لپٹا۔ ایک نامکمل دھڑ پڑا تھا۔ اور بے ستر خاموشی سے آسمان پہ آنکھیں ٹکائے۔ بے جان دھڑ کو جننے کے بعد اپنے گناؤں کا حساب دینے کو تیار تھی۔
مولوی صاحب اپنے کپڑے بچاتے۔ مجمع کی جانب دیکھ کے پکارے اناللہ وانا الیہ راجعون اور اپنے سر سے صافہ اتار کے فرمایا۔ چندہ دیجئے۔ جمعہ کا روزہے۔ اللہ پاک قبول فرمائے۔
تمام مجمع نے بیک وقت آمین بولا اور اپنی اپنی جیبیں ٹٹولنے لگے۔