کنواں ۔۔۔ محمود احمد قاضی۔۔۔تبصرہ ۔۔۔ ثمینہ سید
کنواں ( افسانے )
.محمود احمد قاضی
تبصرہ نگار ؛؛ .ثمینہ سید
حرف جب سے لفظ بننے لگے توکہانی تخلیق ہوئی.لفظ نے جادوئی سانچے میں کہانی کو ڈھالا.ہجر ایک کہانی ہے تو وصل بھی مکمل داستان.حسرت,خواہش,خوشی,غم بیماری,گریز,تعلق ہویا تردد ان کے اندر زمان و مکاں کی تصویر بنتی جاتی ہے.اور یہ تصویر اپنے عہد کی صاف صاف وضاحت کررہی ہوتی ہے.تاریخ پورے حوالوں کے ساتھ تحریر کے اندر سمٹ آتی ہے.ہم تحریر کے اندر کیا اترتے ہیں مانیے اسی دور میں چلے جاتے ہیں.
ایسی ہی ایک افسانوں کی کتاب “کنواں” جسے محمود احمد قاضی نے لکھا ہے.افسانے طویل نہیں ہیں لیکن موضوع میں ایسا تنوع ہے جو زمانوں پہ محیط رہے گا.
وبا کے حوالے سے بہت سی کہانیاں لکھی گئیں
کرونا وائرس سے دنیا بھر میں ہلاکتیں، قرنطینہ اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے حکومتی اقدامات، صحتِ عامّہ کی تنظیموں کی جانب سے آگاہی مہمات جاری ہیں۔ پاکستان میں لاک ڈاؤن اور اس حوالے سے پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں، مگر خوف کی فضا برقرار ہے، کیوں کہ ابھی یہ وبا پوری طرح ختم نہیں ہوئی ہے۔ چند ماہ کے دوران آپ نے متعدد ناولوں اور فلموں کا ذکر سنا یا پڑھا ہو گا جو اسی قسم کی فرضی اور حقیقی وباؤں اور ہلاکتوں کی افسانوی اور فلمی شکل ہیں، لیکن طاعون کی وبا وہ حقیقت ہے جسے برصغیر کے معروف افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی نے نہایت خوبی سے اپنے افسانے میں سمیٹا
راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ “کوارنٹین ” ایک زندہ مثال ہے.وبا کی تباہیوں کی.لوگوں میں فاصلہ,دوری,پرہیز,موت کاخوف اوراپنوں سے نفرت.
محمود احمد قاضی کے یہ افسانے بھی اپنی اس حقیقت کے ساتھ ہمیشہ اہم رہیں گے.آگاہی اور وقت کی ترجمانی کرتے رہیں گے.پہلی کہانی سے ہی دل ودماغ کچھ ہی عرصہ پہلے گزری کیفیات کے چنگل میں پھر سے جا الجھے .کیسے ویران دن تھے.جن کا خوف ابھی تک اپنی شدت برقرار رکھے ہوئے ہے.خطرہ ہنوز ہے.
محمود احمد قاضی نے کرونا” لفظیات” سے ہی اس ماحول کا پورا نقشہ کھینچ ڈالا ہے.پھر “چپ” نے تو چپ ہی لگا دی.اس میں چڑیا کی اداسی نے کتنے گھروں کے سناٹے کو اپنے اندر اتارا.ہانپتی ,تڑپتی رہی بالآخر مرگئی.
ہر طرف موت کا خوف ناچ رہا تھا.شور تھا تو صرف “فاصلہ”,”احتیاط” ان دو لفظوں کا.
“آواز نہیں” میں مصنف لکھتے ہیں.
“ٹیلی ویژن پر پکار ہوتی ہے.یہ فراڈ ہے. کورونا ورونا کچھ نہیں
یہ حکومت کا فنڈز بٹورنے کا ایک اور انداز ہے.ایک مائی ,ایک بابا,ایک لڑکا کسی چینل کے مائک کے آگے نمودار ہوکے بولتے ہیں.ہم بھوکے ہیں!ایک للکار ابھرتی ہے.ہمیں کھانے کے لیے کچھ دو.ہمیں روزگار دو,ہم سے ہماری روزی مت چھینو.”
یہ دوسرا خوف ہے جو سب سے بڑا ہے موت کے خوف سے بھی بڑا.انسان خالی پیٹ تو مرنا بھی گوارا نہیں کرتا.اس لیے وبا کی حقیقت سے ہی مفر کو شعار بنایا جانے لگا.
“سالی ٹیوڈ” میں مرکزی کردار جوکہ گھر کا مرد اور واحد کفیل ہے جو عمر بھر کماتا اور خوشی سے سب کو کھلاتا رہا .جسے پیسہ لگانے اور چیزیں خرید کر لانے میں بھی لطف آتا تھا وہ “کرونا” کا شکار ہوگیا.کچھ اقتباسات اس میں سے
“جب کوئی ہم میں سے شادی کرتا ہے.تو وہ دوسرےفریق کو ایک طرح کا بانڈ بھر کے دیتا ہے.نان نفقہ پوراکرنے کا,ذمہ داری کے احساس کا”
“طبیعتوں کا بعد اپنی جگہ موجود تھا لیکن زندگی کی گاڑی خوب سرک رہی تھی.بچیاں خوش رہتیں .وہ اسکے ساتھ بستر پر دائیں بائیں لیٹ جاتیں,گپیں چلتیں,بیسن کا حلوہ بنتا وہ خوب رغبت سے کھاتا”
پھر “گارسیا” کو اچانک نوبل پرائز ملنے کا ذکر بھی خوب رہا.کہانی آگے چلتی اور بتاتی جاتی ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ زندگی بے کیف,بے مزہ,تنہا اور بندہ غیر اہم ہوکر بس موت کا انتظار کرتا ہے.
پھر قاضی صاحب لکھتے ہیں.
“بات اتنی سی ہے کہ جو بھی کہا جائے دلیل اور جواز کے بغیر نہ کہا جائے.”
“میں تو منٹو نہیں .نہ اس جیسا ہوں لیکن مثال کے لیے کہتا ہوں کہ جتنا زیادہ لکھا اوراچھا لکھا اتنا ہی برا اس کے خلاف کہا بھی گیا.زندہ وہ آج بھی ہے.اور آئندہ بھی رہے گا.زندہ لفظ اپنی اہمیت خود منواتا ہے.”
“ابھی ان دنوں جس ننھے منے سے ذرے نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے.جس نے انسان کی قربت کو دوری میں بدل دیا ہے.”
کہانی “نیگیٹو پازیٹو”سے
“رات ہے,جرنیلی سڑک ہے اور وہ ہے.”
یہ بھی عجیب ماحول کی کہانی ہے کمال منظر نگاری ہے. بوڑھوں کو کرونا ہو رہاہے تو بچاؤ,گریز ,احتیاط ,فاصلہ اور خوف بالکل تنہا کردینے والا مار ہی ڈالنے والا ہے جبکہ بیٹے کو کرونا ہوا تو ماں باپ کی تڑپ دیدنی ہے. سب کے روکنے اور کنوینس کے بند ہونے کے باوجود باپ کا نکل پڑنا .راستوں کی وحشت ,گھٹن ,سناٹا اور حالت بگڑنا قاری کو بھی گرفت میں لے لیتا ہے. باپ رات سے صبح پو پھٹنے تک پیدل چلتا ہے .
“دن کی روشنی نمودار ہونے لگی.راستہ واضح ہوگیا.اسے اطمینان نصیب ہوا.ورنہ رات میں اندھیرے کے جگر کو موبائل فون کی روشنی پاش پاش کرنے سے قاصر رہی تھی.”
منظر اور جزئیات نگاری ہمیں دکھا رہی ہے.واضح طور پر اس شخص کا چہرہ جو گھر سے چپکے سے نکلا ہے جو ویران سڑکوں پر رات کر کے کسی چوری چھپے چلتے ڈھابے تک آیا ہے .جو کچھ دیر آرام کرنے اور کھانے کے دوگنا دام لیتے ہیں.حیران پریشان حال میں آٹھویں دن کی سویر میں وہ بیٹے تک پہنچتا ہے تو بیٹا کیا پوتا بھی پہچان نہیں پاتا .پہلے اسے نہلایا دھلایا گیا ,شیو بنی پھر شیشے والے دروازے سے بار بار گزرنے پر آخر اسے دو میٹر کے فاصلے سے بیٹے کو ہیلو کہنے کی اجازت ملی. لیکن احتیاط,سوشل ڈیسٹینسنگ,پوتے کو دور رکھنا اور خوف کی فضا نے اسے تھکا دیا.بیٹے کا جس دن” نیگیٹو” ٹیسٹ آیا اسی دن اس نے یہاں سے بھی چپکے سے نکلنے کی سوچی .لیکن یہ سوچ ہی رہ گئی اسکا اپنا ٹیسٹ شام تک پازیٹو آچکا تھا.
“وہ سامنے والی دیوار کو یوں دیکھنے لگا جیسے ابھی اسے اپنی نظروں سے چھید دے گا”
“انتظار” سے کچھ اقتباسات آپکو کہانی کے اندر کا ماحول دکھائیں گے.
“بےشمار لوگ دوسرے ممالک میں پھنسے ہوئے تھے.کئیوں کی جیبیں بھی خالی تھیں اور وہ بھوک سے نڈھال تھے.یہاں وہاں ہرجگہ مسائل تھے.اتنے میں کچھ معاہدے طے پاگئے.”
اس میں شادی سے متعلق تمام مراحل کی کرونا کے دنوں کی مشکلات بتائی گئیں .اور تمام مراحل طے پانے کے بعد دولہے کا کرونا میں مبتلا ہونا ایک المناک اختتام ہے.
مرکزی افسانہ “کنواں” میں شروع سے ہی مرکزی کردار کا اپنی کیفیات اور سونگھنے ,چکھنے کی حسیات میں تبدیلی اور پھر کل کی کھانسی یاد کرنا اور خود کو بمشکل سنبھالتا کمرے میں آکر ٹی وی چلانا اور زمانے بھر میں پین ڈیمک کا شور اسے دہلا گیا.وہ لیٹ کر بیوی کو یاد کرنے لگا جو اسکی محبت بننے کے بعد بیوی بھی بن گئی تھی.وہ اب اسکے پاس نہیں تھی.
مجید امجد کی نظم “بن کی چڑیا” نے کہانی کو مزید گہرا اور دلچسپ بنادیا.
یہ ساری درد کی سیاہی سے عبارت کہانیاں ہیں منظر بدلنے پر بھی کیفیت نہیں بدلتی,کسی پل بھی غم خوشی میں نہیں بدلا.اس میں ملاپ کی ,جدائی کی داستانیں محبت کی محتاج نہیں ہیں .بلکہ ایک وبا سب کے مقدر کے فیصلے کررہی ہے.
“اب ضرورت نہیں اور کیہ جاناں میں کون آخری کہانی تک وہی احساسات رہے وہی خوف و ہراس رہا.امید کی کرن ابھی تک نہیں پھوٹی .لیکن امید ہے کہ انسان اس کے آہنی پنجوں سے نکل آئے گا.زندگی اپنے حساب سے اور اپنے وقار کے ساتھ موت تک جائے گی اس وبا کے خوف کے ساتھ نہیں.بگڑتی اور غیر یقینی حالت سے نکل آئے گی.مصنف نے اپنا فرض خوب نبھایا جو یقینی طور پہ زندہ اور یادگار رہے گا.محمود احمد قاضی کے لیے دعاؤں کے ساتھ ساتھ تمام انسانوں کے لیے جو دنیا کے کسی بھی کونے میں ہیں اس وبا سے محفوظ رہنے کی دعا کے ساتھ اپنی بات ختم کرتی ہوں.
نیک خواہشات