میرا جسم اور تمہاری خوش گمانیاں ۔۔۔ رابعہ الربا

میرا جسم اور تمہاری خوش گمانیاں

رابعہ الربا

 مارچ جہاں ہمارے علاقوں میں بہار کی آمد کی نوید لاتا ہے۔ وہیں اس مہینے ایک دن عورت کا بھی آتا ہے، جیسے ہم خواتین کا عالمی دن کہتے اور مانتے ہیں۔ ہمارے ہاں کچھ عرصے سے اس دن عورت مارچ کافی جوش وخروش سے ہوتا ہے۔

میرا خیال ہے کہ اس برس عورت مارچ میں خواتین کی شمولیت گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زیادہ رہے گی۔ ہر سال کسی نئے مسئلے کو اجاگر کرتا کوئی نیا نعرہ مساتہ آتا ہے اور مردوں کی بڑی تعداد شاید یہ سمجھ کر بلبلا اٹھتی ہے کہ “ہے اپنا دل تو آوارہ ” اصل میں خوش گمانی و خوش فہمی یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ارے یار، تمہارا دل آوارہ ہے تو مجھ پہ کیوں نہیں آ جاتا، مجھے آوارہ دل ہی تو چاہیے کیونکہ میں نے شادی تو اماں کی پسند سے ہی کرنا ہے  لیکن آوارگی کے لیے تم سے اچھا کوئی نہیں۔

اب بات چل نکلی ہے تو دیکھیے کہاں تک پہنچے۔ کئی برسوں سے ایک نعرہ دل پہ برچھی کی طرح لگتا ہے۔ وہ ہے، “میرا جسم میری مرضی”۔

 یہاں سے خوش فہمیوں کے خواب شروع ہوتے ہیں، جن کی تفہیم ہر مرد اپنی وسعت قلب کے مطابق کرتا ہے کیونکہ جسم میں ہم دماغ کا استعمال کم ہی کرتے ہیں حالانکہ اصل مادہ وہیں سے پیدا ہو کر جسم کی پوروں میں اترتا ہے۔:

ہماری پیاری ’مردانہ فوج‘ کا شاید خیال ہے کہ ہم کوئی مادر پدر آزادی چاہ رہے ہیں، جن چاہتوں کے تیر ہم پہ گرائے جا رہے ہیں وہ تمنا یار تو ہماری پیاری پیاری ’مردانہ فوج‘ کی ہے۔

ان کی خوش فہمی و گمانی ہے کہ یہ آزاد عورتیں ہمیں بھی جسم کی آزادی دے دیں گی اور ہر گلی، ہر موڑ پہ کوئی نیا معرکہ عشق و محبت ہو گا۔ نسل انسانی بنا ذمہ داری کے اپنے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے ہم سے شادی کی زنجیر چھین لے گی۔

ہر طرف آزاد پرندے ہو ں گے، جنت ہی جنت کے مزے ہوں گے، شراب ہو گی، کباب ہوں گے۔ شباب ہو گا، حسن ہو گا، جام ہو گا، رقص ہو گا اور ہاں موسیقی بھی تو ہو گی۔

میں ہوں گا ، تم ہو گی، تم بھی ہوگی اور تم، تم ، تم سب ہو گی۔

دفتر جاتے کوئی اور محلہ ہو گا، کاروبار سے آتے کوئی نیا فلیٹ ہو گا،  رات کو یاد ستائے گی تو تم فون کرو گی، ‘جانو آ جائیں ناں’ اور میں بھاگتا ہوا، بستر بیوی سے نکل کھڑا ہوں گا۔ راتیں شب راتیں اور دن باراتوں کے ہوں گے۔

مغرب کے پب تو بے چاری ان عورتوں کی روزی کا اڈا ہوتے ہیں۔ ہماری عورتیں تو بس محبت کے فریب پہ بھی کام چلا لیتی ہیں۔ ہماری بیویوں کو بھی برا نہیں سمجھتیں، یہ مغرب کی عورت تو ہے نہیں، جس کے حقوق ان کی ریاست دیتی ہے۔ یہ تو ہماری عورت ہے، اس کا ٹیکس تو اس کے ابا بھی نہیں دیتا۔

 اس کا مطلب موج مستی کی کوئی  قیامت ہو گی اور ہم ہوں گے۔

بس اسی لیے یہ بے چارے چیخ چیخ کے مغرب کو گالیاں دے رہے ہیں اور ان عورتوں کو روک رہے ہیں کہ اپنے جسم کی بات نا کرو کیونکہ مجھے جسم کا صرف ایک ہی مطلب سمجھ آتا ہے۔

اور اپنی مرضی کی بات نا کرو۔ مجھے لگتا ہے تم مجھے چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلی جاو گی۔

تو میری پیاری سی سویٹ کیوٹ اور نان کیوٹ ’مردانہ فوج‘، حوصلہ رکھیں۔ دل بڑا کیجیے اور سنیے کہ جسم کے معنی صرف وہ نہیں جو آپ کی خوش فہمی و خوش گمانی میں ہے۔ ہم آپ کے خیالی پلاؤ کو دم لگنے سے قبل آگ بھجا دیں تو اچھا ہے۔

جب میں چند ماہ کی ہوتی ہوں تو مجھے شفقت والے ہی رشتے بعض اوقات ٹٹولنے لگتے ہیں کہ میرے اندر کی عورت کہاں ہے۔

تب میں کیا بتاؤں کہ کس ذہنی و جسمانی اذیت سے گزرتی ہوں کیونکہ برا لمس تو مجھے کوکھ میں بھی محسوس ہو جاتا ہے۔ کیا میں نا کہو کہ یہ میرا جسم ہے؟

چند سال کی ہوتی ہوں تو میرے فراک کے نیچے سے آتے ہاتھوں اور آنکھوں سے مجھے تلاش کیا جاتا ہے۔ یہ وہ دوسرا لمحہ ہوتا ہے جب ڈر میرے اندر گھر کر جاتا ہے۔

کیا اب بھی نا کہوں کہ یہ میرا جسم ہے؟

پھر چند سال اور بڑی ہوتی ہوں بلوغت کی عمر قریب آتی ہے۔ میں اپنے جسم کے تغیر سے پہلے ہی ذہنی مطابقت نہیں کر پا رہی ہوتی کہ مرد ہی کیا عورتوں کی نگاہیں بھی اس تغیر کو حسرت و تمنا بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے اسے چھونے کی متمنی ہوتی ہیں۔

کیا اب بھی نا کہوں کہ خدارا یہ میرا جسم ہے؟

میں پہلے ہی سمجھ نہیں پا رہی یہ سب تبدیلیاں کیوں پیدا ہو رہی ہی؟ کوئی مجھے حوصلہ دینے اور سمجھانے والا نہیں ہوتا کہ پل بھر کو مجھے شفقت سے پاس بیٹھا لے اور سینے سے لگا کر کہے، ’’اب تم ایک منصب انسانی پہ فائز ہونے چلی ہو۔ کندھے جھکانے نہیں سیدھے رکھنے ہیں۔ یہ برائی نہیں یہ تو تن پہ کرم ہے۔ قدرت نے تمہارے جسم میں باغ لگا دیے ہیں۔ پھل لگیں گے اور نسلیں فیض اٹھائیں گی‘‘۔

اور وہ مجھے یہ بھی بتائے، ‘‘اور کوئی اس کے سایہ میں اپنی تھکن کو محبت میں بھی بدلے گا اور پھر وہ تمہارے پھول میں لگے بیج کی حفاظت کرے گا کہ جب اس کو ضرورت تھی تم سایہ تھی، اب تم کو ضرورت ہے تو وہ بدلی بن گیا ہے۔‘‘

مگر نہیں ایسا  نہیں ہوتا۔ مجھے کہا جاتا ہے شرم نہیں آتی۔ تو میرے اندر سوال اٹھتا ہے کیا بنانے والے کو شرم نہیں آ رہی کہ میرے ساتھ ایسا کیوں کر رہا۔

مجھے کہا جاتا ہے کہ اب میری آبشاریں سراب کرنے کے قابل ہو گئی ہیں تو میں سراپا گنا ہ ہوں۔ میں گناہ ہوں تو میرے پاس کیوں آتے ہو، مجھے بہانوں سے چھو کے کیوں گزر جاتے ہو؟

کیا اب بھی خاموش رہوں، یہ میرا جسم ہے۔ اب تو میرا جسم بھی رونے لگتا ہے۔

اور بڑی ہوتی ہوں تو تمہارے پیغام آنے لگتے ہیں کہ کوئی چوٹی ہے جس کو تم نے محبت و عشق کے نام پہ تنہائی میں سر کرنا ہے۔

تم اپنے لفظوں اپنے لہجوں اپنی نگاہوں سے محبت کے وہ وار کرتے ہو کہ مجھے نہیں پتا لگتا محبت ہے کیا؟ کوئی بد گمانی کہتی ہے شاید یہی محبت ہو گی۔

تم مجھے چھوتے ہو تو میرا پورا جسم رونے لگتا یے۔ اتنا گندا لمس؟

اب بھی نا کہوں کہ میں ایسی محبت سے آشنا نہیں ہونا چاہتی، یہ میرا جسم ہے؟

مجھے اس کا انتظار کرنے دو، جو میری طرح اس سب سے انجان ہو گا۔

لیکن تم کو یہ جسم محبت کے نام پہ مفت ملنا چاہیے، کسی رسم، کسی رشتے کے بنا، تاکہ تم اس کی چیڑ پھاڑ قصائی کی طرح چند گھنٹوں میں بلکہ ساعتوں میں کر دو۔

کیا ابھی بھی نا کہوں کہ میرے جسم پہ میرا حق ہے؟

میں خود کو اس قصائی کے حوالے نہیں کرنا چاہتی بلکہ کسی دہقان کو دینا چاہتی ہوں۔

جو اپنے لمس سے کدھائی، صفائی اور بیج بونے تک کے عمل تک مرحلہ وار گزرتا ہے اور اس کے بعد فصل پکنے تک راتوں کو جاگ کر میری پیاس کا بھی خیال کرتا ہے۔

میں اور بڑی ہوتی ہوں تو یہ رفتار تمنا بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اتنی کہ مجھے مجھ سے نفرت ہونے لگتی ہے، اس جسم کے دیدار کی تمنا تمہاری خواہش کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے۔

میں قابو نہیں بھی آتی تو تم مجھ پہ گندے الزامات لگاتے ہو۔ مجھے فتح کر کے بنجر اور قابض زمینوں کی طرح چھوڑ دینا چاہتے ہو۔

کیا اب بھی نا چیخوں کہ نہیں، یہ میرا جسم ہے؟

مجھے اسے تمہاری آنکھوں کے نور کے اضافے کا سبب نہیں بنانا۔

یہ میرا جسم ہے، مجھے بھی اپنے باپ کے شفقت بھرے لمس کی ضرورت ہے۔ مجھے بھی اپنے بھائیوں کے اعتمادی لمس کی ضرورت ہے۔ اگر یہ دونوں طاقتیں مجھے بھی طاقت عطا کر دیں تو میں پورے اعتماد کے ساتھ اس کی طاقت بن جاؤں گی، جس کو میں چاہتی ہوں اور جس کی طرف میرا جسم خود لپکتا ہے،  یہ میرا جسم ہے مجھے بھی علم ہے۔ یہ کسی کی طرف مکمل خود سپردگی کی تمنا رکھتا ہے۔

میں تمہاری جبری محبت کے سامنے اپنے جسم کی بے توقیری نہیں کرنا چاہتی۔

کیا ابھی بھی نہ بولوں کہ میرا جسم ہے مجھے پتا ہے؟ یہ آوارگی، بے راہ روی اور گلی گلی نہیں جانا چاہتا۔ تمہاری تنہائیوں کے خواب پورے نہیں کرنا چاہتی۔

 میں بے نام بچے پیدا کر کے گلیوں میں نہیں پھینکنا چاہتی۔

بے گھر کی چاردیواری کے اندر ہی نہیں رہنا چاہتی۔

جسم کا خون اور ہڈیوں کا گودا دے کر درجنوں بچے پیدا کر کے مرنا نہیں چاہتی۔

بیٹے کی خواہش میں بیٹیوں کی قطار میرا جسم بھی چھلنی کرتا ہے جب کہ سپرم تمہارے ہوتے ہیں۔

نہیں چاہتی کہ تم میرے جسم پہ سوداگری کرو۔

کسی مجبوری کے عوض بکنا نہیں چاہتی۔

جب تم نے مجھے صدیوں جسم رکھا ہے، تب تمہارے فلسفے کہاں تھے؟ میں بھی مکمل انسان تھی۔ اب جب میں نے جسم کا نعرہ تم سے بے زار ہو کر لگایا ہے، تم کیسے جاگ گئے ہو؟

میں تمہارے جسم سے بیزار ہو گئی ہوں تو سڑکوں پہ آکر چیخی ہوں کیونکہ تم کو تنہائیوں میں میری آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔

 خدارا مجھے مکمل انسان سمجھو سیکس ڈول مت سمجھو۔

مجھے ضرورت کی چیز مت سمجھو۔ مجھے تمہارا پورا وجود چاہیے۔

مجھے محبت کرنے کا حق دو اور میری طرح دو کہ میرے فطری تقاضے اور ہیں۔

مجھے اپنے ساتھ رہنے کا حق دو۔ ایک چھت تلے اکھٹے، خوشی و غمی کے ساتھی بن کر، نا کہ کمزور لمحوں کے ساتھی بن کر۔

میرے کمزور لمحے میں تم صدیوں سے مجھے تنہا چھوڑ جاتے ہو۔

جب تم نے صدیاں میرے پورے وجود کو نظر انداز کرتے گزار دیں تو اب یہ خالی پتلا اتنا ہی کھنکے گا جتنا تم سن رہے ہو۔

مجھے دھوکا مت دو کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے اگر تمہارا سماج تم کو میرا نہیں ہو نے دیتا۔ تمہاری مجبوریاں ہیں،  تو میری جان میرا بھی وہی سماج ہے وہ بھی مجھے تم سے تنہائیوں کے درد کی اجازت نہیں دیتا۔

سچ بول دو۔ اور سچ سن لو۔

میں تمہارے ساتھ  ڈیٹس نہیں مارنا چاہتی تھی زندگی گزارنا چاہتی تھی۔

میں بیوی ہوں تو میری محبت کسی اور کو مت دو۔

میں معشوق ہوں تو عشق کو مشک کر دو۔ ورنہ دفن کر دو۔

مجھے خالی کر کے جانے والے تم کو اب بیزاری، بے قراری اور آزادی کے فرق کو سمجھ لینا چاہیے اور اگر نہیں سمجھ سکتے تو اپنے گمان پہ قائم رہو کہ انسان کو اس کے گمان کے مطابق ہی ملتا ہے.

ورنہ مجھے تو محبت تو آج بھی اتنی ہے جتنی جنت سے نکلتے وقت تھی یا کشتی نوح میں سوار ہوتے وقت تھی۔

Facebook Comments Box

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Calendar

December 2024
M T W T F S S
 1
2345678
9101112131415
16171819202122
23242526272829
3031