دو ٹکے کی ۔۔۔ ڈاکٹر زینت ساجدہ
دو ٹکے کی
(ڈاکٹر زینت ساجدہ)
زندگی کا سارا حسن کچے رنگ کی طرح چھوٹتا جا رہا تھا اور آندھی کے بیچ جلتے جلتے بھڑک اٹھنے والے چراغ کی طرح نداؔ کے دل میں بھی بار بار کوئی شعلہ سا لپکتا اور وہ بیٹھے بیٹھے سر اٹھا کے کھڑکی سے باہر دیکھنے کی کوشش کرنے لگتی مگر نیچے سڑک پر چلتے راہگیر سفید دھبوں جیسے دکھائی دیتے تو وہ سرجھکا کر پھر برتن مانجھنے لگتی اور ان ساری گتھیوں کو دل ہی دل میں سلجھانے لگتی جن میں اس کی ساری زندگی الجھی پری تھی مگر لاکھ کوشش کرنے کے باوجود بھی وہ اس تانے بانے کا کوئی سرا تلاش نہ کر پاتی۔
اس نے لبالب بھری ہوئی آنکھوں کو زور سے میچ لیا۔ گرم گرم آنسوؤں کے قطرے سامنے پڑی ہوئی تھال پر گر پڑے۔
وہ سارے احساسات جو اس کے ساتھ ساتھ پروان چڑھتے تھے اور جن کو وہ ہمیشہ مار کوٹ کے ذہن کے کسی تاریک کونے میں پھینک دیتی تھی۔ کبھی کبھی کسی شدید ضرب سے تلملا کر شریر بچوں کی طرح اودھم مچانے لگتے تو وہ سہم جاتی۔ اس کی حالت بالکل اس ماں جیسی ہوتی جو اپنے بچوں کو بچپن میں خوب مارتی ہے۔ گالی گلوج کرتی ہے اور طرح طرح ڈراتی دھمکاتی ہے مگر بچوں کی جوانی میں بے بس ہوکے زندگی کے کنارے پڑ رہتی ہے۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چوٹ لگے پر درد نہ ہو۔ یہ اور بات ہے کہ اس نے اپنی طبیعت کو بالکل سیال کی خاصیت میں تبدیل کر دیا تھا۔ جدھر چاہو، بہادر، جہاں چاہے موڑ لو۔ یہی چیز تھی کہ ہزار کوسے گالیوں کے باوجود سب اپنی جگہ سمجھتے تھے کہ ندا کے بغیر کوئی کام خوبی کے ساتھ انجام نہیں پا سکتا۔
یہ روز صبح دیوڑھی کا مردانہ حصہ جھاڑنا پونچھنا ، گلدانوں میں تازہ پھولوں کی ٹہنیاں سجانا۔ قالینوں پر برش کرنا اور بڑی سی کپڑے کی جھٹکنی لے کر گھنٹوں سنگ مر مر کے اسٹیچو، پتیلی مورتیاں ، قد آدم آئنوں اور مخملی صوفوں کی گرد جھاڑنا، بڑی صاحبزادی کے چڑ چڑے بدمزاج بچوں کو گود میں لادے رہنا اور دوڑ دوڑ کے دن بھر میں بیسیوں بار مردانہ حصہ میں ہر ایرے غیر کو چائے پہنچانا اور جھک جھک کے تسلیمات بجا لانا۔ ہر جا و بیجا حکم پر سرجھکا دینا اور سرکار سے لے کر دیوڑھی کے بھیڑیئے نما کتوں سے تک گفتگو کے سارے آداب کا لحاظ رکھنا اور پھر راتوں کو جاگ جاگ کر بڑی صاحبزادی کے بے شمار بچوں کو دودھ پلانے اور پیشاب کرنے تک کی ذمہ داریاں اور فرائض اس پر عائد ہوتے تھے۔
اور وہ صبح سویرے بڑے صبر کے ساتھ مسکرا کے ان حسین مجسموں کو دیکھتی جو ایک ہی انداز میں کھڑے کھڑے تھک گئے تھے۔ برسوں سے ایک ہی جگہ تکتے تکتے ان کی آنکھیں بے نور ہو گئی تھیں۔
دروازے کے قریب بیٹھا ہوا بڈھا کسی گہری سوچ میں ڈوبا رہتا ، پیشانی کی موٹی موٹی ابھری ہوئی رگیں اور آنکھوں کے اطراف پڑی ہوئی باریک باریک جھریوں میں ساری زندگی کے تلخ تجربے سمٹ آئے تھے۔
آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی جوان لڑکی اپنے برہنہ بدن کی ساری رعنائیوں کو اک ذرا سے دو شالے میں چھپانے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔ اس کی جھکی ہوئی پلکیں اور ترشے ہوئے ہونٹ جن پر ندا بڑی احتیاط سے اپنی انگلیاں رکھ دیتی۔ چھپا لو۔ اپنے سارے بدن کو ان ذلیل نگاہوں کی زد سے جن کے تیر راست تمہاری سمت پھینکے جا رہے ہیں۔ اور تم اس وقت کتنی مجبور ہو ، کتنی سہمی ہوئی کھڑی ہو۔
ندا کو وہ لڑکی بہت پسند تھی جس کو پیتل کی دھات میں منجمد کر دیا گیا تھا جو اپنے محبوب کے گلے میں باہیں ڈالے اسے ٹکر ٹکر دیکھے جا رہی تھی اس کے پیار میں بڑی گمبھیر تا تھی۔ وہ ڈرائینگ روم میں آنے جانے والوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے سپنوں میں کھوئی کھڑی تھی۔ پیشانی پر جھلکتا عزم اور مضبوطی سے بھینچے ہوئے ہونٹ اس کے تابناک مستقبل کے گواہ تھے کتنی نڈر ہے یہ لڑکی۔ ندا سوچتی کونے میں کھڑی بھکارن تو اب تک آنکھیں اٹھائے دروازے کو تکے جا رہی تھی۔ چہرہ پر زمانہ بھر کا کرب لئے ایک ہاتھ سے بوسیدہ آنچل پکڑے ، جانے کس کے انتظار میں برسوں سے کھڑی تھی۔
کیا اب بھی اس کو یہ امید ہے کہ کوئی اچانک تاریکیوں میں اجالا گھولنے آئے گا ؟ اس کو ماضی کے سارے درد ناک خوابوں کی سنہری تعبیریں سونپ دے گا۔ آخر ایک صاف ستھری خوبصورت زندگی کی ضمانت دینے آئے گا۔ کیا اب بھی جیسے وہ ان سارے بے زبان مجسموں کی زبان سمجھتی تھی۔ ان سے چپکے چپکے اپنا دکھ درد بیان کرتی ، ان کے دکھوں کو سمجھتی اور ایسے میں چھوٹی صاحبزادی حلق کی پوری طاقت کے ساتھ چلاتیں تو وہ جھٹکنی پھینک کے باہر یوں لپکتی جیسے سند باد والی موت کی وادی سے اس کا نام پکارا گیا ہو۔
یوں ہر اشارے پر ناچتے ناچتے جیسے وہ بھی تھک گئی تھی اور بے اختیار اس کا جی چاہتا وہ بھی جا کے ان مجسموں کے درمیان کھڑی ہو جائے اور برسوں تک یوں ہی ایک ہی زاویئے سے کھڑی رہے اور کوئی بڑے چاؤ سے اس پڑی ہوئی گرد جھاڑنے آئے۔
جیسے شاعر اپنی نئی غزل کسی کو سنانے کیلئے سرگرداں پھرتا ہے یوں ہی چھوٹی صاحبزادی اپنے نئے رومان کو ندا پر آشکارا کرنے کیلئے انتہائی بے چینی سے دیوڑھی کے کونے کونے میں اس کو جھانکتی پھرتیں اور جب ندا سدب کچھ سن کر حیرت زدہ سی پلکیں جھپکایا کرتی تو قہقہہ مار کے اس سے لپٹ جاتیں۔ تھوڑی سی دیر کو تاریکی اور روشنی کا فرق مٹ جاتا۔ اونچائی پستیوں میں آ کے ایک سطح پر نظر آتی ندا باہر آتی تو ٹافی کا ٹکڑا چبا چبا کر مسئلہ کے ہر پہلو کو ذہن سے جھٹک دیتی۔
بڑی صاحبزادی کی زبان سارا دن کڑک مرغی کی طرح کٹ کٹ کئے جاتی۔ بات بات میں ندا کو کوسنا اور گالیاں دینا تو ان کا محبوب مشغلہ تھا۔بچوں کو گھڑکنا اور مار پیٹ ، بچوں کی چیخ پکار ، آنسو اور سسکیاں یہ سب زندگی کو بیزار کن بنا کے دیوڑھی میں قید کر دیتے۔
بچے دن بھر باورچی خانے میں گھسے ماماؤں کی زبانی شوہروں کی مار پیٹ لڑکیوں کے اغواء کی کہانیاں اور جدید ترین گالیاں سن سن کے خوش ہوا کرتے اور چھو کر یوں کی کنواری گودوں میں شفقت و محبت کی گرمی ، تلاش کرتے ، ہائے اللہ ، دیوڑھیوں کے بچے بھی۔ کوئی بچے ہیں ماں باپ کے ہوتے چہرے پر یتیمی برستی ہے۔ آیاؤں اور ماماؤں سے چمٹے بچپن گذر جاتا ہے۔ بوا جھریوں بھرا دے سے ستا ہوا اٹھا کے زیر لب بڑبڑاتیں۔
کریں بھی کیا ، شمبھو بوا کے بٹوہ سے زردہ ، ہتھیلی پر نکال کر اپنی رائے کا اظہار کرتا۔ باپ کو باہر کی ہو ہپ میں چھٹی نہیں ملتی۔ ماں چھوٹے سرکار کی کرتوتوں سے بیزار ہر وقت بیٹھی کڑھا کرتی ہیں اور بیگم صاحبہ کوتو ہر وقت گردوں کا درد اور دل کی کمزوری کھائے جاتی ہے۔ جب ماں باپ کا یہ عالم ہے تو آخر ان بچوں کی دیکھ بھال کوئی کہاں تک کرتا پھرے۔
ذرا سی آہٹ پا کے انگلی ہونٹوں پہ رکھ کے بوا چپ ہونے کا اشارہ کرتیں اور شمبھو جلدی جلدی اپنی ٹوپی ٹھیک کر کے سینے پر ہاتھ باند لیتا۔
ندا جب سے یہاں آئی تھی روز یہی ڈرامے دیکھا کرتی۔ ان پانچ برسوں میں اس کو ساری ڈھکی چھپی باتیں سمجھنے کا شعور آ گیا تھا۔ کسی کی زبان سے نکلا ہوا ایک جملہ سارا دل کھول کے اس کے سامنے رکھ دیتا۔ مگر وہ سب کچھ سمجھ کے انجان بنی یوں گذر جاتی جیسے منہ کے بوندوں سے بھرے بادل بنا برسے سرکتے چلے جاتے ہیں۔
دیہات میں ایک بار چچی کے ساتھ وہ کٹھ پتلیوں کا تماشہ دیکھنے گئی تھی کپڑے کی دھجیوں سے بنی بے جان پتلیاں سارے کام کرتی تھیں اور لوگ کہتے تھے مچان پر بیٹھا ناٹک کا مالک ان ساری پتلیوں کے ہاتھ پاؤں اور سر میں بندھے دھاگے اپنے ہاتھ میں لئے نچایا کرتا ہے اور کیا مجال ہے کہ یہ پتلیاں اپنی من مانی کر جائیں۔ بس چھوٹے سرکار بھی اس کو ناٹک کے مالک ہی دکھائی دیتے تھے جن کی مٹھی میں دیوڑھی کے رہنے والوں کے دھاگے دبے ہوئے تھے اور یہ سارے لوگ ان کے اشاروں سے چلتے پھرتے تھے۔
روز کی دانتا کل کل سے بیزار وہ باغ میں نیم تلے بیٹھ کے آس پاس پھدکتی ہوئی چڑیوں میں گم ہو جاتی۔ ننھا منا سبز ٹڈا گھانس کی لمبی لمبی پتیوں رپ اچکنے لگتا تو پتیوں پر ٹھہرے شبنم کے قطرے ٹپ ٹپ کر کے نیچے گر جاتے۔
اے ہے اللہ۔ یہ ذرا سا ٹڈا کتنا خوش ہے۔ بہار کی آمد کا پیغامبر وہ ذرا سا ٹڈا ندا کو اپنے سے کہیں اونچا دکھائی دیتا اور وہ اپنی چھوٹی چھوٹی بے شمار آرزوئیں پلکوں پر سمیٹے حسرت سے تکتی رہ جاتی۔
ندا اری او ندا۔ کہاں مر جاتی ہے نہ جانے ‘‘۔ بیگم صاحبہ کمر پر ہاتھ رکھے کراہ کراہ کے آوازیں دیتیں تو وہ اپنے آس پاس تعمیر کیا ہوا تخیلی جزیرہ چھوڑ کے پھر دیوڑھی کی سخت دیواروں کے درمیان آ کھڑی ہوتی۔ دیواریں ، جن کے خوفناک جبڑے ہر لمحہ اس کو ڈرایا دھمکایا کرتے اور وہ سہم سہم کے ان اونچی اونچی دیواروں کو دیکھتی اور پھر اپنے دھان پان جسم کو کہاں پہاڑ اور کہاں ان کے دامن میں اگا ہوا جنگلی پھول !
چھوٹی صاحبزادی تو اس کو ایسے میکرو فون کی طرح استعمال کرتیں جو ان کے نئے نئے رومان نشر کر سکے اور پھر وہی نیچ اونچ کا فرق۔وہی اجالے اندھیرے کا ہیر پھیر جن میں گھری پریشان سی وہ اتنی وسیع دیوڑھی میں گھوما کرتی۔
بیگم صاحبہ کے رات دن کے دکھ درد نے تو زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ دن بھر میں جتنی مرتبہ وہ دالان کے سامنے سے گذرتی۔ وہ جلدی سے ہاتھ کے اشارے سے ندا کو اپنے پاس بلاتیں اور آہستہ سے انتہائی راز داری کے ساتھ بڑی صاحبزادی اور ان کے بچوں کے بارے میں دیر تک کرید کرید کر پوچھا کرتیں۔
اچھا سچ بتا۔ ابھی ابھی جو بڑی صاحبزادی بڑبڑا رہی تھیں تو میرے بارے میں کیا کہتی تھیں ؟
رات دولہا میاں پھر کوئی نئی عورت لائے تھے ؟
اور ہاں ان موئے شیطان کے بچوں نے میرے حصہ کی بالائی بھی ناشتہ پر کھا لی ؟ ایں ؟ دیکھ ندا جو کچھ پوچھوں صحیح جواب دو گی تو عید پر جالی کا کرتا اور اطلس کا پاجامہ بنوا دونگی۔‘‘
اور ندا جالی کے کرتے واطلس کے پاجامے کو بالکل ہی نظر انداز کر دیتی بھلا ادھر سے جب گذرو تب نئی خبروں کا تازہ بلیٹن تیار رکھو۔
یا پاک پروردگار۔ یا رسول اللہ۔ یا بی بی فاطمہ الزہرہ۔ اس چڑیل کو دفعان کیجیو۔ موئی سوتیلی اولاد سے نجات دلائیو۔ مری بچی کا حق مارے بیٹھے ہیں کمبخت۔
اور بیگم صاحبہ کو سوکھی آنکھیں بار بار پونچھتے دیکھ کے ندا کو ترس آ جاتا۔ چچ۔ چچ۔ بیچاری نے کبھی اس شاندار گھر پر حکومت کی ہو گی اور اب دالان میں پڑی امچور کی طرح سوکھی جاتی ہیں۔
بڑی صاحبزادی کے خوف سے کوئی دو وقت کھانا دینے کے علاوہ ان کے قریب نہ پھٹکتا۔ بس دو مامائیں ان کی تیمار داری اور دیکھ بھال کے لئے ہر وقت ان کے پاس ہوتیں جن کے سامنے وہ اپنے دل کے سارے راز اگل چکی تھیں اور اب تیسرا آدمی نہ ملتا تھا جس کے سامنے وہ اپنے دل کی بھڑاس نکال سکیں۔ چھوٹی صاحبزادی زیادہ تر اپنی بہن کا حکم مانتی تھیں اس لئے بھی کہ ان کے سامنے چوں و چرا کر کے یہ معنیٰ تھے کہ سارے ٹھاٹ باٹ ختم اور بس اماں جان کی طرح دالان میں پڑے پڑے کھاؤ۔ اور دیواروں سے سر پھوڑ پھوڑ کر مر جاؤ۔ نہ نئی نئی وضع قطع کے لباس پہننے کو ملتے اور نہ دوپٹوں و ربنوں کے ڈھیر گھر آتے۔
بس صبح اور شام مزاج پر سی کر آتیں۔ گھڑی دو گھڑی کو ماں کی بڑی بڑی غلافی آنکھوں میں امید کی لو جھلملا جاتی۔
ان ساری گھریلو الجھنوں ، نا اتفاقیوں اور کدورتوں کی گندی کثیف اور بدبو دار فضا میں ندا کی سانس گھٹنے لگتی۔
اور جب رات رات بھر دولہے میان ، بڑی صاحبزادی کی سسکیوں کے بیچ گئے سوالوں کے جواب میں بے ڈھنگے پن سے گرجتے تو یوں لگتا جیسے دیوڑھی کے پچھواڑے ببول کے میدان میں کوئی مرئی ہاتھ بڑی بڑی چٹانیں لڑھکا رہا ہے۔ دھن دھن دھنا دھن۔ پھر ہلکی ہلکی سسکیوں اور دبی دبی چیخوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا اور نہ چندن کی مسہری پر بڑی صاحبزادی دیر تک تڑپا کرتیں۔ کمرے کی فضا بوجھل ہو جاتی اور چھوٹے سرکار ایسے میں ندا کو پکارتے تو یوں لگتا جیسے کسی بیہودہ بچے نے آدھی رات کی خاموشی میں گھر کی دہلیز پر پٹاخہ کھینچ مارا ہو۔
ہائے تو کیا سچ مچ دولہا میاں بیوی پر ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں۔
بیگم صاحبہ حیرت اور خوشی سے ملے جلے لہجے میں پوچھتیں اور مامائیں ان کے چہرے کی رونق دیکھ کے دنگ رہ جاتیں۔ شاید اب قبر میں لٹکائے پیر باہر کھینچ لیں۔
ندا سب کی راز دار تھی۔ وہ سارے جاندار جو دیوڑھی میں بستے تھے اپنا دکھ درد ندا کے آنچل میں ڈال کر مطمئن ہو جاتے اور ندا اپنے دل کی گہرائیوں میں ان کی حسرتوں اور تمناؤں کے تابوت جمع کرتی جاتی۔
ان ساری باتوں کے باوجود ندا اس گھر کی زر خیز لونڈی تھی۔ذرا ذرا سے قصور پر کو سنے گالیاں ، ڈانٹ پھٹکار کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار کی مار دھاڑ نے ہر وقت کے آداب و لحاظ نے اس کو کمزور و کمتر بنا دیا تھا۔ وہ خزاں رسیدہ پتی کی طرح کانپتی رہتی۔ اس گھر کا تو حساب ہی نرالا ہے جانے کب زیرِ عتاب آ جائے۔ یوں بھی جب چھوٹے سرکار گالیاں دیتے ہوئے اس پر جھپٹے تو وہ زخمی پرندے کی طرح ان کے ہاتھ آ جاتی۔
ایک گھر اس کے اپنے ذہن میں بھی محفوظ تھا۔ ایک چھوٹا سا گھر ، صحن میں انگور کی بیلوں کا منڈوا اور پھولوں کی کیاریاں جن میں کھلے ہوئے رنگ برنگے نازک سے پھول جو ذرا سے ہوا کے جھونکے سے جھوم جائیں۔ ننھی منی رنگین کلیاں جو شرما شرما کے دھیرے دھیرے مسکرا پڑیں۔ اس گھر میں لڑائی جھگڑوں ، مخالفتوں اور تلخیوں کی کہیں گنجائش نہ تھی۔ ایک شفو تھا جو اس کے پورے تصور پر انگور کی بیل کی طرح چھا گیا تھ ا۔ سوچتے سوچتے اس کی آنکھیں دھندلا جاتیں۔ اپنے ماضی کو سوچنے کیلئے اس کو کبھی ذہن پر زور ڈالنے کی ضرورت نہ پڑتی۔
وہ ننھی سی لڑکی جو کبھی کبھار پیار کا لفظ سن کر بسورنے لگتی اور دیر تک آنگن میں اور اوندھی پڑی سوندھی مٹی پر منہ رکھے سسکتی رہتی۔ ماں ذرا سی جان کو اپنے پیچھے دربدر کی ٹھوکریں کھانے کو چھوڑ گئی تھی اور باپ پڑوس کی کسی لڑکی کے عشق میں ایسا لگن ہوا کہ کہیں دونوں کا پتہ نہ لگا۔ وہ ذرا سی لڑکی جو ہر شفقت و محبت سے محروم ہو کر رہ گئی تھی۔
جس کو سب نے معمولی کیڑے مکوڑے کی طرح بے حقیقت سمجھ کر نظر انداز کر دیا تھا۔
چچی دیہات سے ماں کے پُر سے کو آئی تو گھر کے برتنوں ، کھاٹوں اور کپڑوں کے ساتھ اس کو بھی بغل میں دبا کے لئے گئی اور تب سے جیسے زندگی کی ساری چھوٹی بڑی خواہشیں اس سے الگ ہو گئی تھیں۔ جب ذرا ہوش آیا اور آنکھیں کھول کے دنیا کو دیکھنا چاہا تو کندھوں پر رکھے ہوئے جوئے کے بوجھ تلے دب کے کچھ یاد نہ رہا۔ دن بھر بیل کی طرح گردن جھکائے وہ کام کاج میں لگی رہتی۔ ذرا سا کام رہ جاتا چچی کی انجن کی سیٹی کی طرح تیز دلخراش آواز اس کے صبر کا دامن چیر کے رکھ دیتی۔
ارے کلموئی ! یہ تو سوچ کہ گھورے پر پڑے ہوئے کیڑے کی طرح سسک سسک کر مر جاتی جو میں تجھے ا ٹھا نہ لاتی۔ اے لو جس نے پیدا کیا اُس باپ کو رحم نہ آیا۔ میں خیر چچی تھی۔ آج کل مصیبت میں کون کس کے آڑے آتا ہے۔ کیا میرے احسان کا یہی بدلا ہے۔ خود نہ کھایا ، تجھے کھلایا ، خود نہ پہنا تجھے پہنایا۔یہی سوچا تھا کہ آگے چل کر کام آئے گی مگر توبہ ہے اللہ میری بھی عقل خراب ہوئی تھی۔ ‘‘
ندا کے دل کو اچھی طرح خبر تھی کہ چچی اس کو کیا کھلاتی تھی اور کیا پہناتی تھی ، اس کی ماں کے وہ سارے ریشمی کپڑے جو نہ جانے اچھے دنوں میں نانی نے بیٹی کے بیاہ میں دیئے تھے جن سے اس کی ماں کے شفیق بدن کی بو آتی تھی۔ چچی نے اپنی بیٹی کے جہیز میں رکھ دیئے تھے جن کپڑوں کو وہ چچی کی غیر موجودگی میں سینے سے لگائے ماں کی نرمی اور پیار کو محسوس کرتی تھی۔ وہ بھی اس سے چھین لئے گئے تھے۔
دن بھر کے سارے کام کاج کو جلدی جلدی نپٹا کو جب وہ اوپر چھپر تلے برآمدے میں آ کے لیٹ جاتی تو وہ سارے روندے ہوئے احساسات جاگ پڑتے جن کو دل کے تاریک گوشے میں دفن کر دینا وہ اپنا پہلا فرض سمجھتی تھی۔ فرصت پا کے دماغ میں ایک دم گھس پڑنے والے خیالات ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو جاتے اور وہ گھبرا کے اپنا منھ دوپٹہ میں چھپا لیتی۔ گھر میں اس بچے والی مرغی کی زیادہ اہمیت تھی جس کو صبح سویرے چچی اپنے ہاتھ سے دانہ ڈالتی اور برابر دیکھ ریکھ کر تی تھی۔
قدم قدم پر روک ٹوک اور احتساب کی کڑی بندشیں اس کا دم گھونٹنے لگتیں تو وہ دنیا جہاں کی تنہائیوں اور محرومیوں کا محور بنی گھومتی رہتی۔ پاس پڑوس کی لڑکیاں اس سے ملنے کی کوشش کرتیں تو چچی ڈانٹ بتاتی ‘‘ چل اپنا کام کر یہ ہنسی ، ٹھٹا کام نہیں آتا۔ جانے کہاں کی آوارہ لڑکیوں سے چھپ کے ملتی ہے۔ یہ لچھن میرے گھر نہیں چلیں گے۔ نوج ایسا بھی کوئی بے حیا ہو۔‘‘
جانے کب سے اس کے ہونٹ ہنسی سے محروم ہو گئے تھے یہ گھر تو اس کا مقبرہ بن گیا ہے جہاں چچی کی بد روح اس کا پیچھا کرتی ہے جہاں اس کی کرخت آواز اس کے تعاقب میں کھڑکی کھڑکی ، دروازہ دروازہ دوڑتی پھرتی جہاں وہ پنچھی کی طرح پھڑپھڑاتے دل کو سنبھالے گھومتی رہتی۔ ہر وقت سوچتے رہنے ، کڑھنے اور رات رات بھر دوپٹہ میں منھ لپیٹے آنسو بہانے کے سوا اس کا اور کوئی شغل نہ تھا۔
اس سے کسی کی ذرا سی تکلیف نہ دیکھی جاتی۔ سارا دن دھوپ میں پر پھٹپھٹا کے اڑنے والا کبوتر جب اس کے برآمدے کی دیوار پر آ جاتا تو وہ اپنی روٹی کے ٹکڑے وہیں بکھیرے کے بھوکی اٹھ جاتی۔ چڑیا نے ستون پر گھونسلہ بنایا تو ان دنوں پریشان سی برآمدے کے دو چار چکر لگا آتی۔ کیا پتہ غریب کے انڈے کوئی آوارہ کوا لے اڑے۔وہ گھونسلہ کے قریب دانہ پانی رکھ دیتی اور جب چڑیا کے بچے نکلے تو وہ ان میں کھو گئی۔ جیسے یہ بچے اس کے اپنے بچے تھے چڑیاں اس کو قریب آتے دیکھ کے اب گھبرا کے نہیں اڑتی تھیں۔ وہ بیٹھی رہتی تو چڑیاں اس کے اطراف پھدکتی رہتیں اور ذرا سی دیر کر اس کے ہونٹ مسکراہٹ کے بار سے لرز اٹھتے۔
اور جب سامنے کے کچے مکان والا شفو چچی سے ملنے کے بہانے برابر آنے لگا اور چچی کی آنکھ بچا کے اس کی خیریت بھی پوچھنے لگا تو ندا نے اندھے کی لاٹھی کی طرح اس کی ہمدردیوں اور خلوص کاسہارا لینا چاہا۔ وہ رات چونک چونک کے اٹھ بیٹھتی۔ اس نے خواب دیکھا۔ پہاڑ کے دامن میں دور تک ستاروں جیسے سفید پھول کھلے ہیں اور ندا تنہا کسی کو کھوج رہی ہے۔ بار بار پہاڑ کی چوٹی پر چڑھتی ہے پھر کوئی زبردست طاقت نیچے پھینک دیتی ہے۔ آسمان پر چاند کی جگہ شفو کا چہرہ دمک رہا ہے۔
شفو ! نیچے آ جاؤ شفو۔ میں تمہیں کہاں پا سکوگی۔ شفو شفو۔‘‘
آنکھ کھلی تو چچی ہزاروں دوزخی فرشتوں کا قہر اپنے چہرے پر لئے کھڑی تھی اچھاری کٹنی۔ سات پردوں میں رہ کے یہ گل کھلایا۔ خدا غارت کرے اس گھڑی کو جب میں تجھے اپنے ساتھ لائی تھی۔چچی کے کوسنوں اور دھموکوں نے اسے ادھ موا کر ڈالا۔
چچا نے اپنے قرضے کا بوجھ اتارنے اور اپنے گھر سے ندا کا منہ کالا کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ بڑی محنتوں اور دوڑ دھوپ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ندا کو شہر کی عالیشان ڈیوڑھی میں زر خرید لونڈی بن جانا پڑا۔
وہی حکم ، وہی بندشیں ، وہی کھانے کپڑے کا احسان اور وہی گالیوں اور کوسنوں کا انبار اپنے کندھوں پر اٹھائے وہ زندگی کے گندے پتھریلے ، ناہموار راستے پر ڈگمگاتی بڑھتی جا رہی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ وہاں صرف ایک چچی تھی اور یہاں جیسے چچی نے جگہ جگہ اپنے مجسمے نصب کروائے تھے اور جن کے منہ میں ٹیپ ریکارڈ رکھے تھے جو سارا دن چچی کے بول دہرایا کرتے۔
جب کبھی چھوٹی صاحبزادی اس کو اخبار پڑھ کر سناتیں اور دنیا میں ہونے والے انقلابات کا ذکر آتا تو وہ سہمی ہوئی سی دل میں صاف مکر جاتی۔
’’ہائے ہائے حکومت نے تو جاگیر داری ختم کرنے کی بات چلائی ہے۔ ایک دن انہوں نے اخبار سنایا۔
مگر اتنے سارے جاگیر دار آخر کریں گے کیا۔ تب ہی دولہا بھائی کھوئے کھوئے پھرتے ہیں۔ چھوٹی صاحبزادی جیسے اپنے آپ سے بولیں۔ پھر اس سے فکر مندانہ لہجہ میں کہا ’’ دیکھ ندا بیگم صاحبہ سے نہ بتانا ورنہ ان کا تو ہارٹ فیل ہو جائے گا۔ وہ اپنا اکھڑا ہوا سانس ٹھیک کرنے لگیں۔
بہت دن سے وہ یہ ساری تبدیلیاں دیکھ رہی تھی مگر اس کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی تھی اور وہ عاجز آ کے سوچتی دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے کوئی انقلاب نہیں آیا ہے۔ دنیا ایک ہی ڈگر پر چلی جا رہی ہے کم از کم اس کو تو کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی۔ شاید یہ دیوڑھیاں ہمیشہ اپنی اونچی اونچی دیواروں پر انقلابات کے حملوں کے سپر بن کے روکتی رہی ہیں اگر کوئی تبدیلی دھیرے دھیرے اندر رینگ آئی ہو تب بھی ندا اور وہ ساری زر خرید چھوکریاں جو مہمانوں کے ساتھ آتی جاتی تھیں اور جانے کتنی جو ایسے شاندار مقبروں میں اپنی زندگی کی لاش اٹھائے اٹھائے پر اسرار انداز میں پھرتی ہیں۔ اس تبدیلی سے بے خبر تھیں۔ ان سے کوئی کیوں نہیں پوچھتا کہ زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ گھر کیوں بنتے ہیں ؟ گھر بسانے بیاہ کرنے اور ننھے منے خوبصورت بچوں کو لئے لئے گھومنے کی آرزو کیوں ازل سے جاندار اپنی جان سے لگائے رکھتے ہیں۔ یہ حسین سیریز یہ پھولدار پردے ، یہ رنگین گلدان ، مخملیں قالین ، انسانوں کی طرح جاندار لگنے والے مجسمے ، اور برآمدے کے باہر کھڑی پھولوں کی قطار۔ یہ سب کیوں ہے۔ اپنی زندگی کو حسین تر بنانے کی آرزو کرنے والے ذہن اس حسن میں آگ لگا کے خوش بھی ہو سکتے ہیں۔ یہ بات کسی طرح اس کی سمجھ میں نہ آتی۔وہ سارے صحیح جذبات جن کو الفاظ کی راہیں نہ ملتیں بس جو صرف سوچے جا سکتے تھے۔ محسوس کئے جا سکتے تھے مگر کوئی سننے والا نہ تھا۔نہ الفاظ کے آبدار موتی اس کی مٹھی میں آ پاتے۔ نہ یہ کہانی اندازِ بیان کی گرفت میں تھی۔
اے ہے بس یہی عمر تو ہے۔ مرنے کے بعد کہاں زندگی ملے گی۔ پھر چھوٹے سے گھر کی تمنا ، شفو کے ساتھ مل بیٹھنے اور قہقہے لگانے کا ارمان کیسے پورا ہو گا۔ یہ چھوٹی سی زندگی بھی تو کانٹوں بھرا بستر ہے جس پر پڑے پڑے ساری زخمی آرزوئیں تڑپ تڑپ کے کراہتی ہیں۔ اندھیرے میں امید کی کرنیں ڈھونڈے جاؤ۔ شاید۔ شاید۔
مگر آج جب چھوٹے سرکار نے ایک ذرا سے گلدان ٹوٹ جانے پر اسے دو ٹکے کی باندی کا طعنہ دیا تو وہ تن کے کھڑی ہو گئی۔ کچھ دیر کو آنکھوں میں لپکنے والے شعلوں نے آتش فشاں کا خوفناک روپ دھار لیا اور دل سے اٹھا ہوا لاوا آنکھوں میں آنسو بن کر اتر آیا اور آج اس نے اپنے سارے احساسات کو کھلے بندوں لڑنے کیلئے چھوڑ دیا۔ آج اسے یقین آ گیا تھا کہ کہ دنیا میں واقعی انقلابات آئے ہیں۔ ہزاروں تبدیلیاں ہوئی ہیں اور یہ سب شاید اپنے ہی بپھرے ہوئے جذبات کا کرشمہ ہو۔
چھوٹی صاحبزادی نے اس کو سمجھانے کیلئے موٹی سی بات یہ بتائی تھی کہ بادشاہت جاگیر داری کی ماں ہے مگر چونکہ یہ ماں مر گئی ہے۔ اس لئے اب کوئی جاگیر داری کے لاڈ پیار سہنے والا نہیں ہے۔ اب کوئی گود میں کھلانے والا اور جا و بیجا نخرے اٹھانے والا نہیں رہا۔ بچے کی برائیوں کو ماں ہی برداشت کرتی ہے۔ پرائے لوگ تو برائیوں پر خوب مار کوٹ کے سیدھا کر دیتے ہیں۔ یہ بات بڑی آسانی سے ندا کے ذہن میں جم گئی۔
چلو اچھا ہوا کہ برائیاں مٹنے کے دن آ گئے۔ وہ ماں کتنی بری ہے جو اولاد کی برائیوں کی پیٹھ تھپک کر ہزاروں گھر تباہ کرتی ہے۔ آج چھوٹے سرکار کے زہر میں بجھے ہوئے تیر ’’ دو ٹکے کی ‘‘ نے اس کے دل کے ساتھ بندشوں کو دیواروں میں بھی شگاف ڈال دیئے تھے اور کھلی ہوئی دراڑوں سے امید کی کرنیں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔