نظم ۔۔۔ سبین علی
نظم سبین علی اس نے بڑی روشن راہوں پر آنکھوں میں پہاڑوں جیسا عزم لیے
نظم سبین علی اس نے بڑی روشن راہوں پر آنکھوں میں پہاڑوں جیسا عزم لیے
چندہ سیمیں درانی نہ جانے کہاں سے دوبارہ آکر وہ کچرے کے ڈھیر پہ بے
بھوکا حرا ایمن شہر میں نت نئے ریسٹورانٹ برساتی کھمبیوں کی مانند کھل رہے تھے۔
قاتل ژاں پال سارتر لندن کی عدالت میں کل ایک غیر معمولی مقدمہ پیش ہونے
سوال ( سلمان حیدر ) سڑکوں پہ سناٹا ہے اور جن عمروں میں مائیں بیٹوں
میں سنیا اے عائشہ اسلم ملک ورھے نوں چولا پا کے بھنگڑا پاوندے نیں تے
نارنگ مریم عرفان ہر انسان کے اندر ایک جانور چھپا ہے جو کبھی کبھی سراٹھاتا
خواب گر کی موت شاہین کاظمی گھڑی کی سوئی پھر بارہ پر آ چکی تھی،
کتبوں سے محروم زندگی – فاطمہ مہرو کھو جاتی ہیں آنکھیں ان لوگوں کی راہیں
زندگی کی خودکُشی ںود خان سماج کے قدیم پنکھے پر زندگی کی لاش لٹک رہی