غزل ۔۔۔ غلام محمد قاصر
غزل غلام محمد قاصر شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے گِھستے گِھستے
غزل غلام محمد قاصر شوق برہنہ پا چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے گِھستے گِھستے
کافی بُلھے شاہ اردو ترجمہ: سبین علی علموں بس کریں او یار اِکّو اَلف تیرے
سُنو اوتار سنگھ پاش سُنو ساڈے چلہے دا سنگیت سنو ساڈی درد منداں دی پیڑ
آسمان سے گرنے کے بعد سرمد سروش یہی اک کمی رہ گئی تھی سو یہ
” چن جی ” ۔۔۔ کہنے والا شہناز پروین سحر آج میں ایک شخصیت کو
اقوام متحدہ سے ایک مکالمہ احمد ہمیش بہت دن ہوئے میں اپنی سوانح بیان کرنے
پرکھ مالتوج سٹین (ہنگری) پنجابی التھا:: عذرا اصغر ” ماسی ! چھیتی چھیتی دس کیہہ
ہیری گود ممتاز حسین آ آ آ ۔۔۔ آہ عاصم کے جسم پے جیسے اس
سیلمون فش سبین علی جو ، آج بہت پریشان تھی۔ جب وہ مادام کے چہرے
قطار ختم نہیں ہوتی عاصم جی حسین قطار ختم نہیں ہوتی آوازیں ایک دوسرے کی