پھوڑا ۔۔۔ انجلا ء ہمیش
پھوڑا انجلاء ہمیش آسیب سے ڈرتے ہو آسیب تو اپنے آپ سے خوف زدہ ہے
پھوڑا انجلاء ہمیش آسیب سے ڈرتے ہو آسیب تو اپنے آپ سے خوف زدہ ہے
امپاسیبل مشن” طیب پاک تمہارے جسم کے بہت سے جزیرے ابھی دریافت نہیں ہوئے آنکھیں
آدمی خود کو تلاش کرتا ہے نودان ناصر آدمی خود کو تلاش کرتا ہے صحرا
دوہے کبیر داس جاکو راکھے سائیاں مار سکے نہ کوئی بال نہ بانکا کر سکے
غزل سبط علی صبا زرد چہروں سے نکلتی روشنی اچھی نہیں شہر کی گلیوں میں
کھونٹی پر لٹکا ہوا بدن جاوید شاھین شام ہوتے ہی میں پسینے میں بھیگا ہوا
نظم شاہین کاظمی داستان ، شامِ ابد کے بپاہونے سے پہلے کئی بار نقرئی پانیوں
قبر کی ایک رات خوش بخت بانو مجھے رات کے درمیانی حصے میں ایک خواب
میں ویکھیا معافیہ شیخ میں ویکھیا کہ ویکھن والے سب لوکی تے ویکھ نئیں سکدے
ہوا سرگوشیاں کرتی ہے قائم نقوی ہوا سرگوشیاں کرتی ہے پھر سے کوچہ ء جاں