بہت سے کام ادھورے تھے ۔۔۔ مہجور بدر
نظم مہجوربدر ماں میں ابھی مرنا نہیں چاہتا تھا بہت سے کام ادھورے تھے بہت
نظم مہجوربدر ماں میں ابھی مرنا نہیں چاہتا تھا بہت سے کام ادھورے تھے بہت
غزل فرح خاں دریا کے پاس جا کے ارادہ بدل گیا ہونٹوں پہ ٹھہری پیاس
وصال کی صبح سرمد سروش گجر دم اٹھا ہوں، الارم سے پہلے مگر آج روئی
وجیہ وارثی غربت ۔۔۔۔۔۔۔ وہ سمجھاسکتی ہے ہربات بغیر چیخے مگروہ چیختی ہے ڈپریشن کی
غزل شکیب جلالی وہی جھکی ہوئی بیلیں وہی دریچہ تھا مگر وہ پھول سا چہرہ
نظم زہرا نگاہ یہ جو تم مجھ سے گریزاں ھو ، میری بات سنو ھم
مجھے گھر جانے دو زاہد مسعود میں چھت کو جانے والی سیڑھی پر بیٹھ کر
ادھورے خواب ڈاکٹر کوثر جمال ادھورے خواب زیادہ فاصلہ طے ہو چکا تھا شاید اسی
پیاس اور پانی کا تلازمہ ازل سے ہے ثمین بلوچ گود ہری تھی مگر ہریالی
بےبسی کا آخری مرہم ہاشم بلال میں نے کہر آلود رات میں کیکر کے پیلے