کرماں ماری ۔۔۔۔ شہناز پروین سحر
کرماں ماریہنے ہنے میں فیر اوس محفل توں نس آئی آں جتھے رفو،زاہدہ ،عرشی، ٹیبی
کرماں ماریہنے ہنے میں فیر اوس محفل توں نس آئی آں جتھے رفو،زاہدہ ،عرشی، ٹیبی
کیا کبھی دیکھا ھے افتخار بخاری کیا کبھی دیکھا ھے مقدس دوپہروں میں بوڑھی
شیزو فرینیا (ثروت زہرا) میں کوہ قاف ازل پہ بیٹھی شعور سیڑھی کو کھینچتی ہوں
چاند کا قرض (سارا شگفتہ) ہمارے آنسووں کی آنکھیں بنائی گیئں ہم نے اپنے طلاطم
غزل (عالم تاب تشنہ) گنتی میں بے شمار تھے، کم کر دیے گئے ہم ساتھ
تقسیم (شہناز پروین سحر) کب تلک سنبھلے گا آخر شاخ سے اپنا گلاب چُھت ہی
غزل (سبط علی صبا) لبوں پہ نام میرا حرف واجبی ٹھہرا میں خاندان میں تمثیل
غزل (غلام حسین ساجد) عشق سے اور کار دنیا سے حذر کرتا ہوں میں اب
نظم (شازیہ مفتی) یاد کے آخری جزیروں پر سوچ کا اک کُھلا سمندر ہے اور
خواب میں سفر زندگی بدلی، فضا کا ذائقہ بدلا مگر چہرہ نہیں بدلا یہ عورت