تپش سے بھری دیواریں ۔۔۔ سارا احمد
تپش سے بھری دیواریں سارا احمد تپش سے بھری دیواریں جی چاہتا ہے تپش سے
تپش سے بھری دیواریں سارا احمد تپش سے بھری دیواریں جی چاہتا ہے تپش سے
مثال سارا احمد کسی آواز کے سائے میں دُھوپ کنارے چلتے چلتے مَیں موتی چُنتی
خواب کی زنجیر سارا احمد اتنی آسانی سے نیند نہیں آتی نیند آہستہ آہستہ خواب
نظم سارااحمد دوپہر کے چہرے کی چِک وہ گھر ایک خواب کی مانند ان دِنوں
ساتواں جنم سارا احمد مَیں چلتے چلتے جب تھک جاتی ہوں تو اپنی ایک چھوٹی
اندر کا آدمی سارا احمد اب کچھ بھی سوچنا عجیب نہیں لگتا میرے اندر کا
مانو سارا احمد اس سے کبھی دُکھ سنبھالے نہیں جاتے تھے- بارشیں ہوتیں تو وہ
فسانہ : ایندھن سارا احمد زندگی کسی کے انتظار میں آرزؤں کے چراغ آہستہ آہستہ
دَم سارااحمد درِ دل پہ جیسے دستک ہوئی تھی لیکن یہ تو بارش کے چھینٹے
دوست سارا احمد ایک نومولود غم اور ایک گود لیا خواب دوست نہیں بن سکتے