سچائی کبھی نہیں مرتی ۔۔۔ لیون ٹراٹسکی
سچائی کبھی نہیں مرتی
( لیون ٹراٹسکی )
آج سے 79 سال قبل 20 اگست کو میکسیکو میں ایک 60 سالہ جلاوطن بوڑھے کو قتل کر دیا گیا۔ ظاہری طور پر ایک انسان کا خون کیا گیا‘لیکن ایک نظریئے، سوچ اور انقلابی تناظر کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا مقصود تھا۔ روسی آمرجوزف سٹالن کے ایجنٹ رامان مرکاڈور نے ایک ایسے شخص کے سر پر بے دردی سے کلہاڑی کے جان لیوا وار کئے جس نے اقتدار، شہرت اور طاقت کی بلندیوں کو ٹھکرا کر جلاوطنی کی مصائب سے بھری زندگی اور بعد ازاں موت کو ترجیح دی لیکن اپنے نظریات کا سودا کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ شخص 1917ء کے بالشویک انقلاب کا معمار اور اس انقلاب کو کچلنے کے لئے روس پر حملہ آور ہونے والی 21 سامراجی ممالک کی افواج کو شکست فاش دینے والی انقلابی سرخ فوج کا بانی لیون ٹراٹسکی تھا، جس نے ولادیمیر لینن کی وفات کے بعد بالشویزم کی حقیقی روایات کا پرچم سربلند رکھا اور سوویت روس کی افسر شاہانہ زوال پزیری کے خلاف آخری دم تک جدوجہد کرتا رہا۔
لیون ٹراٹسکی کا اصل نام ’لیو ڈیوی ڈووچ برانسٹائن‘ تھا اور وہ یوکرین کے شہر کیرووگراڈ میں 26 اکتوبر 1879ء (پرانے روسی کیلنڈر کے مطابق) کو پیدا ہوا۔ ’ٹراٹسکی‘، برانسٹائن کا قلمی نام تھا جو اس نے زارِروس کے عقوبت خانے میں قید کے دوران اختیار کیا۔ نوجوانی کے دنوں میں ہی وہ خفیہ مارکسسٹ سٹڈی سرکل میں شمولیت اختیار کر کے ایک انقلابی بن گیا اور پھر کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا۔
1905ء کے پہلے روسی انقلاب کے دوران وہ پیٹروگراڈ سوویت کا سربراہ منتخب ہوا۔ پیٹروگراڈ سوویت روسی انقلاب اور پرولتاریہ کے گڑھ میں جنم لینی والی پہلی مزدور تنظیم تھی جس نے 1917ء کے انقلاب میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔ ابتدا میں ٹراٹسکی، لینن کے ساتھ انقلابی کام میں مصروف رہا لیکن 1903ء میں ’RSDLP‘ کے اندر تنظیمی اور نظریاتی بنیادوں پر ہونے والی تقسیم کے باعث دونوں الگ ہوگئے۔ دونوں کے مابین بنیادی اختلاف روسی انقلاب کے کردار پر تھا۔ ٹراٹسکی”انقلاب ِمسلسل“ کے نظریے کا خالق اور وکیل تھا۔ تقریباً 14 سال کے مباحثے اور غورو خوض کے بعد لینن نے ٹراٹسکی کے نظریے کے حق میں نتائج اخذ کئے۔ فروری 1917ء میں انقلابی شورش کے ذریعے عوام نے زار کی حکومت کا خاتمہ کردیا اورکئی سالوں کی جلاوطنی کے بعد روس واپس لوٹنے والے لینن اور ٹراٹسکی ایک بار پھر انقلابی جدوجہد میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہو گئے۔ جلاوطنی سے واپسی کے دوران لینن نے اپنا مشہورِ زمانہ ”اپریل تھیسس“ تحریر کیا جس میں اس نے انقلاب ِروس کے سوشلسٹ کردار کی توثیق کی۔
نظریہ ”انقلاب ِمسلسل“ کے مطابق سرمایہ دارانہ نظام کی ترویج میں تاخیر زدگی کا شکار تاریخی طور پر پسماندہ ممالک میں ”قومی جمہوری انقلاب“ کے فرائض صرف مزدور ریاست ہی مکمل کرسکتی ہے اور مزدور ریاست کا قیام سرمایہ دارانہ ملکیتی رشتوں پر ضرب لگائے بغیر ممکن نہیں۔ یوں انقلاب، قومی جمہوری مرحلے کے آگے بڑھ کر سوشلسٹ مرحلے میں داخل ہوجاتا ہے۔
1917ء کا انقلابِ روس اس نظریے کی پہلی کامیاب مثال تھی۔ اکتوبر 1917ء میں مزدوروں نے اقتدار پر صرف اس لئے قبضہ کیا کہ فروری انقلاب کے ذریعے اقتدار میں آنے والی بورژوازی‘قومی جمہوری انقلاب کا ایک بھی فریضہ ادا کرنے کی اہل نہیں تھی۔ پاکستان جیسے ممالک میں یہ نظریہ اوربھی درست ہے جہاں مقامی حکمران طبقہ پچھلے بہتر سالوں میں سماجی طور پر سرمایہ داری کا ایک بھی تاریخی فریضہ ادا نہیں کرسکا۔
ٹراٹسکی کے حریف اور قاتل جوزف سٹالن کی تحریریں انقلاب روس میں اس کے قائدانہ کردار کی گواہ ہیں۔ 10 نومبر 1918ء کو سٹالن نے پارٹی کے سرکاری اخبار’پراودا‘ میں لکھا ”انقلابی سرکشی کے تمام تر تنظیمی امور کامریڈ ٹراٹسکی کی ہدایات کے تحت انجام پائے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس برق رفتاری سے سپاہی سوویت کے ساتھ ملے اور جس مستعدی سے انقلابی ملٹری کمیٹی نے کام کو منظم کیا وہ سب کامریڈ ٹراٹسکی کی مرہون منت ہے جس کے لئے پارٹی ان کی احسان مند ہے۔“
انقلاب کے بعد شروع ہوجانے والی خانہ جنگی میں سرخ فوج کے قائد کی حیثیت سے ٹراٹسکی رد ِانقلابی فوجوں کے سامنے آہنی دیوار بن گیا۔ یہ جنگ بالشویک انقلاب کو کچلنے کے لئے اکیس ممالک کی فوجوں کے روس پر حملے کے بعد شروع ہوئی تھی جن میں امریکہ جیسے بڑے سامراجی ممالک بھی شامل تھے۔ زار کی بچی کھچی تین لاکھ سپاہیوں کی تباہ حال اور پست حوصلہ فوج کو ٹراٹسکی نے ایک کروڑ اسی لاکھ انقلابی سپاہیوں پر مشتمل ہیبت ناک سرخ فوج میں تبدیل کر دیا۔ محنت کشوں کے انقلاب کے دفاع کے لئے لینن نے دنیا بھر کے مزدوروں سے مدد اور یکجہتی کی اپیل کی جس کے جواب میں جارح ممالک کے اندر مزدوروں نے ہڑتالیں کیں اور ریاستی نافرمانی شروع ہوگئی۔ رد ِانقلابی سامراجی قوتوں کو مجبوراًپسپا ہونا پڑا۔
ٹراٹسکی امور خارجہ اور تعلیم جیسے بنیادی شعبوں کا کمیسار بھی رہا اور نومولود مزدور ریاست کو مستحکم کرنے لئے دن رات جانفشانی سے کام کیا۔ تاہم اس کی سب سے اہم جدوجہد روس کی پسماندگی اور تنہائی کے سبب شروع ہوجانے والی انقلاب کی افسر شاہانہ زوال پزیری کے خلاف تھی۔ بالشویک انقلاب کے بعد جرمنی سمیت یورپ کے کئی ممالک میں محنت کشوں نے انقلابی سرکشیاں کیں جنہیں بے دردی سے ریاستی جبر کے ذریعے کچل دیا گیا۔ نتیجتاً انقلاب سماجی، معاشی اور تکنیکی طور پر روس جیسے پسماندہ ملک میں مقید ہو کر رہ گیا۔ 1924-25ء کے چینی انقلاب کی شکست کے بعد روسی انقلاب کی زوال پزیری کا عمل اور بھی تیز ہوگیا۔ قلت اور ثقافتی پسماندگی کے باعث عوام اور سماج سے بالاتر ہو کر مراعات حاصل کرنے والی بیوروکریسی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ٹراٹسکی کی ”لیفٹ اپوزیشن“ تھی جس سے وابستہ کامریڈز بالشویک انقلاب کے حقیقی کردار اور مقاصد کو بچانے کی جنگ لڑ رہے تھے۔ 1927ء میں ٹراٹسکی کو ریاستی عہدے سے معزول کر کے کیمونسٹ پارٹی سے نکال دیا گیااور 1929ء میں روس سے جلا وطن کر دیا گیا۔ شہرت کی بلندیوں سے گر کر وہ ایک ایسا انسان بن گیا جس کے لئے یہ دنیا ”ویزے کے بغیر سیارہ“ تھی۔ تاہم اس عہد میں بھی وہ اپنے نظریات پر ڈٹا رہا اور سٹالنزم کے خلاف مردانہ وار جدوجہد جاری رکھی۔
جلاوطنی میں مارکسی نظریات اور تناظرات پر اس کی تحریریں آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ بن گئیں۔ 1936ء میں اس نے اپنی شاہکار کتاب ”انقلاب سے غداری“ تحریر کی جس میں روسی انقلاب کی افسر شاہانہ زوال پزیری اورمعیشت پر محنت کشوں کا جمہوری کنٹرول رفتہ رفتہ چھن جانے کی وجوہات پر سائنسی نقطہ نظر سے روشنی ڈالی۔ اس کتاب میں ٹراٹسکی نے جو پیش گوئیاں کیں وہ پانچ دہائیوں کے بعد دیوار برلن کے گرنے اور سوویت یونین کے انہدام کی شکل میں سچ ثابت ہوئیں۔
سٹالنزم کے خلاف جدوجہد اور پرولتاری بین الاقوامیت کا پرچم سربلند رکھنے کی پاداش میں ٹراٹسکی کے زیادہ تر اہل خانہ کو اس کی زندگی میں ہی قتل کروا دیا گیا۔ اس کے ہزاروں انقلابی ساتھی یخ بستہ سائیبیریا کے عقوبت خانوں میں بھوک، سردی اور جبری مشقت سے ہلاک ہو گئے۔ سوویت بیوروکریسی کے وظیفہ خوار ”کیمونسٹوں“ اور سرمایہ داری کے خدمت گزار دانشوروں نے ٹراٹسکی کے کردار کو مسخ اور اس کے نظریات کو غلط ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن تاریخ نے اسے ہر الزام سے بری کر کے اس کے نظریات کو سچ ثابت کیا۔ لیون ٹراٹسکی کی پوری زندگی مارکسسٹ تھیوری کی بالیدگی، ارتقا اوراضافے اور مارکسی نظریات کو عملی جامہ پہنانے کی جدوجہد سے عبارت ہے۔
زندگی کے آخری ایام میں ٹراٹسکی کے یہ الفاظ، استحصال سے پاک انسانیت کے مستقبل پر اس کے یقین اور اس عظیم مقصد کی جدوجہد میں کسی تذبذب یا پچھتاوے سے پاک اس کے عظم و حوصلے کے گواہ ہیں:
”جب تک میری سانس جاری ہے میں پرامید ہوں۔ جب تک میں سانس لیتا رہوں گا مستقبل کی لڑائی جاری رکھوں گا، ایک درخشاں مستقبل، جس میں انسان مضبوط اور خوبصورت ہو کر تاریخ کے دھارے کو اپنے قابو میں کرے گااور اسے خوبصورتی، خوشی اور مسرت کے لامحدود افق کی طرف موڑ دے گا۔ ۔ ۔ تھوڑی دیر پہلے نتاشا نے باغیچے کی طرف کھلنے والی کھڑکی کو تھوڑا اور کھول دیا تاکہ کمرے میں ہوا کا گزر ہو جائے۔ میں دیوار کے نیچے گھاس کی چمکدار سبز تہہ کو دیکھ سکتا ہوں جس کے اوپر شفاف نیلا آسمان ہے، ہر طرف سورج کی روشنی ہے۔ زندگی خوبصورت ہے۔ مستقبل کی نسلیں اسے مصائب، ظلم اور جبر سے پاک کر کے ہر ممکن حد تک لطف اندوز ہوسکیں گی۔“
( عمار یاسر )